غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے انکشافات

اتوار 28 جون 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

یہ 2012کا واقعہ ہے برطانوی اخبار دی سن کے ایک رپورٹر نے بھیس بدل کر پاکستان کا دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران اس نے بوبی نامی شخص سے ملاقات کی اور پاکستانی پاسپورٹ بنوانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ بوبی نے چند ہی دنوں میں اس رپورٹر کو اس کاجعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوایا دیا ۔اس کے بعد اس رپورٹرنے بوبی سے کہا کہ وہ برطانیہ جانا چاہتا ہے مگر وہ ویزہ لینے کیلئے بنائے گئے معیار پر پورا نہیں اترتا ۔

بوبی نے اسے تسلی دی کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں اس کا دوست عابد چودھری یہ کام بآسانی کر سکتا ہے ۔ لہذا بوبی اسے لاہور کے رہائشی عابد چوہدری کے پاس لے گیا ۔ان دنوں چونکہ برطانیہ میں اولمپکس گیمز ہونے جا رہی تھیں لہذا عابد چوہدری نے رپورٹر کوپاکستان کی جانب سے اولمپک دستے کا حصہ بن کربرطانوی ویزا حاصل کرنے کی پیشکش کی ۔

(جاری ہے)

رپورٹر کو بتایا گیا کہ دس لاکھ روپے کے عوض اس کا برطانیہ کا ویزہ لگ جائے گا اور وہ اولمپکس دستے کے ساتھ برطانیہ چلا جائے گا۔

رپورٹر نے یہ ساری معلومات جمع کیں اور برطانیہ لوٹ گیا ۔ وہاں جا کر اس نے 23جولائی 2012 کودی سن اخبار میں ایک رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا پاکستان میں جعلی دستاویزات اور پاسپورٹس بنائے جا رہے ہیں اور ان دستاویزات اور پاسپورٹ کا خرچہ 88ہزار روپے آتا ہے ۔ رپورٹ مرتب کرنے والے رپورٹر کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ جعلی پاسپورٹ بنانے والا گروہ برطانیہ میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں عام افراد کو پاکستانی دستے کا حصہ بنا کر بھیج سکتا ہے ۔

پاکستانی دستے کا حصہ بننے کیلئے فی کس 10لاکھ 36ہزار روپے وصول کئے جائیں گے ۔اس خبر کے شائع ہوتے ہی پاکستان میں ہلچل مچ گئی اور وفاقی و صوبائی حکومت نے لاہور کی ٹریول ایجنسی ڈریم لینڈ کو سیل کر دیا اور متعلقہ افراد کو گرفتار کر کے تشویش شروع کر دی ۔ جون ایلیا مرحوم نے کہا تھا
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں اپنے داخلی معاملات بھی غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے توسط سے یاد آتے ہیں ۔

برطانوی اخبار دی سن کے بعدہمیں گزشتہ ماہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بتایا کہ پاکستان میں جعلی ڈگریوں کا کاروبار عروج پر ہے تو ہمیں اچانک یاد آگیا کہ ایسے اداروں کی بیخ کنی اور گرفت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے ۔ پھر کیا تھا ریاست نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور شعیب شیخ اور اس کے ادارے ایگزیکٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔اب بیچارہ شعیب شیخ کراچی میں اکانومی کلاس جیل میں مقید کہہ رہا ہے
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
سنا ہے کراچی میں لوگ گرمی ،حبس اور لو سے عدم کی جانب منتقل ہو رہے ہیں ۔

چونکہ میرا جغرافیائی نالج نہ ہونے کے برابر ہے لہذا میں نہیں جانتا کہ لانڈھی جیل جہاں شعیب شیخ قید ہے، بلوچستان کے پر فضا مقام زیارت میں واقع ہے یا کراچی میں ،جہاں گرمی سے لوگ زیر زمین منتقل ہورہے ہیں ۔ وفاقی حکومت داد تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے شعیب شیخ کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی اجازت حاصل کر لی ہے ۔ کوئی مجھ سے مشورہ لیتا تو میں بھی یہی کہتا کہ شعیب شیخ کو کراچی سے جلدی نکال لو کہیں وہ بھی گرمی سے مر ہی نہ جائے کیونکہ ایسے لوگوں کو مرنا نہیں چاہئے بلکہ نشانہ عبرت بننا چاہئے ۔

فرعونوں کے دیس میں مزید کسی فرعون کا اضافہ پہلے سے موجود فرعونوں کو گوارا نہیں ہوتاکیونکہ اس سے ان کی وہ سلطنت جس کے وہ بلاشرکت غیرے شہنشاہ ہوتے ہیں ، میں بٹوارے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔بات نکلتی ہے تو پھر دور تلک جا پہنچتی ہے ،میں عرض کر رہا تھا کہ ہمیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہاہے ۔ کیا یہ ہماری سلامتی کے ضامن قومی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے کہ ان اداروں کو تین عشروں سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایم کیو ایم بھارت سے مالی امداد اور عسکری تربیت حاصل کررہی ہے۔

جبکہ بی بی سی نے محض تین دن کی انوسٹی گیشن سے یہ پتہ چلا لیا کہ ایم کیو ایم ہمسایہ ملک بھارت سے مالی امداد کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی حاصل کرتی ہے ۔ ناقابل فہم امر یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے اور عدالتیں ایم کیو ایم کے معاملے میں اس قدر نرمی کا مظاہرہ کیوں کرتی ہیں ۔اجمل پہاڑی اور صولت مرزا جیسے ایم کیو ایم کے کارکنان عدالتوں میں گواہی دے چکے ہیں کہ وہ بھارت کے شہر دہلی سے تربیت حاصل کر کے آئے ہیں ۔

خدا جانے یہ کیسا بھید ہے جو کسی پر آشکار نہیں ہوتا کہ ایم کیوایم پر صلہ رحمی کا سبب کیا ہے ۔چھوڑیں ایم کیو ایم کے موضوع کو، رب تعالیٰ نے جب تک ان کی رسی دراز کر رکھی ہے تب تک کوئی فوجی اور نیم فوجی آپریشن ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی پکڑ کا فیصلہ کر لیا تو پھر حکومت یا ریاست متحرک ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ ان کا بیڑ اغرق کر کے ہی چھوڑیں گے ۔


ابتدائی سوال دہراتا ہوں ہمیں غیر ملکی ذرائع ہی کیوں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے ہماری اپنی سکیورٹی فورسز اور قومی ادارے اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب کیوں ہو رہے ہیں ؟۔ کیا کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ عسکری اداروں کا کام ریاست کا دفاع اور انتظامیہ اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ریاست کے داخلی امور کو مثبت انداز میں چلانا ہوتا ہے تاکہ ملک محفوظ انداز میں ترقی کی منازل طے کرے ۔ مگر کیا کیجئے کہ متذکرہ تمام ادارے محض غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں اور اخبارات کے انکشافات پر ہی متحرک ہوتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :