کون سا نوحہ لکھوں؟

اتوار 26 فروری 2017

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سوچا اب کی بار بھی کچھ نہ لکھوں، ایک نا سو سکھ۔۔۔ نہ لکھوں گا۔نہ سوچوں گا۔ نہ ہی ذہنی خلفشار کا شکار ہوں گا۔ مگر بھلا ہو آزاد میڈیا کا ، بکھرے لاشے ، بہتا خون، لتھڑی دیواریں، روتی آنکھیں، بین کرتی مائیں، چلاتی بہنیں، دھاڑیں مارتے بھائی، بے سدھ ٹھنڈے فرش پہ ٹانگیں پسارے باپ، چاک گریباں بھاگتے بیٹے، ساکت و جامد آنکھیں لیے بچے کچھ اس انداز سے دکھاتا ہے کہ دل میں نہ جانے اک ابال سا ابلنا شروع ہو جاتا ہے۔

اور سوچا میں کسی ماں کے بین نہیں لکھتا، کسی بہن کی آئیں بھی نہیں لکھتا، نہ ہی کسی بوڑھے باپ کے جھکے ہوئے شانے لکھتا ہوں، نہ تو کسی یتیم ہوئے کی خالی آنکھیں لکھوں گا، نہ ہی کسی اجڑی سہاگن کی ٹوٹی چوڑیوں کو لکھوں گا، نہ تو بھائی کے آسرے پہ آنے والے لاشہ بن جانے والے بھائی کو لکھوں گا، کسی عقیدت میں دھمال ڈالتے مرید کے دیوار سے چپکے چیتھڑے کو لکھوں گا۔

(جاری ہے)

میں صرف اپنا دکھ لکھوں گا۔ میں صرف اپنے دل میں خون دیکھ دیکھ کر بن جانے والے ابال کو لکھوں گا کہ میں بھلا کیوں کسی کی پرواہ کرنے لگا ۔ مجھے تو فخر ہے کہ میں بے حسی کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جو خون بہتا دیکھتی ہے پھر بھی بے حسی کی چادر نہیں اتارتی، جو بکھرتے لاشے دیکھتی ہے پھر بھی چہرہ دوسری جانب کر لیتی ہے، جو جسموں میں بارود کی بو سونگھتی ہے اور ناک ہٹا لیتی ہے۔

میں کیوں پرواہ کروں کسی کی ۔
میں بھلا اب کیا نوحہ لکھوں، جب سخی سرور  کا نوحہ نہیں لکھا، جب بری امام سانحے کا ماتم نہیں کیا، جب داتا کے احاطے میں لہو بکھیرنے کا نوحہ پڑھنا نہیں چاہا، جب جیے شاہ نورانی کی دھمال کو اجڑتے دیکھ کر بھی کوئی نوحہ نہیں لکھا، مجھے عبد اللہ شاہ غازی  کی زیارت پہ آئے شہدا کا بھئی غم نہیں ، جب مجھے رحمان بابا کے مزار کے تباہ ہونے پہ کوئی نوحہ یاد نہیں آتا۔

تو بھلا میں اب آٹھ سو سالہ قدیم درگاہء لعل شہباز قلند کی آخری آرامگاہ کے عین پہلو میں بکھری بارود کی بو، دیواروں سے چمٹی انسانی باقیات کا نوحہ کیسے لکھ سکتا ہوں۔ نوحے اتنے لکھے کہ اب تو کم پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ماتم اتنا کیا کہ اب تو ہاتھ بھی دکھنے لگے ہیں، آنسو اتنے بہائے ہیں کہ اب تو آنکھیں بھی جلنے لگی ہیں۔ ہم تو ویسے بھی نوحہ خوانی کا فن ہی جانتے ہیں ورنہ ہم یہ نہ پوچھتے کہ جب ہمارے ٹیکس پہ پلنے والے جہازوں میں بیٹھ کر پھرتے ہیں تو زخمی گھنٹوں ہیلی کاپٹرز کا انتظار کیوں کرتے رہے۔

ہمیں صرف آہ و بکا ہی آتی ہے ورنہ ہم کیا یہ سوال نہ کرتے کہ دس ہزار سے زائد جہاں زائرین تھے وہاں کس طرح ایک تیس کلو وزنی بارود کا بوجھ اٹھائے شخص واک تھرو گیٹس سے بھی گزر گیا اور نام نہاد محافظ کچھ نہ کر پائے۔ ہم صرف رونے دھونے والی قوم ہیں ورنہ ہم میں سوال کرنے کی جرات ہوتی تو ہم کیا یہ سوال نہ کرتے کہ جس مزار پر عقیدت مند ہی کروڑوں لٹا دیتے ہیں اس کے قرب و جوار میں کوئی اعلیٰ درجے کا ہسپتال کیوں نہیں بن پایا۔

ہم صرف کمرمیں صافہ باندھ کر میتوں پر رونے والے لوگ ہیں، ورنہ ہم کیا اتنا بھی پوچھنا گوارا نہ کرتے کہ تم جو ہمارے زخموں پہ نمک اپنے کیمروں کے لاؤ لشکر کے ساتھ ڈالنے آئے ہو، تم جو حفاظتی حصار اپنے گرد قائم کیے ہوئے ہماری تیمارداری کو آئے تو یہ حفاظتی حصار جب ہمارے پیسوں سے قائم ہوتا ہے تو یہ ہمارے لیے کیوں نہیں ہوتا۔ ہم بے حس قوم کا حصہ ہیں ورنہ ہم میں احساس ہوتا اگر تو ہم ان کا گریباں نہ چیر دیتے جو بلٹ پروف گھروں سے ، بلٹ پروف گاڑیوں میں، بلٹ پروف شیشے چڑھائے ہماری بے بسی پہ بیان داغنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔

ہم میں جرات گفتار بھی شاید مفقود ہو چکی ہے۔ ورنہ کیا ہم اتنا کہنے کی ہمت بھی نہ کرتے کہ وہ کون سی برداشت ہے جس سے تم اب تک کام لے رہے ہو اور خون بہتا جا رہا ہے، کیا ایسی ہی برداشت تم اس وقت بھی دکھاتا جب تمہارا بھائی خون میں غلطاں کر دیا جاتا، یا تمہاری بہنوں کے سہاگ چھن جاتے۔ ہم احساس سے عاری، چپ سادھنے والی قوم ہیں ورنہ ہم یہ سوال تو کرہی سکتے تھے کہ مزاروں پہ حملہ ہو تو مزار بند، درسگاہوں پہ حملہ ہو تو درسگاہیں بند، ہسپتالوں پہ حملہ ہو تو ہسپتال بند، اداروں پہ حملہ ہو تو ادارے بندتو حضور جب سب کچھ بند کرنا ہی آپ کو حل نظر آتا ہے تو پھر یہ جو ادارے اروبوں کھربوں کے فنڈز کا ستیاناس کر رہے ہیں ہمارے ادا کیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے تو وہی ہم تک رہنے دیجیے اور ہم سے ٹیکس نہ مانگیے۔


کون سا ایسا نوحہ اس سانحے پہ اب لکھا جائے جو اثر کر جائے۔ کون سی ایسی آہ لکھی جائے جو کچھ ایسا منظر دکھا دے کہ کوئی بے گناہ خون میں نہ نہائے۔ اب تو نوحے بھی ختم ہو تے جا رہے ہیں۔ آہیں اور سسکیاں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔ آخر کو انسان کب تب آنسو نکالے، بے حسی کا بھی تو آخر کوئی مقام بنتا ہے حضور ، چلیے چھوڑیے ہم اب کوئی نوحہ نہیں کہتے۔ آؤ، میرے عزیز ہم وطنوں مل کر بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ اس چادر سے منہ باہر نکالو گے تو وقت کے آقاؤں سے سوائے دکھ ، افسوس، آہوں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :