کشمیریوں کا بے وقعت ووٹ…!

بدھ 31 دسمبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

ٹھیک اُسی طرح ،کہ جس طرح کشمیری عوام نے بائیکاٹ کال کو مسترد کرتے ہوئے بھاری پیمانے پر ووٹ دیکر اپنے Unpredictableہونے کا ثبوت دیا تھا، غیر متوقع انتخابی نتائج نے ایک بار پھر یہ سبق پڑھا یا ہے کہ کشمیریوں کے بارے میں اندازہ لگانا کسی بھی تجزیہ کار کو بے اعتبار ثابت کر سکتا ہے۔جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابی نتائج ہر کس و ناکس کو حیران کر گئے ہیں اور ایک معلق اسمبلی کے حوالے سے یہ ابہام بر قرار ہے کہ آخر ریاست کی حکومت کون اور کس طرح بنا سکتا ہے۔

جیسا کہ 28/سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے بطور اُبھرنے والی پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ریاست میں ایک پیچیدہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور حکومت سازی میں وقت لگ سکتا ہے لیکن حکومت سازی سے اوپر اُٹھ کر دیکھنے پر جموں و کشمیر کے انتخابی نتائج کے بین السطور کیا پیغام یا پیغامات پڑھے جانے چاہیئے یہ بہت اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

(جاری ہے)


بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے ”مودی کا جادو“لیکر پہلی بار کشمیر وارد ہونے سے کچھ زیادہ ہی دلچسپ ہوئے انتخابات کی زبردست اور جارحانہ تشہیری مہم کے بعد ہوئے انتخابات میں ،علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کے با وجود،کشمیریوں کی بھاری شرکت پہلے ہی دُنیا کو حیران کر گئیتھیتاہم ووٹ شماری ہوئی تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے ووٹوں کی جگہ جیسے حیرت کے انبھاراُگل دئے ہوں!۔

جموں صوبہ ،جہاں بی جے پی نے توقع کے مطابق ہی بقیہ پارٹیوں کا تقریباََ صفایا کر دیا ہے،کو چھوڑ کر کشمیر کے ہر ہر علاقے سے انتخابات کے غیر متوقع نتائج بر آمد ہو کر ایک ایسی صورتحال کو جنم دے چکے ہیں کہ جس پر طویل تجزیہ کرنے والے تھک ہار کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ”سرکار کون بنائے گا یہ دیکھنے والی بات ہوگی“۔
حالانکہ اپنے پے در پے دوروں سے یہ تاثر،کہ جیسے جموں و کشمیر اُنکے رنگ میں رنگ گیا ہو،دے چکے وزیرِ اعظم مودی کے لئے مشن44+کی تسخیر ممکن نہیں ہو پائی ہے کہ کشمیر میں پارٹی کے کُل34/میں سے 33/اُمیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پیجموں و کشمیر کی سیاست میں ایک اہم کردار حاصل کر گئیہے۔چناچہ جموں صوبہ میں بی جے پی نے کُل37/سیٹوں میں سے25/پر قبضہ کرکے ایک طرح سے دیگراں کا صفایا کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ بی جے پی کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ہاں اگر اِس کے لئے مقررہ نشانے کو سر کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے تو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پارٹی کی جانب سے مشن44+کا تقرر اپنے آپ میں حقیقت کے کتنے نزدیک تھا؟۔

پھر جہاں بے جے پی کے لئے اپنے نشانے کو سر کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے وہیں پی ڈی پی کی اِن اُمیدوں پر بھی اوس پڑی ہے کہ حکومت کے خلاف غصہ سر چڑھ کے اِس(پی ڈی پی)کے حق میں بولے گا۔چناچہ اپنے دم پر سرکار بنانے کے دعویٰ کرتی پھرتی رہی اِس پارٹی کے کھاتے میں محض6/سیٹوں کا اضافہ ہوا اور اسکا پلڑا28/کے ہندسے پر اٹک گیا جو کہ حکومت سازی کے لئے درکار44/کے عدد سے کہیں پیچھے ہے۔

یہ بات بھی کسی طرح دلچسپی اور حیرانگی سے کم نہیں ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس،جن کا صفایا یقینی مانا جانے لگا تھا،کے لئے بُرا تو ہوا ہے لیکن اُتنا بھی نہیں کہ جسے اِنکا صفایا کہا جا سکے بلکہ اِنہیں نہ صرف اپنی کئی نشستیں حاصل رہیں بلکہ اِنہوں نے کہیں کہیں پی ڈی پی کے قلعے میں سیندھ لگاکر بعض اہم نشستیں بھی اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔


انتخابی نتائج کے بعد حکومت سازی ،جو کہ انتخابات کا اصل مقصد ہے،کے کیا امکانات ہیں یہ الگ لیکن اس سے بھی بڑھکر جموں و کشمیر کے زیرِ تبصرہ انتخابی نتائج اپنے اندر کتنی اہم باتیں سموئے ہوئے ہیں یہ بہت ہی اہم ہے ۔ایک طرف جہاں اِن انتخابی نتائج نے کئی جماعتوں کی اُمیدوں پر اوس ڈالی ہے تو وہیں بعض مفروضے بھی ٹوٹے ہیں اور ساتھ ہی کئی ایسے چلینج بھی پیدا ہوئے ہیں کہ جن سے نمٹنا یہاں کی سیاسی جماعتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ مجموعی طور ریاست کے لئے ایک بڑا مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔


موجودہ دُنیا میں شہرت کی نئی حدوں کو چھوتے جا رہے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ڈھنڈورچی لاکھ دعویٰ کرتے پھریں کہ مودی ایک” جادوگر “ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی جادوگر نہیں ہیں بلکہ اُنکی گاڑی فرقہ پرستی کی ہانڈی سے اُڑنے والی بھاپ پر چلتی ہے۔گجرات سے دلی تک کے اُنکے ”کامیاب“سفر کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہے کہ فرقہ پرستی اور تقسیم کی پالیسی مودی جی کی اصل ”طاقت“رہی ہے اور اِسی ”طاقت “کے بل بوتے پر اُنہوں نے جموں و کشمیر میں بھی اپنی دھاک بٹھانا چاہی ہے۔

انتخابی نتائج نے اگرچہ ایک طرف یہ حوصلہ افزا حقیقت آشکارا کی ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی عرفیت کے ساتھ مشہور مقامی ہندو فرقہ واریت کے زہر ناک رنگ میں رنگنے پر آمادہ نہ ہوکر مودی جی کو پیٹھ دکھا چکے ہیں لیکن دوسری جانب ریاست بہر حال ایک نظریاتی بلکہ مذہبی تقسیم کا شکار ہو ہی گئی ہے۔دلچسپ ہے کہ بی جے پی کو کشمیر میں سب کی سب نشستوں پر خفت آمیز شکست کا سامنا تو کرنا ہی پڑا ہے ساتھ ہی اِسکے اُمیدواروں کی اُن علاقوں میں ضمانت بھی ضبط ہوئی ہے کہ جہاں کے پنڈت و ووٹروں کے بھروسے پارٹی جیت درج کرانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔

البتہ جس طرح بی جے پی کو جموں کی بیشتر سیٹوں پر کامیابی ملی ہے اُس سے صاف ہے کہ بی جے پی نے جموں صوبہ میں ہندو کو یکجا کرنے کی جو جی توڑ کوششیں کی تھیں وہ کام کر گئی ہیں اور اب ،پہلے سے ہی علاقائی تقسیم کا شکار ،جموں اور کشمیر کے درمیان مذہبی تقسیم بھی ہوئی ہے جو آگے چل کروحدتِ ریاست کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔حالانکہ بی جے پی کے بر عکس وادیٴ کشمیر میں کسی بھی سیاسی جماعت نیمذہب یا اِس طرح کے کسی نظریہ کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا ہے لیکن برسوں کے بعد جس طرح یہاں بھاری پیمانے کی ووٹنگ ہوئی ہے اور جس طرح کے نتائج سامنے آچکے ہیں اُن سے صاف ظاہر ہے کہ کشمیریوں نے بی جے پی کو ایک خطرے کے بطور لیتے ہوئے اِسے خود سے دور رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

بہ الفاظِ دیگر اگر جموں کے ووٹروں نے ایک نظریہ کے لئے ووٹ کیا ہے تو وادی کے ووٹروں نے اِسی نظریہ کو رد کرنے کے لئے ووٹ کیا ہے اورسیاسی پنڈتوں کے لئے اِس تفریق کے بین السطور پڑھنا کوئی نا ممکن کام نہیں ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر نے کہا بھی ہے کہ”جس طرح جموں اور کشمیر کے ووٹروں نے الگ الگ نظریاتی دھاروں کی حمایت کی ہے، اُنھیں جوڑنا اور دونوں خطوں کے درمیان رواداری پیدا کرنا نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا“۔

جموں اور کشمیر کے درمیان مطلوبہ اِس روادی کو پیدا کرنا اِن حالات میں اور بھی جوکھم بھرا کام ہے کہ جب بی جے پی نے تفریق و تقسیم کو ہی اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔
جموں و کشمیر کی87/رُکنی اسمبلی کے زیرِ تبصرہ انتخابات نہ صرف یہ کہ ریاست میں ،اب برسوں سے،چلے آرہے مخلوط حکومتی نظام کا خاتمہ نہ کر سکے بلکہ اب کے ایک ایسی معلق اسمبلی وجود میں آئی ہے کہ جسکی ابتداء اور انتہا کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا تو دور بلکہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی کو 28/بی جے پی کو 25/نیشنل کانفرنس کو 15/کانگریس کو12/اور دیگراں کو 7/نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور یوں اِن اعداد نے آدھی ترچھی ایسی لکیریں کھینچی ہیں کہ جن سے مجموعی طور کوئی بھی تصویر اُبھارنا نا ممکن سا معلوم ہوتا ہے۔حالانکہ حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ اور اختلاط کے کئی امکانات موجود تو ہیں لیکن جو پارٹیاں اِس سمت میں اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہیں اُنکی پالیسیاں اِس حد تک ایک دوسرے سے متضاد ہیں کہ اِنکے مل جانے سے انکے لئے ”جان لیوا رِی ایکشن“یقینی ہے۔

ا،س حوالے سے پی ڈی پی اور بی جے پی کی مثال دی جا سکتی ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک ہو جائیں تو ایک مظبوط سرکار بنا سکتی ہیں لیکن دونوں کی بنیادی پالیسی اِس حد تک ایک دوسرے ساتھ متضاد ہیں کہ اِنکا ایک ہونا نا ممکن معلوم ہوتا ہے۔پھر یہ بھی اہم ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں حکومت چاہتی ہیں اور وہ بھی بلا شرکتِ غیر کے…!ایک طرف پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر نے ووٹ شماری کے مکمل ہوتے ہی یہ کہکر پارٹی کے ارمان ظاہر کئے کہ بی جے پی کو حکومت سازی کے معاملے سے اوپر اُٹھکر مفتی محمد سعید کو حکومت کا موقعہ دیکر تاریخ رقم کرنی چاہیئے تو دوسری جانب 24/دسمبر کو بی جے پی نے یہ دعویٰ کرکے اپنے منصوبے ظاہر کئے ہیں کہ اُنہیں مزید 6/ارکان کی حمایت حاصل ہے اور یوں 31/ممبران کے ساتھ وہ سب سے بڑی پارٹی ہے۔

اِس سب کے باوجود اگر دونوں پارٹیاں کسی بھی طرح اتحاد کرکے حکومت بنا بھی لیتی ہیں تو اِنکے لئے حکومت چلانا کتنا پُر پیچ ہو سکتا ہے اِسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔چناچہ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ بی جے پی فرقہ پرست ہندو تنظیم کے بطور مشہور ہے جبکہ پی ڈی پی خود کو Pro Kashmirثابت کر کر کے جوان ہورہی ہے۔
وجوہات چاہے جو بھی رہے ہوں،بی جے پی کے لئے ریاست میں ایک اہم موقعہ آیا ہے ۔

ریاستی سرکار میں شامل ہونے میں اِسکی کامیابی کا مطلب آگے کے لئے یہاں اپنے قلعے کی بنیاد رکھنا ہے۔لوک سبھا انتخابات کے بعد سے بی جے پی کی کشمیر کے تئیں بڑھی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین ویسے ہی بتاتے رہے ہیں کہ در اصل بی جے پی 2014کے انتخابات کو 2020کی ریہر سل کے بطور لے چکی ہے۔اگر ایسا ہے تو پارٹی ضرور چاہے گی کہ ریاست میں بننے والی کوئی بھی سرکار یا اِسکی قیادت میں چلے یا پھر اِس کے اشاروں کی تابع ہو۔

مرکز میں بر سرِ اقتدار ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لئے اپنے منصوبوں کی تکمیل زیادہ بڑا مسئلہ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔
پی ڈی پی کے لئے کانگریس اور کچھ آزاد ممبرانِ اسمبلی کے ساتھ حکومت بنانے کا بھی ایک امکان موجود ہے تاہم اِس میں کئی مسائل درپیش ہیں۔کانگریس کو ساتھ لیکر پی ڈی پی کے پاس فقط 40/ممبران جمع ہو سکتے ہیں جبکہ مزید چار ارکان کا انتظام ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

حالانکہ غلام نبی آزاد نے پی ڈی پی کو لقمہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی پی کو فیصلہ لینا ہوگا کہ اِسے سکیولر جماعتوں کے ساتھ جانا ہے یا پھر فرقہ پرستوں کے ساتھ۔اِتنا ہی نہیں بلکہ آزاد نے یہاں تک کہا کہ پی ڈی پی کی قیادت فرقہ پرستوں کے ساتھ جانے کا فیصلہ لے ہی نہیں سکتی ہے۔ایسا کہکر آزاد نے در اصل پی ڈی پی کے لئے پی جے پی ہیڈکوارٹر کی جانب ایک ایسی رکاوٹ کھڑا کرکے رکھنا چاہی ہے کہ جسے پھلانگنے سے قبل اِسے کئی بار سوچنے کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔


جموں و کشمیر کی سرکار یہاں کی سبھی چھوٹی بڑی پارٹیوں کے لئے اِس قدر اہم ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کے لئے بھی آسانی سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔جہاں کنیا کماری سے کشمیر تک شکست کے ایک سلسلے کا شکار ہو گئی کانگریس کے لئے جموں و کشمیر کی سرکار میں ،نام کے لئے ہی سہی،شامل رہکر خود کو متعلق بنائے رکھنا اہم ہو گیا ہے وہیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے لئے حکومت کرنا بقا کا مسئلہ ہو گیا ہے۔

دلچسپ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود بھی ،کہ پی ڈی پی کا اصل مقابلہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہے اور دونوں ہی پارٹیاں در اصل ایک دوسرے کے خلاف ہی انتخابات لڑتی ہیں،عمر عبداللہ نے یہ کہتے ہوئے سب کو چونکا دیا ہے کہ مفتی سعید اُنکا نمبر ڈائل کریں تو وہ پی ڈی پی کی حمایت پر آمادہ ہیں۔گو کہ یہ اتحاد پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد سے بھی زیادہ مشکل ہے لیکن ایسا امکان ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کو ایک اور مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

در اصل بی جے پی کو للچائی ہوئی نطروں سے کشمیر کی جانب دیکھتے دیکھ کر سیول سوسائٹی کا ایک حلقہ ایک عرصہ سے یہ سوال اُٹھاتا رہا ہے کہ کشمیر کے مفاد کے لئے کشمیریوں کی غمخواری کا دم بھرتی آرہی یہ دونوں پارٹیاں ایک کیوں نہیں ہو سکتی ہیں۔گو کہ مفتی سعید کی پی ڈی پی نیشنل کانفرنس کی پیشکش قبول کرے ایسا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے لیکن پارٹی کو کہیں نہ کہیں اِس سوال کا بہر حال جواب دینا پڑے گا کہ دفعہ370/پر میلی نظریں رکھنے والی بی جے پی کا راستہ روکنے کے لئے اِس نے نیشنل کانفرنس سے ہاتھ ملانے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کی۔


سیاست اگر ممکنات کا کھیل ہے تو ایک ایسا معمہ بھی کہ جو باہر سے کچھ تو اندر سے کچھ اور ہو سکتا ہے۔بظاہر پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی کے بطور خوش قسمت اُبھری ہے لیکن جو پریشانیاں اِسکے درپیش ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ اِِسکی قسمت پر رشک کیا جائے یا ِاشک بہائے جائیں۔ایک طرف اِسے حکومت بنانے کا موقعہ دستیاب ہے تو دوسری جانب ایسی مجبوریاں کہ جو گلے کی ہڈی بنے ہوئے نہ اُگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے بنتی ہے۔

کشمیر میں اپنے ووٹ بنک کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر پی ڈی پی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ لیتی ہے تو اِسکے لئے اقتدار کے مزے تو ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب اِسے ایسا زہر لگ سکتا ہے کہ جو اِسے کشمیر میں دوبارہ اُبھرنے کے لائق نہیں رکھے گا۔اور اگر اِسحقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارٹی کانگریس اور دیگراں کے ساتھ جاکر لولی لنگڑی سرکار بنانے کا سوچتی ہے تو اِسکے لئے کئی لوگوں کو خوش رکھنے کے جوکھم کے ساتھ ساتھ انتظامی مسائل بھی کھڑا ہو سکتے ہیں۔

کشمیر اور یہاں کی کسی بھی حکومت کو در پیش رہنے والے مسائل کی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی ادنیٰ سا انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ دلی میں نریندر مودی کی سرکار ہوتو جموں و کشمیر میں اِسکی منشاء کے بر عکس کوئی سرکار کتنی ممکن ہو سکتی ہے اور اگر کسی طرح ایسا ممکن ہو بھی گیا تو ایسی سرکار کے لئے چیزوں کی Deliveryکتنی ممکن ہو سکتی ہے۔پھر مفتی محمد جیسے سیاستدان اورکشمیر سے متعلق اُنکے منصوبوں کی بات ہو تو دلی و سرینگر کے مابین فاصلوں کا کم سے کم تر ہونا بلکہ اِنکا نزدیک سے نزدیک ہونا انتہائی لازمی ہوتا ہے۔

حالانکہ نریندر مودی کی سرکار ابھی نو زائید ہی کہلائی جا سکتی ہے اور اِسکے چند ایک ماہ کو دیکھتے ہوئے حتمی طور کچھ کہنا قبل از وقت ٹھہرتا ہے لیکن اِس بات تک بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ مودی کا انداز الگ ہے اور وہ ذاتی یا پارٹی مفادات پر سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں ہیں۔
مسائل کا انبھار لیکر آئے انتخابی نتائج میں پی ڈی پی کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اگر یہ کانگریس یا ،فرض کریں،نیشنل کانفرنس کی حمایت سے سرکار بناتی بھی ہے تو اِس پر پوری ریاست کی نمائندگی نہ کرنے کا داغ لگ سکتا ہے ۔

چناچہ پی ڈی پی اور ،بی جے پی کو چھوڑ کر،اُن سبھی حلقوں کو کہ جنکے ساتھ ملکر اسکے لئے سرکار بنانے کا امکان موجود ہے کا انتخاب وادیٴ کشمیر سے ہوا ہے جبکہ جموں کی بیشتر سیٹوں کی نمائندگی بی جے پی کو مل گئی ہے۔ایسے میں ظاہر ہے کہ ریاستمیں ایک طرح کا عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے جس سے نمٹنا اگلی سرکار کے لئے کسی چلینج سے کم نہیں ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے ووٹوں کے ساتھ ساتھ یہ سبھی باتیں اور اِنکے علاوہ بہت کچھ اُگل دیا ہے اور اب جبکہ حکومت سازی کا مرحلہ ہے مذکورہ سبھی باتیں آڑے آکر ووٹوں کے انبھار کو جیسے بے وقعت کر رہی ہیں اور یوں حکومت سازی سے نا ممکن بنی ہوئی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ تحریرِ ہذا کے قارئین تک پہنچتے پہنچتے جموں و کشمیر میں عشقِ اقتدار نے Fevicolکا کام کرتے ہوئے متضاد پارٹیوں کو جوڑ کر سرکار کو وجود بخشا ہو لیکن یہ چند ایام با الخصوص اور اگلے چھ سال با العموم ریاست کے لئے بہت ہی نازک ہیں…!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :