سیاسی گرمی ۔۔۔ !

منگل 24 فروری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

کپتان اور بھائی اس وقت آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ بظاہر معافی تلافی کے بعد ماحول کسی قدر ٹھنڈا ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی درجہ حرارت میں واضح کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی ۔ کیوں کہ کپتان کے بقول یہ معافی صرف نازیبا الفاظ اور خواتین کے لیے لب و لہجے پر تھی جو قبول بھی کر لی گئی ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر پاکستان تحریک انصاف کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔

اور اب سانحہ ء 12 مئی کا ملزم بھی رینجرز کی تحویل میں ہے ۔ اس سے ایک نیا پنڈوڑا باکس کھلنے کا خدشہ ہے اور پاکستان میں پنڈوڑا باکس کھلنے میں ہرگز دیر نہیں لگتی ۔
ایک عرصے سے یہ واویلا کیا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ معاملات کو گھمبیر کر رہے ہیں۔ ان مسلح ونگز کی بدولت حالات بہتری کی طرف نہیں آ رہے۔

(جاری ہے)

حیران کن بات یہ ہے کہ اگر واقعی ان مسلح ونگز کو سیاسی جماعتوں کی آشیر باد حاصل ہے تو پھر جب یہ سیاسی جماعتیں حکومت میں یا حکومت کی اتحادی کا درجہ پاتی ہیں تو پھر ان مسلح ونگز کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ۔

اور کیوں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟ اصل مسلہ ہمیشہ سے خلوصِ نیت کا رہا ہے۔ملک کا مفاد کبھی بھی مقدم نہیں رہا۔ اجتماعی مفاد کے بجائے ہمیشہ صرف انفرادی مفاد کو ترجیح دی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے معاملات ٹھیک ہونے کے بجائے بگڑتے جا رہے ہیں۔
ایم کیو ایم پر ایک عرصے سے یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ مسلح گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اس الزام میں حقیقت کہاں تک ہے یہ تحقیقاتی ادارے اور سیکیورٹی ادارے بہتر جانتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلح ونگ کیا صرف کسی ایک سیاسی جماعت کے ہیں یا باقی جماعتیں بھی یہی وطیرہ رکھتی ہیں۔ جب آپ کسی ایک سیاسی جماعت کی بات کرتے ہیں تو پھر فیصلے محدود ہو جاتے ہیں۔ اگر کراچی کے مسائل کے ذمہ داری مسلح ونگ ہی ہیں تو پھر بلا تفریق ان کے خلاف ایکشن ضروری ہے۔

اور تما م سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر ان کی صفوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو معاشرے کے بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں تو ان افراد سے قطع تعلق اختیار کریں۔ سیاست میں اگر برداشت کا عنصر شامل ہو جائے تو شاید ان مسلح ونگز کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو ۔ دلیل سے قائل کرنے کی عادت ہمارے سیاسی راہنما اپنا لیں تو ان کی سیاست میں ایک واضح مثبت تبدیلی آئے گی ۔


کراچی کے مجموعی حالات پر سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور سانحہ 12 مئی کے مقدمات ایک واضح اثر ڈالیں گے ۔ حیران کن طور پر سانحہ 12 مئی کا مبینہ ملزم معاشرے میں سفید پوشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔ یعنی یہ برائی ہمارے معاشرے میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود لوگ ہی اس کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ اور ہم ان سے لاعلم ہیں۔ یہ کہنا شاید زیادہ بہتر ہو گا کہ بطور پاکستان ہم سب کی غفلت معاشرتی ناسور کو پلنے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔

اور ہم نقصان اٹھانے کے بعد واویلا تو کرتے ہیں لیکن اپنی غفلت کا تذکرہ سرے سے گول ہی کر جاتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو موجودہ چپقلش میں سب سے تکلیف دہ بات ذاتیات پر حملے تھے۔ جس کی وجہ سے ان دونوں جماعتوں کے ووٹرز یقینا کسی نہ کسی حد تک شرمندہ ضرور ہو ئے ہوں گے۔ راہنما وہ ہوتے ہیں جو ترقی کی جانب ،شعور کی جانب راہنمائی کریں۔

لیکن جب راہنما ہی گالم گلوچ کے سوا بات نہیں کریں گے تو پھر بے چارہ ووٹر کیا کرے گا۔ سیاسی راہنما اگر اپنی ذات کو عملی نمونہ بنا کر پیش کریں تو شاید انہیں ووٹ دینے والے پھر خود پہ نازاں ہوں۔
اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو گرما گرمی ہے وہ کسی بھی طرح سے تعمیری عنصر لیے ہوئے نہیں ہے۔ بلکہ اس سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اس کا فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیں نہ کہ عدالت سے باہر ایک اور اپنی ذاتی عدالت قائم کر لیں۔

میڈیا ٹرائل سے زیادہ بہتر ہے کہ عدالتی ٹرائل پر اعتماد کریں۔ اور عدالتوں کو آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے دیں۔ اگر کوئی ایک ملزم کسی مخصوص سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی ظاہر کر رہا ہے تو اس سیاسی جماعت کو چاہیے کہ اس ملزم کا موقف غلط ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے جرائم پیشہ عناصر سے نہ صرف قطع تعلق کریں بلکہ اپنے خلاف لگے الزامات کو عدالت میں غلط ثابت کریں۔

وطن عزیز کو سیاسی میدان میں سب سے بڑا نقصان ہمیشہ یہی رہا ہے کہ مثبت اپوزیشن کبھی بھی موجود نہیں رہی ۔ حکومتی معاملات میں بہتری کے بجائے اپوزیشن ہمیشہ سے اسی ٹوہ میں لگی رہی ہے کہ کیسے اقتدار دوبارہ حاصل کیا جائے۔ حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار اصلاحی ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ الٹا ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن کا کردار صرف اور صرف تنقید اور مار دھاڑ کا رہ گیا ہے۔

ایک مضبوط اور اصلاحی اپوزیشن نہ ہونا بھی اس ملک کا بہت برا المیہ ہے۔
آپس میں گتھم گتھا ہونے سے معاملات کبھی بھی بہتری کی طرف نہیں جاتے ۔ نہ ہی ایک دوسرے کی ذات پر حملے کرنے سے بہتری آتی ہے۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا کبھی بھی مثبت سیاسی ماحول کو پروان چڑھانے میں مدد گار نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی وطن عزیز کو ترقی کی راہ پہ گا مزن کر سکتا ہے۔

گالم گلوچ مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ کسی کے اعتراض کو دلیل سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ سیاست میں الزامات بھی لگتے ہیں اور داغ بھی لگائے جاتے ہیں اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ کسی بھی الزام پر موثر جواب دینے کے بجائے الزامات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ایسا کرنا نہ صرف سیاستدانوں کے بارے میں منفی تاثر ابھار رہا ہے بلکہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے۔ برداشت کی عادت اپنا لی جائے تو اس سے نہ صرف سیاسی گرما گرمی میں کمی واقع ہو گی بلکہ معاملات بھی مزید الجھنے سے بچ جائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :