بلوچستان میں آپریشن بند ہوتو بلوچ قوم پرستوں کو مذاکرات پر لایاجاسکتاہے اپوزیش، اکبربگٹی کی لاش پر اپوزیشن سیاست نہ کرے حکومت

منگل 19 ستمبر 2006 16:59

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین19 ستمبر2006 ) سینیٹ میں اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ حکومت بلوچستان میں فوجی آپریشن فوری بند کرے تو بلوچ قوم پرستوں کو مذاکرات پر پھر سے لایاجاسکتا ہے لیکن مذاکرات اورآپریشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں جبکہ حکومت نے کہاہے کہ اپوزیشن اکبربگٹی کی لاش پر سیاست نہ کرے اور بلوچستان کے حالات کو نہ بگاڑے اکبر بگٹی کی اپنی پارٹی سیاست کرنا چاہتی ہے یہ باتیں منگل کو ایوان میں بلوچستان کی صورتحال پر تحریک التواء پر اپوزیشن لیڈر رضاربانی اورحکومت کی طرف سے وزیر مملکت نصیر مینگل نے کہیں۔

حکومتی سینیٹر گلشن سعید نے بلوچستان کے معاملے پر تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن نواب اکبر بگٹی کی لاش پر سیاست کررہی ہے ملک سے باہر اکٹھے ہوکر نیا بلوچستان بنانے کی باتیں کررہے ہیں جو تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ سب سے بڑا غدار ہوگا۔

(جاری ہے)

ایم ایم اے کے سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ نواب اکبربگٹی کا قتل حکومت کی غلطی تھی اس معاملے پر سپریم کورٹ سوموٹوایکشن لے فوج کی واپس بیروکوں میں جانا چاہیے بلوچستان اوروزیر ستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے ۔

ایم ایم اے کے سینیٹر ساجد میر نے کہاکہ صوبوں کو خود مختاری دی جائے معاملات طاقت سے حل نہیں ہوتے ہیں اس کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جمہوریت کو فوری طورپر بحال کیا جانا چاہیے بلوچستان سے حکومتی سینیٹر پری گل آغا نے کہاکہ ہرشخص کو اپنے گھر اپنے صوبے اوراپے لوگوں کے لیے لڑناپڑتا ہے اکبربگٹی بہت بڑے لیڈر تھے لیکن اس معاملے کو درست انداز میں نمٹایاجاناچاہیے بلوچستان کی صورتحال پر جلتی پر تیل نہ ڈالا جائے۔

اکبر بگٹی کی شہادت پر نہیں بھی افسوس ہے بلوچستان میں آپریشن بند کیاجائے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو اکٹھے بٹھایا جائے اورسیاسی اندازمیں مسائل حل کیے جائیں پی پی پی کے سینیٹر فاروق نائیک نے کہاکہ گوادر بندرگاہ میں بلوچوں کو ہی نوکریاں دی جائیں اکبربگٹی کی ہلاکت سے فیڈریشن کو نقصان ہوگا اس معاملے کی ہلاکت سے فیڈریشنوں کو نقصان ہوگا اس معاملے کے اثرات سے بچنے کے لیے فوج کو واپس بیروکوں میں بھیجاجائے اورجمہوریت بحال کی جائے۔

مسلم لیگ ق کے سینیٹر جمال لغاری نے کہاکہ وہ ایک بڑے بلوچ سردار کے بیٹے ہیں اوراکبر بگٹی کی ہلاکت کے معاملے پر کسی بھی بلوچ نے اظہار خیال نہیں کیا ہے اکبر بگٹی کا ظلم وستم حدسے بڑھ گیا تھا بگٹی قبیلے کی تین شاخیں ہیں اوراکبر بگٹی نے دیگر شاخوں کو علاقے سے بے دخل کردیاگیاتھا اپنے ظلم وستم کو برقرار رکھنے کے لیے پرائیویٹ آرمی قائم کی گئی اورگیس رائلٹی کو اس نجی فورس پر خرچ کیا گیا گیس یاجوبھی قدرتی وسائل نکلتے ہیں اس کی رائلٹی صوبوں کو دی جاتی ہے لیکن سوئی میں رائلٹی کو سردار کو دیاجاتا رہا فوج ہمارے ملک کی محافظ ہے اوراس کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہے چھاوئنی بنائے اورکوئی بھی اس کے حق کو نہیں چھین سکتا وفاق کے خلاف جو تعصب پھیلایاجارہاہے بلوچستان میں ناخواندگی سے اسے مزید ہوادیا جاسکتا۔

بلوچوں کے حقوق دیے جائیں انہیں نوکری جی جائیں ان پڑھ لے روزگاروں پر بھی توجہ دی جائے ۔ایم ایم اے کے سینیٹر ڈاکٹر سعد نے کہاکہ بلوچستان کی عوام محرومی کا شکار ہیں اسے دورکرنے کے لیے بلوچستان کو صوبائی خود مختاری دی جائے حکومتی سینیٹر نثار میمن نے کہاکہ بلوچستان میں جوکچھ ہورہاہے اس کے بارے میں تاریخ ہی فیصلہ کرے گی اوربلوچستان میں بلوچوں اورسیکورٹی فورسز کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جس پر ہمیں افسوس ہے تمام مسائل سیاسی اندازمیں حل کیے جانے چاہیں ۔

ایم ایم اے کے سینیٹر رحمت اللہ کاکڑ نے کہاکہ سردار اکبر بگٹی سے جو معاملات طے کیے گئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا بلوچستان کے معاملے پر بننے والی پارلیمانی کمیٹیوں کے وہ بھی ممبر تھے لیکن انہیں کچھ نہیں بتایاگیا ان کمیٹیوں کاکیابناہے۔پی پی پی کے سینیٹر کامران مرتضی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حکومت سردار اکبربگٹی کوبہت براکہہ رہی ہے تو برے کو قتل کرنے کا یہ اندازدرست ہے بلوچستان کے حالات71ء جیسے کیے جارہے ہیں اپوزیشن لیڈر سینیٹر رضاربانی نے کہاکہ حکومت اکبر بگٹی کی لاش پر سیاست کا الزام لگارہی ہے۔

حکومت نے اکبر بگٹی کی لاش ورثاء کو ہی نہیں دی تو اپوزیشن کہاں سے لاش لائے گی موجودہ صدی میں دنیا ئے حریت پسندوں عسکریت پسندوں اوردہشت گردوں تک سے بھی مذاکرات کیے ہیں اورسیاسی اندازمیں ہی معاملات حل کیے جانے چاہیں حکومت نے بلوچستان کے مسئلے پر واضح اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کا وقت گزر گیاہے اوراب ہر صورت میں حکومت کی رٹ بحال کی جائے گی حکوت نے خود مذاکرات کے رستے بند کیے نوا ب اکبر بگٹی کی لاش ڈی این اے ٹیسٹ عالمی سطح کی لیبارٹریوں میں کرایا جائے۔

رضاربانی نے ایوان میں اعلان کیا کہ اگر حکومت بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرکے فوج کو بیروکوں میں واپس بلائے تو وہ بلوچستان کے سیاستدانوں کوو اپس مذاکرات پر لے آگیں گے اپوزیشن اپنے بلوچ بھائیوں کو مذاکرات پر رضامندکرلے گی اورانہیں بلوچ ساتھیوں پر یقین ہے آپریشن اورمذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے۔تحریک التوا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے تیل وگیس نصیر مینگل نے کہاکہ اکبر بگٹی کی پارٹی اراکین اسمبلیوں نے استعفے نہیں دیے ہیں حالانکہ ان میں اکبر بگٹی کے بھتیجے اور بھانجے شامل ہیں لیکن وہ سیاست کرناچاہتے ہیں لیکن ان لوگوں نے سیاسی بنیادوں پر استعفے دیے جو نواب اکبر بگٹی کہیں زندگی میں ان کی حمایت نہیں کرتے تھے پاکستانیت کے لیے سیاست کی جائے پارٹی اورذاتی عناصرکے لیے سیا ست نہ کی جائے بلوچستان کے معاملے کو بڑھانے کے لیے سیاست نہ کی جائے پاکستان کا جھنڈا سیاست دانوں کے سامنے جلایاگیا جو پاکستان کی بات کرتے ہیں ہر دور میں بلوچستان میں آپریشن کیا گیا اورکسی نے بھی نہیں بخشا ۔

بلوچستان ایک گلدستے کا پھو لہے اورہمیں اپنے ہر پھول کی قدر کرناچاہیے حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے بلوچستان کے بارے میں جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان کے بھر پورکا م کیا ہرعام شخص سے ملے80فیصد کام کرلیا گیا تھا لیکن قوم پرست سیاسی جماعتوں کے اراکین نے آخری وقت میں کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا افہام وتفہیم سے مسائل حل کرنا چاہتے تھے بلوچ پنجاب اورسندھ میں بڑی تعداد میں رہ رہے ہیں۔

بلوچستان میں بعض سیاستدان دہشت گردی کا راستہ اپنارہے ہیں وہ پاکستان کی بات کرنے والے سیاستدانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔نصیر مینگل نے مزید کہاکہ عوام ترقی چاہتے ہیں گوادر کچھی کینال سینڈیکٹ اور میرانی ڈیم سے بلوچستان میں ترقی کا انقلاب آجائے گا بلوچستان کے آباد کار صوبے کا حصہ ہیں انہوں نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ قربانیاں دی ہیں بلوچستان میں پاکستان کی بات کرنے والوں اوراس کے لیے مرمٹنے والوں کی اکثریت ہے تمام لوگوں کی خوشحالی اس میں ہے کہ وہ ترقیاتی کام کیے جانے چاہیں۔

بلوچستان میں تیل وگیس کی تلاش کو جاری رکھنے دیا جائے تو پاکستان اس خطے کا امیر ترین ملک بن جائے گا فوج کوہمیشہ سیاست دانوں کو بلایا سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں فوج اندرونی اوربیرونی سالمیت کی ذمہ دار ہے سیاستدانوں کو اپنا رویہ درست کیاجاناچاہیے۔