بلدیاتی ممبران ہی نشانہ کیوں۔۔۔۔؟

جمعرات 14 جنوری 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ملک کے دیگر شہروں کی طرح مانسہرہ کے عوام نے بھی مجھے ہمیشہ عزت اور محبت دی۔ اب بھی میری ماؤں اور بہنوں سمیت نہ صرف مانسہرہ کے دیگرلوگ میرے کالم پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات میسج، کال یا ای میل کے ذریعے یاد بھی کرتے ہیں۔ میرے قارئین ہی میرا کل سرمایہ ہیں۔ میں نے قلم کے ذریعے بینک بیلنس، گاڑیاں اور بنگلے تو نہیں بنائے لیکن اس قلم کے ذریعے ہمیشہ حق و سچ کی آواز بلند کرکے میں نے ہزارہ سمیت ملک بھر میں اپنے قارئین کا ایک وسیع حلقہ ضرور بنایا۔

جس پر مجھے فخر اور خوشی ہے۔ مانسہرہ کی یونین کونسل پیراں ویلج کونسل چہڑ کے جنرل کونسلر مقبول الرحمن بھی میرے قارئین میں سے ایک ہیں۔ مقبول الرحمن نے بھی خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اس امید سے حصہ لیا تھا کہ وہ منتخب ہو کر علاقے کے غریب عوام کو درپیش مسائل حل اور علاقے سے پسماندگی کا خاتمہ کر دیں گے لیکن اس کو یہ نہیں پتہ تھا کہ اس ملک میں غریب عوام کے غریب نمائندوں کو بھی کچھ نہیں ملتا۔

(جاری ہے)

بات تو یہ ہے کہ اگر غریب عوام کے غریب نمائندوں کو کچھ ملتا تو کیا اس ملک میں پھر غریبوں کے مسائل اسی طرح جوں کے توں رہتے۔۔؟ دور دراز، دیہی اور پسماندہ علاقوں میں آج بھی اگر مسائل پر مسائل ہیں۔بجلی، گیس، تعلیم، صحت اور سڑکوں سمیت دیگر بنیادی سہولیات نہیں تو اس کی بڑی وجہ ہی ان علاقوں کے منتخب ممبران، نمائندوں اور سیاستدانوں کو نظرانداز کرنا ہے۔

اس ملک میں بلدیاتی سسٹم تو عرصے سے رائج ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے شہروں کے ساتھ دیہی اور دور دراز علاقوں میں بھی ہر دور میں ممبر، چےئرمین اور کونسلر منتخب ہوئے لیکن تاریخ میں کبھی ان کو اختیارات دے کر اقتدار میں شریک نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے۔ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات اور اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے دعوے اور وعدے کئے۔

اس سلسلے میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ایک نہیں کئی ترامیم بھی کی گئیں لیکن انتخابات کے بعد۔۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔ کے مترادف غریب ممبران کی آج بھی وہی حالت، وہی اختیارات اور وہی حیثیت۔ تحریک انصاف نے توموجودہ بلدیاتی ممبران کو اس قدر بااختیار بنا دیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے کئی مہینے بعد بھی وہ ابھی تک اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکے۔

ایسے میں وہ عوام کے حقوق کیسے حاصل کریں گے۔۔؟ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے نام پربلدیاتی نظام میں ترامیم کرکے اختیارات اور اقتدار کو غریب عوام سے مزید دور کر دیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون اور نظام رائج ہے۔ بلکہ پی ٹی آئی حکومت نے تو اس کو مزید پھیلا دیا ہے۔ آج بھی جتنا بڑا بدمعاش، جتنا بڑا ڈاکو، جتنا بڑا چور، جتنا بڑا لٹیرا اور جتنا بڑا کوئی امیر ہے اس حساب سے ان کے اختیارات، مراعات اور عہدہ بھی اتنا بڑا ہے۔

یقین نہ آئے تو تحریک ا نصاف کا بلدیاتی نظام ہی دیکھ لیں۔ صوبائی حکومت نے ضلعی ناظمین، تحصیل ناظمین اور چےئرمینوں کی تنخواہ تو مقرر کر دی ہے لیکن غریب ممبران کو لاوارث چھوڑ کر کسی کھاتے میں شمار نہیں کیاگیا۔ غریب بلدیاتی ممبران کو مراعات نہ دینا کیا اختیارات اور اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔۔؟ کیا امیروں کوغریبوں پر ترجیح دینا ہی تبدیلی ہے۔

۔؟ قومی خزانے سے ذاتی عیاشیوں، سیر سپاٹوں اور اپنے وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پراگر اربوں روپے اڑائے جا سکتے ہیں تو پھر غریب بلدیاتی ممبران کو تنخواہیں اور مراعات دینے میں کیا حرج ہے۔۔؟چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت صوبے میں حقیقی تبدیلی کیلئے وزیروں، مشیروں اور ممبران اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات ختم کرکے غریب بلدیاتی ممبران کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کرتی تاکہ غریب ممبران دل و جان سے عوام کی خدمت کرکے تبدیلی کی بنیاد رکھتے،مگرافسوس ایسانہ ہوسکا۔

بلدیاتی ممبران کی تنخواہوں اور مراعات پر اعتراضات کرنے والوں کو وزیروں، مشیروں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی لاکھوں کروڑوں کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کیوں نظر نہیں آتیں۔۔؟ ہمارے ممبران اسمبلی میں اکثریت کا تعلق برگر فیملیوں اور امیر خاندانوں سے ہے ان کو بھاری تنخواہیں اور مراعات دینے کا مطلب اس ملک میں امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانا ہے۔

ہمارے کچھ نا عاقبت اندیش لوگ اور نادان دوست یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بلدیاتی ممبران عوام کی خدمت کیلئے میدان میں آئے ہیں اور خدمت کے کوئی پیسے نہیں ہوتے۔ یعنی بلدیاتی ممبران کو تنخواہیں اور مراعات نہیں دینی چاہیے۔ ان کی خدمت میں صرف اتنی گزارش ہے کہ ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز، وزیر، مشیر، صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی تو پھر عوام کی خدمت کیلئے میدان میں آتے ہیں پھروہ تنخواہیں اور مراعات کیوں لیتے ہیں۔

۔؟ لیڈیز کونسلروں کی نشستوں پر ہماری غریب مائیں، بہنیں اور جنرل کونسلر، کسان کونسلر اور یوتھ کونسلروں کی سیٹوں پر ہمارے غریب بھائی نمود و نمائش یا کوئی شوق پورا کرنے کیلئے نہیں عوام کی خدمت کیلئے آگے آئے ہیں لیکن کوئی بھی شخص اس وقت ہی عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکتا ہے جب اس کو پہلے اپنا حق ملے ۔ اپنے حقوق، اختیارات اور اقتدار سے محروم غریب بلدیاتی ممبران کیسے عوام کی خدمت کریں گے۔

۔؟ غریب بلدیاتی ممبران کو تنخواہیں اور مراعات دینا اگر ظلم ہے تو پھر وزیروں، مشیروں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی بھاری تنخواہیں اور مراعات بھی ظلم عظیم سے کم نہیں۔ اس لئے پہلے اس ظلم عظیم کو ختم کیاجائے تاکہ غریب اور امیر میں تفریق ختم اورانصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :