موروثی سیاست غریبوں کیلئے زہرقاتل

جمعرات 19 نومبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

میں سوچوں میں گم جبکہ وہ چاروں سیاسی بحث و مباحثے میں حدیں کراس کرکے بہت آگے نکل چکے تھے۔ ایک طرف اگر میاں نواز شریف اور عمران خان کی ثناء خوانی کے پھول برسائے جارہے تھے تو دوسری طرف ڈرون طیاروں کی طرح آصف زرداری، پرویز مشرف، اسفند یار ولی و دیگر سیاستدانوں اور لیڈروں پر طنز اور مخالفت کے تیروں سے پے در پے حملے تسلسل کے ساتھ جاری تھے۔

پورے کمرے کو سیاست کے گردوغبار نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ قریب تھا کہ وہ چاروں اپنے اپنے لیڈروں اور سیاستدانوں کے دفاع و حق کیلئے آپس میں دست و گریباں ہوتے اچانک ایک اسی سالہ سفید ریش بزرگ گلہ صاف کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ میرے قریب بچھائے گئے بسترپرتکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے بزرگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

(جاری ہے)

پھر چاروں نوخیز سیاسیوں کی طرف منہ کر کے گویا ہوئے، سیاست سیاست کی رٹ لگاتے ہوئے پورے کمرے کو تم نے سر پر اٹھا رکھا ہے، باہر پورا محلہ تمہاری چیخ و پکار سے گونج رہا ہے۔

لوگ کانوں میں انگلیاں دے کر رات کے اس درمیانے پہر سوچ رہے ہیں کہ یہ پاگل کہاں سے آئے ہیں ۔۔؟ اپنے ساتھ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور شریف لوگوں کو پاگل بنانے سے پہلے بتاؤ تو سہی اس سیاست نے تمہیں دیا کیا ہے ۔۔؟ میں پچھلے اسی سال سے دیکھ رہا ہوں نواز شریف، آصف زردای، اسفندیار ولی، پرویز مشرف، چوہدری شجاعت، عمران خان جیسے سیاسیوں کے گن یہی غریب اور آپ جیسے بیوقوف عوام گا رہے ہیں۔

۔ فلاں لیڈر اور سیاستدان زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعرے بھی یہی عوام لگا رہے ہیں۔۔ جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور دھرنوں کے دوران یہ لیڈر اور سیاستدان چوہوں کی طرح پیچھے جبکہ یہی پاگل عوام سب سے آگے ہوتے ہیں۔۔ لاٹھیاں اور گولیاں لیڈروں اور سیاستدانوں پر نہیں انہی غریب عوام پر برستی ہیں۔ جیوے مشرف، جیوے عمران خان اور جیوے نواز شریف کے نعرے لگا کر اپنے گلے بھی یہی غریب پھاڑتے ہیں۔

۔ الیکشن کے دوران بھی یہی عوام جوتے سر پر ر کھ کر ننگے پاؤں اور خالی پیٹ ان سیاستدانوں اور لیڈروں کو کامیاب کرانے کیلئے دوڑتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود آج تک میں نے کسی غریب کو اس ملک کا صدر اور وزیر اعظم کیا کوئی وزیر، مشیر، ایم این اے اور ایم پی اے بنتے نہیں دیکھا۔۔ ایسی قربانیاں دینے کا کیا فائدہ جس کا کوئی ثمر بھی نہ ملے۔۔؟ ایسے لیڈروں اور سیاستدانوں کے گن گانے کی بجائے ان پر ہزار بار لعنت کیوں نہیں بھیجتے جو تمہاری قربانیوں کا پھل ہڑپ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔

۔ میں نے بھی نواز شریف، بے نظیر بھٹو کیلئے بڑے بڑے نعرے لگائے۔۔ میں بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے جلسوں اور جلوسوں کے دوران صف اول میں کھڑا رہا۔۔ میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے ہمیشہ غریبوں کو ہی سیاسی جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور احتجاج کے دوران کٹتے اور مرتے دیکھا لیکن اسی سالہ زندگی میں میں نے اقتدار کی کرسی پر کبھی کسی غریب کو بیٹھتے نہیں دیکھا۔

۔ایسے میں بقول شاعر۔۔۔۔جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی۔۔۔۔اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔۔۔تم ایسی سیاست ، ایسے لیڈروں اور سیاستدانوں کو آگ میں جلاتے کیوں نہیں ہو۔۔؟ تمہارے آباؤ اجداد بھی مرتے دم تک سیاست سیاست کرکے دنیا سے چلے گئے لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔ جب تک اس ملک میں موروثی سیاست کا باب کھلا ہوا ہے۔ تب تک تم اور تمہاری آنے والی نسلیں بھی سیاست سیاست کرتی رہیں ۔

نہ آپ کو کچھ ملنے والا اور نہ ہی تمہاری آنے والی نسلوں کے ہاتھ کچھ لگنے والا ہے۔ ۔کیونکہ اس ملک کے جاگیردار، سرمایہ دار، خان، نواب، چوہدری اور رئیس کبھی نہیں چاہتے نہ وہ یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ کسی غریب کا بیٹا ان کا ایم این اے یا ایم پی اے بنے۔ ملکی سیاست کی تمام ڈوریں انہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں، نوابوں اور رئیسوں کے اشاروں پر ہل رہی ہیں۔

ایسے میں موروثی سیاست کے ہوتے ہوئے اس ملک میں اقتدار کی کرسی تک کسی غریب کا پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ بزرگ سب کو سلا کر اپنی آرام گاہ میں واپس پہنچ گئے لیکن میں کافی دیرتک سوچتارہاکہ یہ حقیقت جاننے کے باوجودکہ قربانیاں ہمیشہ غریب دیتے ہیں اورپھل پھریہی امیرطبقہ ہڑپ کرتاہے۔اس کے باوجودہم عوام پھران سیاستدانوں اورحکمرانوں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں ۔

۔بزرگ نے ٹھیک کہااس ملک کی تاریخ میں آج تک کسی غریب کابیٹانہ توصدربن سکانہ وزیراعظم اورنہ ہی کسی غریب کے بیٹے کوایم این اے یاایم پی اے بننے کاشرف حاصل ہوا۔۔ملک میں جب بھی نئے انتخابات ہوتے ہیں تونئے نئے چوہدری۔خان ۔نواب ۔وڈیرے اوررئیس ہمارے لیڈربن کرسامنے آجاتے ہیں۔۔ آج تک کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے کسی غریب کے بیٹے کوصدر۔وزیراعظم،ایم این اے اورایم پی اے کی نشست کیلئے امیدوارنامزدنہیں کیاگیا۔

غریب کابیٹاہردورمیں سیاسی پارٹیوں کاایندھن توضروربنالیکن وہ کسی پارٹی کالیڈرکبھی نہیں بن سکا۔ملک میں جاری موروثی سیاسی نظام نے غریب کوغریب ترکرنے کے ساتھ سیاسی غلامی کی زندگی گزارنے پربھی مجبورکردیاہے ۔سیاسی پارٹیوں کواقتدارمیں آنے کے بعدتویہ غریب یادنہیں رہتے لیکن اقتدارپہنچنے کے لئے وہ انہی غریبوں کوزرخریدغلام سمجھ کرلاٹھیوں اورگولیوں کے آگے کرتے ہیں ۔

جب تک اس ملک سے موروثی سیاسی نظام کاخاتمہ نہیں کیاجاتااس وقت تک غریبوں کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے ۔اس لئے دوسروں کوسہارااورایندھن فراہم کرنے کی بجائے غریب عوام کواپنے حقوق کے حصول کے لئے موروثی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھڑانی ہوگی ۔یہ ملک جتناجاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں، نوابوں اور رئیسوں کاہے اس سے کہیں زیادہ اس کی مٹی پرہماراحق ہے ۔ہمارے آباؤاجدادنے ہی توقربانیاں دے کراس کوآزادکرایاتھا۔۔حمزہ شہباز،بلاول بھٹوجیسے کل کے بچے اگرلیڈربن سکتے ہیں توبرسوں سے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کرنے والے غریب کیوں نہیں ۔۔؟اس لئے اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچناہوگاتاکہ ہمیں سیاسی غلامی سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :