میاں نواز شریف کا خطاب،اور میڈیا کا منفی کردار!

جمعہ 3 جنوری 2014

Zameer Afaqi

ضمیر آفاقی

کچھ دن جاتے ہیں کہ لاہور کے گورنر ہاوس میں کرسمس کے موقع پرمنعقدہ تقریب میں میاں نواز شریف نے ملکی مسائل کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کہیں جو اس ملک کے مسائل کی بنیادی وجہ ہیں جن کے خاتمے کے بنا ملک ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے اور نہ ہی یہاں امن و امان قائم ہو سکتا ہے پاکستانی میڈیا میں ان کے کرسمس کے موقع پر کئے گئے خطاب کو وہ جگہ نہیں دی گئی جو اس کا حق تھا بلکہ کوشش کی گئی کہ اس کا زکر اذکار ہی کہیں نہ ہو ”مذہبی کالم نگار“ جو دنیا بھر میں ہونے والے کسی بھی واقعے پر کالموں کے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں جن افرادکو ان کے اپنے ممالک میں سزائیں دی جاتیں ہیں ہمارے یہ مذہبی کالم نگار انہیں ”ہیرو“ بنانے میں تو ید طولیٰ رکھتے ہیں مگر میاں صاحب کے اس خطاب پر خاموش نظر آئے جس میں انہوں نے بھائی چارئے، مساوات، تحمل، رواداری اور ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کی بات کی، میں سمجھتا ہوں اس طرح کی حرکت نہ صرف صحافتی بد دیانتی ہے بلکہ اخلاقی اور ذہنی گراوٹ کا بھی پتہ دیتی ہے ۔

(جاری ہے)


نہ جانے کیوں مجھے اس بات کا احسا س ہوتا جارہا ہے کہ یہ دونوں بھائی ،میاں نواز اور میاں شہباز شریف اپنے ماضی کو کہیں دفن کر کے جدید دنیا کے ساتھ چلنے ،پاکستان کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھنے کے ساتھ انہیں حل بھی کرنا چاہتے ہیں یہ جان چکے ہیں کہ امن و امان کے بغیر معاشرے ہوں یا ملک وہ نہ ہی ترقی کرتے ہیں اور ہی سکون حاصل کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا ادراک بھی ہوچکا ہے کہ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ ملک میں انتہا پسندی ہے جس میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے جکہ ہر آدمی سہما اور ڈرا زندگی گزار رہا ان کا عزم تو یہی لگتا ہے کہ وہ اس مسلے کو ختم کر کے ہی چین لیں گے۔ ان کے بیانات اور مختلف فورم پر خطابات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ملک کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب ان کے اس خطاب جو انہوں نے کرسمس کے موقع پر کیا جس کو پاکستانی میڈیا نے نظر انداز کیا میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اقلیتوں نے ملک کی ترقی اور دفاع کے لیے قابل فخر کردار ادا کیا ہے، چند گمراہ لوگ فساد برپا کرتے ہیں اور اس کے لیے مذہب جیسے پاکیزہ جذبے کا استحصال کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پشاور کے گرجا گھر میں انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلنے والے اکثریت کے نمائندے نہیں، ان کے لیے نہ مسجد کی کوئی حرمت ہے نہ گرجا گھر کی۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کا آئین مذہبی بنیادوں پر پاکستانی شہریوں میں کسی امتیاز کی اجازت نہیں دیتا، یہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا یکساں احترام کرتا ہے، بعض لوگ مذہب کودنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیںِ‘ ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے اور انہیں ناکام بنانا ہے۔
جناب نواز شریف نے کہا کہ یکسانیت کے باوجود اگر مذہبی اختلاف سماجی امن کا مسئلہ ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے مذہب کا استحصال، ہم میں سے بعض لوگ مذہب کودنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ ان کا مفاد اسی میں ہوتا ہے کہ مذہبی اختلافات نہ صرف زندہ رہیں بلکہ یہ انسانوں کے درمیان امتیاز کا باعث بنیں۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے فاصلے پیدا ہوتے ہیں اور محبت کی جگہ عداوت لے لیتی ہے،اس لئے ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے اور انہیں ناکام بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی منافرت میرے لئے کئی وجوہات کی بناء پر تشویش کا باعث ہے، ایک تو یہ کہ پاکستان کا آئین مذہبی بنیادوں پر پاکستانی شہریوں میں کسی امتیاز کی اجازت نہیں دیتا، یہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا یکساں احترام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جان و مال‘ عزت اور آبرو کا تحفظ ہر شہری کا حق ہے‘ چاہے اس کا تعلق کسی مذہب یا جماعت سے ہو۔وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی اقلیتوں نے ملک کی ترقی اور دفاع کے لیے قابل فخر کردار ادا کیا ہے، یہ پاکستان کی افواج‘ بیورو کریسی‘ عدلیہ‘ پارلیمان اور حکومت کا حصہ بن رہے ہیں اور بنتے رہیں گے جبکہ انہوں نے کہا 'ہم نے حکومت کی ہر پالیسی میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں، اس میں مذہبی حوالے سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ اقلیتوں کے لیے وفاقی ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ مخصوص کیا گیا ہے، جس سے ہمارے مسیحی بھائی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے اقلیتی آبادیوں کی ترقی کے لیے موجودہ سال 20 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے اور ساتھ ہی ڈیڑھ کروڑ روپے غریب اور مستحق اقلیتی طالب علموں کے وظائف کے لیے مختص کئے ہیں جبکہ جوزف کالونی میں پیش آنیوالے بدقسمت واقعہ میں متاثرہ خاندانوں کو پانچ لاکھ فی خاندان دیئے گئے اور ان کے گھروں اور گرجا گھر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تاکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی ہنسی خوشی گزار سکیں اور عبادت کرسکیں۔انہوں نے کہا 'پاکستان کو آج جن بحرانوں کا سامنا ہے‘ اس کا ہدف ہم سب ہیں، دہشت گردی نے کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کو متاثر نہیں کیا، عزت مذہبی شناخت دیکھ کر دستک نہیں دیتی، جہالت نے کسی خاص فرقے یا مذہب کو نشانہ نہیں بنایا۔ سب کو بنایا ہے۔۔
اگر دیکھا جائے تو میاں صاحب نے اپنے اس مختصر خطاب میں نہ صرف پاکستانی معاشرے کے مرض کی تشخیص کر دی ہے بلکہ اس کا علاج بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ ان کے اس خطاب پر ہر چینل پر ٹاک شو ہوتے اور ادارتی صحفات میں کالم لکھے جاتے لیکن افسوس ”خود ساختہ اصلاحی گروپ جو خود کو خدائی فوج دار بھی سمجھتا ہے“ کے نذدیک ایسی کوئی بھی بات یا اعلان جس سے اس ملک کے دکھوں کا اعلاج ہو سکتا ہے اور معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہو کوئی وقعت نہیں رکھتا یہ لوگ وینا کی شادی ،نفرت کے بیوپاریوں اور پاکستان کے خلاف بات کرنے والے دہشت گردوں کی تو سارا سارا دن لائیو کوریج کریں گے مگر جو امن اورسلامتی کے ساتھ پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بات کرے اسے جگہ دینے کے لئے کمرشل میڈیا بلکل تیار نہیں۔۔ہم سمجھتے ہیں میاں صاحب کے اس خطاب کو ملکی پالیسی کا نہ صرف حصہ بننا بلکہ اس پر عملدرامد بھی ہونا چاہے تا کہ مذہبی بنیادوں پر ہونے والے استحصال کا خاتمہ ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :