دورجدیدکے سیاستدانوں سے اللہ بچائے

ہفتہ 5 دسمبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

نوجوان کے چہرے پر غصے کے آثار اب بھی نمایاں تھے۔ اس کے لال پیلے چہرے اور سرخ آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ اندر کی ہانڈی اب بھی غصے سے ابل رہی ہے۔ وہ میرے قریب آکر بیٹھا، پانی کی ایک یخ گلاس سے اپنے سینے میں غصے کی جلتی آگ بجھانے کی ناکام کوشش کے بعد خالی گلاس کو میز پر رکھتے ہوئے نوجوان دل کی بھڑاس زبان پرلانے لگا۔ سائیں تو سائیں، سائیں کا غلام بھی سائیں، نوجوان پچھلے پانچ منٹ سے یہی سائیں سائیں کی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ میں نے اچانک ٹوکتے ہوئے کہا !یہ کیا سائیں سائیں کا ڈرامہ شروع کررکھاہے۔

۔۔۔؟کہیں نواب رئیسانی سے ملاقات کاشرف توحاصل نہیں کیا۔نوجوان میری طرف دیکھتے ہوئے منتخب ممبران اسمبلی کے خلاف پھٹ پڑے۔ آپ عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، پرویز خٹک، شہباز شریف، چوہدری شجاعت، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور آفتاب شیرپاؤ سے نیچے تو کسی کی بات ہی نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

۔۔۔؟ آپ بڑے لوگوں کو تو بڑوں کی ہی فکر ہوتی ہے، ذرہ بلندی سے پستی پر آکر تو دیکھیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔

۔؟ سائیں تو سائیں ہیں وہ تو سب کو پتہ ہے مگر اس ملک میں تو سائیں کے غلام بھی سائیں ہیں۔ میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا میں سمجھا نہیں ۔ کہنے لگا آپ سمجھیں گے بھی کیسے۔۔؟ بلاغریبوں کے دکھ اور درد کو کبھی کوئی سمجھا بھی ہے۔۔؟ جو نواز شریف غریبوں کے بارے میں سوچتے سوچتے سر کے بال اڑا بیٹھے ۔۔ جو زرداری غریبوں کی فکر میں اپنی پیاری اہلیہ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

۔ جو عمران خان غریبوں کیلئے اپنا گھر اجاڑ گئے۔۔ پھر بھی اگر غریبوں کے دکھ درد کو وہ نہیں سمجھ سکیں تو آپ جیسے لوگ کیاخاک سمجھیں گے۔۔؟ اگر غریبوں کے دکھ درد کو کوئی سمجھتایا ان کی کسی کو فکر ہوتی تو میرا سر اس طرح نہ چکراتا۔ میں ایک اخبار کا رپورٹر ہوں۔ سیاستدان، منتخب ممبران اور سرکاری افسران مجھے دیکھ کر سیلوٹ کرتے ہیں۔ میں کسی سے بات کروں یا نہ پر ہر شخص میرے قریب آنے اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہزارہ کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز سے میرا اچھا خاصا تعلق ہے اور سب مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ کل اچانک مجھے ایک مسئلہ درپیش آیا۔ جن کو حل کرنے کیلئے کسی ایک ایم پی اے سے رابطہ کرنا ضروری تھا۔ میں نے ایک نہیں ہزارہ کے تین ایم پی ایز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک صاحب کا موبائل 3 گھنٹوں تک مسلسل مصروف ملا، دوسرے کا پاورڈ آف اور تیسرا بل جانے کے بعد آخر تک خود اپنا نمبر بزی کرتا رہا۔

تین گھنٹوں کے بعد جب میرے ہاتھ نمبر ڈائل کرتے کرتے تھک گئے۔۔ اعصاب جواب دے گئے اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ تو میں نے ایک نعرہ لگایا ”جیو 2015ء کے سیاستدانوں“ اور اپنے موبائل سے تینوں ممبران اسمبلی کے نمبر ختم کر دئیے۔ جوزوی صاحب سوچیں تو سہی۔ سائیں کے غلام سائیں ہیں یا نہیں۔ ۔؟آپ نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری، اسفند یار ولی اور دیگر بڑے بڑے لیڈروں کی بات کرتے ہیں کہ انہیں غریب عوام کی فکر نہیں۔

پہلے تو سائیں کے ان غلاموں کو دیکھیں جو غریب عوام کی طاقت سے اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ میں اگر کسی پی ٹی سی ایل نمبر کے ذریعے سائیں کے ان غلاموں سے رابطہ نہیں کر سکتا تو وہ غریب لوگ جن کو یہ دور سے جانتے بھی نہیں اپنے مسائل کے حل کیلئے آخر ان سے کس طرح رابطہ کریں گے۔۔۔۔؟ کوئی غریب بھوک سے مرتا ہے تو مرے۔۔ کوئی لینڈ سلائیڈنگ تلے دبتا ہے تو دبے۔

۔ کوئی سیلاب میں بہتا ہے تو بہے۔۔ کوئی آگ میں جلتا ہے تو جلے۔۔ کوئی ظلم کی چکی میں پستا ہے تو پسے۔۔ کوئی پولیس گردی کا نشانہ بنتا ہے تو بنے یا کوئی شیر کے منہ میں جاتا ہے تو جائے۔ ان ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کوئی پرواہ اور فکر نہیں۔ ان کے یہ موبائل غریبوں کو آئندہ الیکشن تک اسی طرح پاورڈ آف اور بزی ملیں گے۔ غریب چاہتے ہوئے بھی نہ ان سے کبھی مل سکیں گے نہ کوئی بات کر سکیں گے۔

کیونکہ سائیں کے ان غلاموں تک پہنچنا اور ان کا دیدار کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ میں نے کہا رپورٹر صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں پہلے لوگ دعا کرتے تھے کہ اللہ پولیس۔۔ کچہری اور ہسپتال سے بچائے لیکن اب لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کچہری۔۔ ہسپتال ۔۔پولیس اور منتخب ممبران اسمبلی سے بچائے۔ کیونکہ کچہری، تھانوں اور ہسپتالوں کے ساتھ اب اگر منتخب ممبران اسمبلی تک کوئی کام پیش آئے تو پھر اس کیلئے بھی کچہری، تھانوں اور ہسپتالوں جیسے چکر پر چکر کاٹنے اور پاؤں پر پاؤں پکڑنے پڑتے ہیں۔

غریبوں کی تو اس وقت جان ہی نکل جاتی ہے جب وہ اپنے منتخب ممبران اسمبلی سے ملنے کیلئے ایم این اے اور ایم پی اے کے ہاسٹل میں پہنچ کر سخت سیکیورٹی حصار سے گزرنے کے بعد دروازے پر دستک دینے سے پہلے یہ پراسرار آواز سنتے ہیں کہ ”صاحب موجود نہیں“ میلوں کا سفر طے اور ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی جب صاحب سے ملاقات نہیں ہوتی تو اس وقت پھر ایک غریب کی کیا حالت ہوگی۔

۔؟ انتخابی مہم کے دوران تو بڑے بڑے دعوے سب کرتے ہیں۔۔ خدمت کے نعرے بھی سب لگاتے ہیں۔۔ میرے دروازے آپ کیلئے ہر وقت کھلے ہیں یہ آوازیں اور صدائیں بھی ہر طرف سے سنائی دیتی ہیں لیکن الیکشن جیتنے اور ایم این اے و ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد یہ لوگ تو پھر خود غریبوں سے بھی زیادہ غریب ہو جاتے ہیں پھر ان کا نہ کوئی در ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دروازہ۔

۔ موبائل استعمال کرتا تو پھر ان کی شان کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ موبائل کو آف رکھتے ہیں یا پھر مصروف تاکہ کسی کو ان سے بات کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ سائیں کے غلام بھی سائیں ہوتے ہیں یہ سائیں نہ ہوتے تو ان کے ناز نخرے اس قدر نہ بڑھتے نہ ہی یہ عوام سے نظریں چرانے اور دور بھاگنے کی کبھی کوشش کرتے۔بس اللہ سے ایک ہی دعا ہے کہ اللہ ایسے بے رحم، نااہل، لاپرواہ اور مفاد پرست سیاستدانوں اور دور جدید کے ان منتخب ممبران اسمبلی سے ہر غریب کو بچائے تاکہ کوئی غریب ان کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :