خلوصِ نیت کا تڑکا چاہیے

بدھ 14 جنوری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان اس وقت ایک عجیب دوراہے پہ آ کھڑا ہوا ہے۔ سیاستدان سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ لیکن جیسے ہی سر اٹھاتے ہیں تو کچھ چہروں پہ خوف اور کچھ چہروں پہ کنفیوژن نمایاں نظر آتی ہے۔ دہشت گرد وں کی کسی بھی کاروائی کے پیچھے سالوں کی ریکی ہو یا دنوں کی وہ کسی بھی کاروائی کے لیے یقینا اتنا غور و غوض نہیں کرتے ہوں گے جتنی ہمارے سیاستدان کر رہے ہیں۔

شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ایک غیر انسانی و غیر قانونی کام جس کو کرنے کے لیے زیادہ اجلاس نہیں کیے گئے ہوں گے لیکن اس کا جواب قانونی طریقے سے دینے کے لیے اتنے اجلاس کیے گئے جتنے شاید میاں صاحب کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک نہیں کیے گئے تھے۔
سانحہء پشاور کے بعد سے فوج کی حالت زخمی شیر جیسی ہے جس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اپنے دشمن کو چیر پھاڑ کھائے۔

(جاری ہے)

لیکن اس وقت فوج سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر چلنے پر مجبور ہے۔ مجبور اس لیے نہیں کہ فوج کچھ کر نہیں کرسکتی ۔ بلکہ مجبور اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ سیاستدان پھر فوج کے کسی بھی قدم کو جمہوریت پہ شب خون مارنے سے تعبیر کرلیں۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ زخمی شیر کب تک صبر سے کام لیتا ہے۔ کیوں کہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ تاخیر عوام میں فوج کے امیج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

آرمی چیف نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ فوجی عدالتیں ہماری نہیں ملک کی ضرورت ہیں۔
تمام جمہوری حکومتوں میں ہمیشہ سے ایک جذبہ جس کی شدید کمی رہی ہے وہ ہے خلوصِ نیت۔ ہمارے حکمران ہمیشہ صرف حکومت کی مدت پوری کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ملک کی بہتری کس میں ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کی اطلاعات یہ ہیں کہ جناب فروغ نسیم صاحب جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے، اٹارنی جنرل ، اعتراز احسن ، اور فاروق نائیک کی بحث پوری کانفرنس پہ حاوی رہی ۔

تحفظات دور کیے جاتے رہے ۔لیکن پاکستان کی بد قسمتی کہ تحفظات دور ہوتے ہیں اور باہر نکل کر پھر قائم ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ امن کی ہنڈیا کو خلوصِ نیت کا تڑکا شاید ہمارے سیاستدان لگانا نہیں چاہتے۔ شاید ان کے دل میں ڈر بیٹھ گیا ہے کہ اگر فوجی عدالتیں قائم ہو گئیں تو کہیں اس ہنڈیا میں وہ بھی نہ بھن جائیں۔ ویسے ایک بات کی شدید حیرت ہو رہی ہے کہ اگر ہمارے سیاستدانوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو پھر انہیں ڈر کس بات کا ہے؟ پاکستانی راہنما کیوں خوف میں مبتلا ہیں کہ زخمی شیر ان کی طرف رخ نہ کر لے؟ اس کی وجوہات اگر معلوم ہو جائیں تو پھر شاید سیاستدانوں کا ڈر ختم کرنے کے لیے ایک اور کل جماعتی کانفرنس بلائی جا سکتی ہے۔


حقیقی معنوں میں میاں محمد نواز شریف صاحب اس وقت بے بس ہیں۔ وہ فوج کے ساتھ تعلقات بھی بہتر رکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ہر دفعہ ان پر الزام لگتا ہے کہ وہ فوج کو اپنے اقدامات سے سیاست میں دعوت دیتے ہیں لیکن یہ شاید واحد موقع ہے کہ جب میاں صاحب خود دہشت گردی کے عفریت سے نجات چاہتے ہیں۔ ایسا ان کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے۔ اندر کا حال یا تو اللہ جانتا ہے یا خود میاں صاحب۔

لیکن ہمارے اندازے ظاہری چال ڈھال پہ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی نیت میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جب سے انہوں نے خود کو کمیٹیوں اور اجلاسوں میں الجھا لیا ہے تو اب انہیں مولانا صاحب کا بھی خیال رکھنا ہے اور بڑے بھائی صاحب کے تحفظات کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے تو خیبر پختونواہ کے راہنماؤں کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہے۔

اور یہ ہرگز اتنا سادہ نہیں ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ میاں صاحب شاید ان حالات میں سب سے زیادہ پریشان شخصیت ہوں گے ۔ ایک طرف فوج بپھرے شیر کی مانند دوسری طرف سیاستدانوں کی وہی پرانی تاویلیں اور رازو نیاز۔
یہاں تک کہہ دیا گیا کہ فوجی عدالتیں، مدرسوں، سیاسی جماعتوں یا دیگر سیاسی مقدمات پہ اثر انداز نہیں ہوں گی ۔ بلکہ صرف فرقہ واریت و دہشت گردی کے مقدمات سنیں گی ۔

لیکن در حقیقت شاید ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس بات کا فیصلہ کس نے کرنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت میں ایسے عناصر نہیں ہیں جو ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں؟ اور مذہبی بنیادوں پر تو وطن عزیز پہلے سے ہی نقصان اٹھا رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ مدارس کے خلاف آپریشن ہرگز خوش آئند عمل نہیں ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سے مدارس حقیقی معنوں میں مدرسہ ء علم ہیں اور کون سے مدارس کسی نقصان دہ سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو فوجی عدالتوں کے قائم ہونے سے پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

اگر فوجی عدالتوں کو محدود کر دیا گیا تو شاید ان کی وہ افادیت نہ رہے جس کی توقع کی جار ہی ہے۔ اب شاید مدارس کو اپنے لیے بھی ایک مکمل ضابطہ خود بنانا چاہیے۔ یا پھر وفاق المدارس کو اس معاملے میں سوچنا ہو گا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو پاکستانی معاشرے میں فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔ مدارس اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہرگز ایسا تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس معاشرے سے الگ ہیں۔

اگر یہ تاثر ختم نہ کیا گیا تو مدارس اور عام پاکستانیوں میں ایک گہری خلیج پیدا ہو جائے گی ۔ جس کو ختم کرنا پھر کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
ہمارے سیاستدان پہلے دھاندلی کی تعریف میں سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ اب شاید انہیں دہشت گردی کی تعریف بیان کرنے کے لیے سر جوڑنا ہو گا۔ ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ ہاتھی نکل جاتا ہے لیکن دم اٹک جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدان میمو گیٹ تک کو ہضم کر جاتے ہیں لیکن تعریف کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔

آج تک دھاندلی کی تعریف نہیں ہو سکی۔ عام پاکستانی کے نزدیک دھاندلی شاید یہی تھی کہ 10 کی جگہ 100ووٹ لکھ دیے جائیں لیکن سیاستدان شاید کوئی اور تعریف تاریخ میں لکھوانا چاہتے ہیں۔ اب دہشت گردی کی تعریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں کا بنیادی مقصد خوف اور سراسیمگی پھیلانا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ہر وہ کام جو معاشرے میں خوف ، بربریت، ظلم ، سراسیمگی کی علامت بن جائے اسے دہشت گردی شمار کیا جانا چاہیے۔

اور اس فعل کو کرنے والا دہشت گرد۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کا سارا زور اس بات پہ ہے کہ دہشت گرد صرف اسی کو کہا جائے جو اپنے ہاتھ میں بندوق لے کر گولی چلائے۔ باقی بندوق کا بندوبست کرنے ولا، بندوق پہنچانے ولا، گولی فراہم کرنے والا نئی تعریف کے مطابق شاید دہشت گرد نہ کہلوائے جائیں۔ اس کے علاوہ اب ان کے نزدیک کم سن بچے کے ساتھ زیادتی کر کے اسے برہنہ لٹکا دینے والا شخص دہشت گرد نہیں ہے۔

بلکہ اسے اب بھی اس بچے کا استاد ہی لکھا جائے گا۔ بہتر یہ ہو گا کہ اساتذہ ء کرام سے رجوع کر لیا جائے کہ آیا ایسا شخص استاد کہلوانے کے قابل ہے جو معصوم پھول کو اس حالت میں لٹکا دے ؟ یہی مسلہ سانحہ پشاور کے بعد سے درپیش ہے۔ پوری قیادت اس بات پہ تو متفق ہے کہ کاروائی ہونی چاہیے لیکن کس کے خلاف ، اس پہ شاید ابھی فیصلہ نہیں ہو سکا؟ کیوں کہ دہشت گرد تو شاید وہی تھے جو خود بھی مر گئے۔

باقی ان کو وہاں تک لانے والے، ان کو سہولیات دینے والے، ان کی مدد کرنے ولے،حتیٰ کے ان کی حمایت میں بولنے والے بھی شاید معصوم ہیں اسی لیے اب ساری بحث ان" معصوموں" کو کلین چٹ دینے کے لیے ہو رہی ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ ایسا ہو بھی جائے گا۔
فوجی عدالتیں قائم ہوں یا نہ ہوں۔ دہشت گردی کی تعریف کی جا سکے یا نہ کی جا سکے۔ لیکن ایک بات بہت حد تک درست ہے جو چوہدری شجاعت نے کل جماعتی کانفرنس میں بھی کہی کہ اگر اس حادثے میں شہید ہونے والا ہم میں سے کسی کا بیٹا ہوتا تو میں دیکھتا کہ کیسے ہم آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ لفظ نہیں پاکستان کے راہنماؤں کا اپنے منہ پر اپنے ہی ہاتھ سے طمانچہ ہے۔ میاں صاحب شاید اس وقت خود کو وزیر اعظم کی کرسی سے بالاتر رکھ کر سوچ رہے ہیں۔ اسی لیے گذارش ہے کہ سخت فیصلے کرسی سے محروم تو کر سکتے ہیں لیکن تاریخ میں آپ کو امر کر جاتے ہیں۔ کرسی کا نہ سوچیں عوام کے دلوں میں زندہ رہنے کا فیصلہ کر لیں۔ اور سیاسی ہانڈی کو خلوصِ نیت کا تڑکا لگا دیجیے۔ یہ قوم آپ کا احسان نہیں بھولے گی ۔ ذمہ داری لیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :