چند گارڈز کی فقرے بازی کے سبب صدام حسین کی پھانسی رکنے کا امکان پیدا ہوا تھا۔ عراقی حکومت نے پھانسی کی فون ویڈیو کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دیں

بدھ 3 جنوری 2007 12:37

بغداد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین۔ 3جنوری2007ء ) سابق عراقی صدرصدام حسین کو پھانسی دیتے وقت چند افراد کی طرف سے فقرے بازی سے پھانسی کے رکنے کا امکان پیدا ہو گیا تھا- دریں اثناء عراقی حکومت نے اس معاملے کی تحقیق شروع کر دی ہے کہ سابق صدر کو پھانسی دیئے جانے کا عمل فون ویڈیو پر کس طرح سے فلمایا گیا-ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ پھانسی کے وقت معزول صدر صدام حسین پرفقرے بازی کے وقت استغاثہ کے مبصر منکث الفارون نے وہاں سے چلے جانے کی دھمکی دی تھی۔

منکث الفارون کو ویڈیو میں بھی ان لوگوں سے خاموش رہنے کے لیے کہتے سنا جاسکتا ہے، جو صدام حیسن پرفقرے کس رہے تھے۔صدام: آخری لمحات کی غیر سرکاری ویڈیومسٹر فارون کا کہنا ہے کہ انہوں نے جیل سے واک آوٴٹ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی اور اگر وہ ایسا کرتے تو پھانسی ملتوی کرنی پڑتی کیونکہ ملک کے آئین کے تحت استغاثہ سزائے موت پر عمل درآمد کے وقت استغاثہ کے مشاہد کی موجودگی لازمی ہے۔

(جاری ہے)

مسٹر الفارون کے مطابق انہوں نے دو سینئر سرکاری اہلکاروں کو ٹیلی فون پر پھانسی کی فلم بناتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ ’انہوں نے چھپ کر فلم نہیں بنائی، وہ یہ کام کھلم کھلا کر رہے تھے۔ اور مجھے اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے پیسوں کے لیے فلم بنائی ہو، لیکن یہ جرم ہوتا۔ اور پھانسی کوئی چھپ کر تو دی نہیں جار ہی تھی، ہم نے اس کا اعلان کیا تھا، اور ہمارے پاس فلمنگ کے لیے اپنا کیمرہ موجود تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فلم لوگوں کو دکھائی جانی تھی۔

یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ اتنا ہنگامہ کس بات پر ہو رہا ہے‘۔اب یہ معلوم کرنے کیلیے کہ فلم کس نے بنائی اور فون اندر کیسے پہنچے، عراقی حکومت نے ایک انکوائری کا اعلان کیا ہے۔عراقی حکومت کے ایک ترجمان محمد العسکری نے کہا کہ حکومت قانون کی پاسداری کرنا چاہتی ہے اور کسی کو قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لہذا یہ پتا لگانے کے لیے کہ یہ فلم کس نے بنائی اور صدام حسین پر فکرے کس نے کسے، ایک انکوائری کا حکم دیا گیا ہے تاکہ جس کسی سے بھی کوتاہی ہوئی ہے، اسے سزا دی جاسکے۔

موبائل فون پر بنائی گئی فلم میں پھانسی کے وقت موجود ایک شخص کی طرف سے سابق صدر کو’جہنم میں جاوٴ‘ کہتے سنا گیا۔برطانیہ کے نائب وزیراعظم جان پریسکاٹ نے صدام حسین کو پھانسی دینے کے طریقہ کار کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پھانسی کے وقت کے حالات انتہائی ’افسوس ناک‘ تھے۔عراقی حکام کو خدشہ ہے کہ صدام کی پھانسی کی اس غیر سرکاری ویڈیو فلم سے ملک کی سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ موبائل وڈیو فلم صدام کو پھانسی دیئے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد انٹر نیٹ پر جاری کر دی گئی تھی۔ وزیراعظم نور المالکی کے مشیر سمیع العکسری کے مطابق صرف ایک گارڈ کی وجہ سے اتنی بدنامی ہورہی ہے۔جلاد کے تختہ کھینچتے وقت ایک شخص صدام کو ’جہنم میں جاوٴ‘ کہتا ہے جبکہ دوسرے شیعہ رہنماوٴں کے جنہیں صدام حسین کے ایجنٹوں نے ’قتل کردیا تھا، کے نعرے لگاتے ہیں‘۔ اس کے جواب میں صدام ان سے طنزیہ انداز میں پوچھتے ہیں؟ کیا تم اسے بہادری سمجھتے ہو؟۔