جموں و کشمیر بھی” ہندو راشٹر “بنے گا…!

منگل 20 جنوری 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

ایک طرف جہاں دہائیوں بعد ہوئی بھاری ووٹنگ کے باوجود بھی جموں و کشمیر میں گورنر راج کے نفاذ سے ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے وہیں دوسری جانب لاکھوں پناہ گزینوں کوریاست کی شہریت دئے جانے کے مرکزی سرکار کے منصوبوں نے کشمیریوں کی نیند اُڑا رکھی ہے۔حالانکہ ریاست میں حکومت سازی کی جاری کوششوں کے بیچ اندازہ تھا کہ دِکھاوے کو ہی سہی لیکن بی جے پی کشمیر کے تئیں” اپنائیت کا رویہ“ اپنائے گی لیکن اِسکے برعکس پناہ گزینوں کو ریاست کے شہری بنادئے جانے کے ارادوں سے پارٹی نے ایک عجیب صورتحال پیدا کر دی ہے۔

مرکزی سرکار کے اِس منصوبے کے انکشاف نے افراتفری کا ماحول بنایا ہوا ہے اور علیٰحدگی پسندوں سے لیکر مین اسٹریم کے سیاستدانوں تک سبھی متعلقین صف بندی کرنے لگے ہیں…عجب نہیں ہے کہ اگلے دِنوں کے کشمیر کا مورخ ”امرناتھ زمین تنازعہ“کی ہی طرح کا کوئی خونین ہنگامہ رقم کر رہا ہو۔

(جاری ہے)


جس طرح جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت دِلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ 370/پر کشمیر سے کنیاکماری تک سیاست ہوتی آرہی ہے ٹھیک اِسی طرح ریاست میں موجود بنگالی اور پاکستانی پناہ گزینوں کے مسئلے کو لیکر سیاست ہوتے دہائیاں گذری ہیں۔

بھاجپا اور اِسکی مائی باپ جماعتیں تو اپنے ووٹروں میں ہیجان پیدا کرنے کے لئے کئی بار واضح کرتی رہی ہیں کہ جموں و کشمیر میں ہندووٴں کو بسانا اِنکی تمنا بھی ہے اور اِنکا نشانہ بھی لیکن قانونی اور اخلاقی طور مشکل یہ معاملہ کبھی جذباتی تقاریر ،اخباری بیانات یا ووٹروں کے ساتھ کئے جاتے رہے،کبھی پورا نہ ہونے والے، وعدوں کی حد سے آگے نہیں بڑھا۔

البتہ بھاجپا نے جیسے تہیہ کر لیا ہے کہ اِسے، حال ہی ملے ،اقتدار کی شام ہونے سے قبل وہ سبھی خواب پورا کرنے ہیں کہ جن کی تکمیل اِسے دہائیوں سیبے آرامی کا شکار بنائے رکھتی آئی ہے۔اِس بات کا عندیہ گذشتہ دِنوں تب ملا کہ جب مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں مقیم لاکھوں غیر ملکی پناہ گزینوں کو شہریت دینے اور دیگر مختلف مراعات دینے کو منظوری دی۔

اِس حوالے سے گذشتہ سال راجیہ سبھا کے 10/ارکان سمیت پارلیمنٹ کی31/رُکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جسکے ذمہ1947ء ءء1965ء اور1971ئمیں مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش)اور پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے آکر جموں میں ڈھیرہ ڈال چکے پناہ گزینوں کے مسائل کے ازالہ کا جائزہ لیکر اُنکے لئے اقدامات کی سفارش تھی۔چناچہ کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات کو منظور کرتے ہوئے مرکزی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پناہ گزینوں کے لئے متعدد مراعات کو منظوری دی۔

اِن مراعات میں پناہ گزینوں کوپولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں میں بھرتی کرنا،ہر کنبے کو30/لاکھ روپے کی نقد امداد اوروادی چھوڑ کر گئے کشمیری ہندووٴں(پنڈتوں)کے مساوی ریلیف فراہم کرنا اور اِس سب سے بڑھ کر اِن لوگوں کو ریاست کے شہری بنائے جانے کا راستہ صاف کرنا شامل ہے۔پی بھٹ اچاریہ کی قیادت والی کمیٹی نے اِن غیر ملکی پناہ گزینوں کے لئے ریاست کی باشندگی اور اِنہیں ووٹ دینے کا حق دئے جانے کی سفارش کی ہے ۔

چونکہ اِس بات کے لئے ریاستی اسمبلی کی منظوری لازمی ہے لہٰذا مرکز نے جموں و کشمیر سرکار کو آئین میں ترمیم کرکے مذکورہ بالا سفارشات کو عمل میں لانے اور پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے لئے جموں و کشمیر اسمبلی میں خالی رکھی جاتی رہی 8/سیٹوں کوپناہ گزینوں کے لئے مختص کر دینے کو کہا ہے۔جموں و کشمیر سرکار کو ایک سال کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِس مختصر سی مُدت میں یہ سبھی اقدامات عمل میں لائے جانے چاہیئں۔


پارلیمانی کمیٹی کی یہ سفارشات اور مرکزی سرکار کا فرمان کتنا حساس معاملہ ہے اوراِس حوالے سے کشمیریوں کا ردِ عمل کیا ہو سکتا ہے ؟۔اِن سوالات کے جواب کااندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معاملے کی بھنک لگتے ہی کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں سے لیکر مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں تک سبھی نے نہ صرف شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے بلکہ خون کی ندیاں بہہ جانے تک کی باتیں ہو رہی ہیں۔

چناچہ8/تاریخ کو اِس معاملے کا اِنکشاف ہونے کے اگلے ہی دن ریاست کے ایک سرکردہ ممبرِ اسمبلی اور عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے سرینگر میں ایک بڑے احتجاجی جلوس کی قیادت کی اور حکومتِ ہند کو سنگین نتائج سے خبردار کیا۔پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور پھر مرکزی سرکار کے احکامات کو غیر اخلاقی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انجینئر رشید نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی سرکار کشمیر دشمن اقدامات میں مگن ہے اور کشمیریوں کو ہر سطح پر ہرانے اور احساس کمتری کا شکار کئے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پناہ گزینوں کی مجوزہ شہریت کو کشمیریوں کی بربادی کا سامان بتاتے ہوئے اُنہوں نے ”عمر ،مفتی ایک ہوجاوٴ،رفیوجیوں کو ریاست سے بھگاوٴ“اور ”حریت والو ایک ہوجاوٴ،رفیوجیوں کو ریاست سے بھگاوٴ“کے جیسے نعرے لگا ئے اور کہا کہ کشمیریوں کے لئے کرو یا مرو کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
ریاست کے جموں صوبے میں فی الوقت پانچ اقسام کے لاکھوں پناہ گزین اور داخلی طور بے گھر افرادموجود ہیں کہ جنہیں ریاستی باشندہ بنائے جانے کی بھاجپا کی کوششوں نے اہلِ کشمیر کواپنے مستقبل کے بارے میں اِس حد تک پریشان کیا ہوا ہے کہ وہ اِس علاقے کو ایک اور فلسطین بنائے جانے کے خدشات میں مبتلا ہیں۔

تقسیمِ ہند کے بعد سے ہی ہندوپاک نام کی چکی میں پِستے آرہے کشمیریوں کی گردنوں پر سوار ہونے جا رہے اِن لاکھوں پناہ گزینوں میں1947ئمیں مغربی پاکستان سے آئے تین لاکھ،جو پنجاب کے سیالکوٹ وغیرہ علاقوں سے تقسیم کے وقت بھاگ آئے تھے،افراد شامل ہیں۔پناہ گزینوں کا دوسرا گروہ ریاست میں داخلی طور بے گھر اُن لوگوں کا ہے کہ جو تقسیم کے وقت ہی (اب)پاکستانی زیرِ انتظام کشمیرکے مظفر آباد اور میرپور کے اضلاع کے علاوہ پونچھ ضلع کی اُن دو تحصیلوں سے، کہ جو فی الوقت پاکستان کے زیرِ انتظام ہیں، سے آکر جموں میں رہنے لگے تھے۔

پناہ گزینوں کا تیسرا اور چوتھاگروہ اُن ہزاروں خاندانوں پر مشتمل ہے کہ جو 1965ئاور1971ئکی جنگوں کے بعد پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے چھمب سیکٹر سے بھاگ کر جموں میں عارضی کیمپوں میں رہنے لگے تھے۔اِن لوگوں کو ”چھمب رفیوجی یا کیمپ رفیوجی“کی عرفیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔پناہ گزینوں کا پانچواں گروہ اُن لوگوں کا ہے کہ جو تیسرے اور چوتھے گروہ کے پناہ گزینوں کی ہی طرح 1965ئاور1971ئکی جنگوں کے بعد اِس پار آگئے تھے تاہم یہ لوگ کیمپوں میں رہنے کی بجائے جموں میں اپنے احباب و اقارب کے یہاں رہنے کی وجہ سے ”نان کیمپ رفیوجی“کے بطور جانے جاتے ہیں۔

مغربی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کو چھوڑ کر مذکورہ بالا سبھی زُمروں کے پناہ گزین چونکہ متحد جموں و کشمیر کے باشندگان ہیں لہٰذا اُنہیں شہری حقوق حاصل ہیں تاہم مغربی پاکستان کے لوگ خالص پناہ گزینوں کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے شہری حقوق سے محروم ہیں۔حالانکہ آئینِ ہند کے تحت ہندوستان کے شہری ہونے کی حیثیت وہ پارلیمنٹ کے لئے ووٹ دینے کے حقدار ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ٹھہرتی ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے برعکس اپنا آئین رکھنے کی وجہ سے سبھی ہندوستانی شہری جموں و کشمیر کے شہری تصور نہیں ہوتے ہیں۔
گوبھاجپا کی جانب سے پناہ گزینوں کو ”آباد“کئے جانے کو ایک انسانی مسئلے کے بطور پیش کیا جاتا ہے یعنییہ سارا معاملہ لاکھوں اِنسانوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنائے جانے کا ہے جسکے ساتھ ،ظاہر ہے کہ، مہذب دُنیا میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔

لیکن کیا واقعتاََ بھاجپا فقط پناہ گزینوں کے معیارِ زندگی کو بُلند کرنے اور اُنہیں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے فکر مند ہے یا پھر یہ سب ایک سیاسی گیم پلان کی عمل آوری کے لئے ظاہری بہانہ ہے؟۔خود وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ایک تقریر میں جواب تلاش کیا جا سکتا ہے کہ جس میں اُنہوں نے ایک طرح سے پناہ گزینوں کو لیکر بھاجپا کے اصل منصوبوں اور مقاصد کی تشریح کی تھی۔


کرگل میں ایک بجلی گھر کے اِفتتاح کے موقع پر نریندر مودی نے کہا تھا ”جموں و کشمیر کی حالت دیکھئے کہ جہاں کی 20/فی صد آبادی displacedہے،ہم اِن لوگوں کو آباد کرکے اِنہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں“۔اِتنا ہی نہیں بلکہ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ اُنکی سرکار اِس بات کو یقینی بنانے کے لئے وعدہ بند ہے کہ مذکورہ20/فی صد آبادی ریاست کی ”تقدیر بدلنے میں“اپنا حصہ ادا کرے۔

مودی جی کی تقریر کو بھاجپا کی سیاست کو نظر میں رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ بات بڑی واضح معلوم ہوتی ہے کہ ہندووٴں کو یکجا کرکے کامیابی کے زینے چڑھنے کے فارمولا کو جموں و کشمیر میں اور بھی اِنہماک کے ساتھ عمل میں لایا جا رہا ہے۔اِس مقصد کے لئے بھاجپا اُن20/فی صد لوگوں کو استعمال میں لانے کے فراق میں ہے کہ جن کا تذکرہ مودی جی نے یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ وہ اِنہیں جموں و کشمیر کی تقدیر بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم پارٹی کی پریشانی یہ ہے کہ یہ پناہ گزین پارلیمنٹ کے برعکس جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے ووٹ کرنے کے حقدار نہیں ہیں…!
چناچہ سید علی شاہ گیلانی جیسے بزرگ لیڈر اور اُنکے حامی ایک عرصہ سے یہ خدشات ظاہر کرتے آرہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مُسلم اکثریتی کردار کو بگاڑنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور اب جبکہ بھاجپا سرکار پناہ گزینوں کو ووٹ کا حق دیکراُنہیں ریاست کی تقدیر بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں تو سید گیلانی کی بات سُننے کا ایک جواز بنتے دِکھائی دینے لگا ہے۔

جیسا کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مشروط الحاق کرواچکے شیخ عبدلہ کی نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ اُنہیں ریاست کے مُسلم اکثریتی کردار کے خلاف سازشیں ہوتے دکھائی دے رہی ہیں۔نیشنل کانفرنسکے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے گذشتہ دِنوں پارٹی کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہامرکزی سرکار غیر ملکی پناہ گزینوں کو ریاست کی شہریت دینے سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو روبہ عمل لانے کی جلدی میں نظر آرہی ہے جس سے ایک گہری درپردہ سازش کی بو آرہی ہے۔

ساگر نے مرکزی سرکار کو ایسا کوئی بھی اِقدام کرنے سے خبردارکرتے ہوئیکہا کہ 2008ئمیں بھی امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی جس کا ردِعمل ہندوستان سمیت پوری دنیا نے دیکھاتھا۔کشمیر کی صورتحال سے واقفیت رکھنے والوں میں سے کون بھول سکتا ہے کہ امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے معاملے کو لیکر جموں و کشمیر میں ہلاکت خیز ہنگامہ کئی ماہ تک جاری رہا تھا یہاں تک کہ متنازعہ فیصلہ لینے والوں کو ہاتھ اوپر کرنے پر مجبور ہونا پڑاتھا۔

حالیہ اِنتخابات میں بُری طرح شکست کھانے کے بعدایک بار پھر کشمیریوں کے لئے قابلِ قبول بننے کے جتن کرنے والی نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری کا کہنا ہے” ہم دفعہ370/ اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے دِفاع کیلئے کوئی بھی قربانی دینے کیلئے ہمیشہ تیار ہیں“۔یہ بات الگ کہ دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے والی اٹانومی کی قرارداد کو اٹل بہاری واجپائی کے کوڈدان میں جاتے دیکھنے کے با وجود ”پُرانی تنخواہ پر “کام کرچکی کسی جماعت سے کسی ”قربانی“کی توقع کرنا حقیقت سے کس حد تک میل کھا سکتا ہے لیکن کشمیری عوام واقعتاََ کسی بھی حد تک کی قربانی سے شائد ہی پیچھے رہیں گے ۔

یہ در اصل کشمیری عوام سے متوقع ردِ عمل کا ادراک ہی ہے کہ جِسے دیکھتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے ”غیرت“کا مظاہرہ کیا ہے۔پھر نیشنل کانفرنس ہی نہیں بلکہ حالیہ انتخابات میں28/سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے بطور اُبھرکر فی الوقت بھاجپا کے ساتھ اِشتراک میں حکومت بنانے کی کوششیں کرنے والی پی ڈی پی اور کشمیر کی ہر چھوٹی بڑی جماعت نے زیرِ تبصرہ معاملے کو لیکر یک زُباں ہوکر خون کی ندیاں بہانے تک کی باتیں کی ہیں اور مرکزی سرکار کے تازہ فرمان کی مخالفت کی ہے۔


جہاں تک ،عوام کی نبض پکڑ کرمزاحمت کے نئے طریقے ایجاد کرنے میں ناکامی کی وجہ سے،تیزی کے ساتھ بے اعتبار و غیر متعلق ہوتے جا رہے علیٰحدگی پسندوں کا تعلق ہے،وہ بہت پہلے سے لگاتے آرہے اِن اِلزامات میں تیزی لا چکے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مُسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔چناچہ حالیہ ایام میں نہ صرف یہ کہ علیٰحدگی پسند سیاسی جماعتوں نے” شدید ردِ عمل “کا اظہار کیا ہے بلکہ وادی کی کئی مذہبی،تجارتی اورادبی اُنجمنوں کے علاوہ دیگر حلقوں نے غیر ملکی پناہ گزینوں کو ریاست کی شہریت دینے کے کسی بھی منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔

بزرگ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کا کہنا ہے” جو رِفیوجی مغربی پاکستان سے ریاست وارد ہوئے ہیں، وہ کسی بھی حیثیت سے جموں کشمیر کے پُشتینی باشندے نہیں ہیں، بلکہ وہ آئینی طور بھارت کے شہری ہیں اور اُنہیں کسی بھی قیمت پر جموں و کشمیر کا پُشتینی باشندہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی“۔تاہم اُنکا کہنا ہے کہ جہاں تک پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے آئے لوگوں کا معاملہ ہے” تو وہ آئینی اور قانونی حیثیت سے ریاست کے پُشتینی باشندے ہیں اور اُنہیں یہاں مستقل طور بسانے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے“۔

وہ کہتے ہیں” غیر ملکی پناہ گزینوں کو مستقل شہریت کی سند اجراء کرانا ریاست کی آئینی پوزیشن سے جُڑاہوا مسئلہ ہے اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات براہِ راست ریاستی آئین پر ہلہ بول دینے کے مترادف کارروائی ہے۔مغربی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کی تعداد 5/لاکھ کے قریب ہے اور اِن کو اسٹیٹ سبجیکٹ فراہم کرنا اور ووٹ کا حق دینا ریاستی آئین کی بیخ کُنی کرنے کے مترادف ہیجس سے جموں وکشمیر میں ایک سنگین بحرانی کیفیت پیدا ہوجائے گی“۔

اُنکا کہنا ہے ”تقسیمِ ہند سے آج تک 15/لاکھ سے زائد کشمیری مغربی پاکستان اور جنگ بندی لائین کے دوسری جانب ہجرت کرگئے ہیں جبکہ اِس پارفرقہ پرست لوگوں نے اِن مہاجرین کی زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، آج تک اِن کی واپسی کی کبھی بات کی گئی اور نہ اِن کی جائیداد پر سے ناجائز قبضہ ختم کیا گیا ہے، اِس کے برعکس مغربی پاکستان کے رِفیوجیوں، جو آئینی اور اخلاقی حیثیت سے بھارت کے شہری بننے کے زیادہ حقدار ہیں، کو جموں کشمیر میں بسانے کی سفارشات کرنا فرقہ پرست حکمرانوں کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ جس پر عمل کرکے وہ ریاست کی متنازعہ حیثیت اور ڈیموگرافی کو تبدیل کرانا چاہتے ہیں“۔


عام کشمیری یا یہاں کی سیاسی جماعتیں مرکزی سرکار کو روک بھی پائیں گی یا نہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن کیا قانونی اعتبار سے بھاجپا سرکار کے لئے اپنے متنازعہ اور تشویشناک منصوبوں کو روبہ عمل لانا ممکن بھی ہے؟سرکردہ قانون دان ظفر شاہ کا کہنا ہے کہ بھاجپا کو اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے لئے جموں و کشمیر میں آئین کی ترمیم کرانا پڑے گی جسکا اختیار یہاں کی اسمبلی کو ہے۔

پناہ گزینوں کو شہریت دئے جانے کو ایک حساس بلکہ خطرناک منصوبہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”یہ نہ صرف مُسلماکثریتی کردار کو ختم کرنے کی سازش ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو ریاست کا تانا بانا بگڑ جائے گا“۔وہ کہتے ہیں کہ اِس منصوبے کو عمل میں لانے کے لئے ریاست کے قانون میں کئی ترامیم کرنی ہونگی اور پھر اِسکے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں” ریاستی اسمبلی کی فی الوقت کشمیر میں46/،جموں میں 37/اور لداخ میں چار سیٹیں ہیں اگر پناہ گزینوں کو 8/سیٹیں ملیں تواس صورت میں جموں والے مطالبہ کریں گے کہ یہ تعداد 37/سے46/کی جائے اور نتیجتاً سیاسی طاقت مُسلم اکثریت والے کشمیر سے جموں منتقل ہوگی “۔معتبر ماہرِ قانون اور کالم نویس ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں”پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو روبہ عمل لانے کیلئے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی منظوری انتہائی ضروری ہے۔

اگر گورنر راج کا فائدہ حاصل کرکے ِان سفارشات کو منظور کروابھی لیا جاتا ہے تو بھیقانون ساز اسمبلی میں اِس کی توثیق لازمی ہے“۔ریاست میں حکومت سازی پر برقرار تعطل کا اِس مسئلے کے ساتھ تعلق ممکن بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں”ممکن ہے کہ حکومت سازی کا عمل جان بوجھ کر تعطل کا شکار بنایا گیا ہو تاکہ گورنر راج کے دوران پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کسی پریشانی کے بغیر منظور کرائی جائیں اور معاملہ اسمبلی کیلئے آسان بنایا جائے“۔


اِس بات سے انکار یا اِس حقیقت سے چشم پوشی واقعتاََ غیر انسانی ہوگی کہ پناہ گزینوں کو نوکریوں کے حصول سے لیکر بنیادی سہولیات کی رسائی تک کے بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن اِن مسائل کی آڑ میں اِنہیں اُس زمین کا وارث بنانا کہ جہاں اُنہیں پناہ ملی ہو کہاں کا اِنصاف ہے؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔وہ بھی ایسے میں کہ جب اِن غیروں کی وجہ سے خود ریاست کے اصل وارثوں کے کمزور پڑ جانے کا خدشہ ہو جیسا کہ ماہرینِ قانون واضح کر چکے ہیں کہ پناہ گزینوں کو شہریت ملی اور ووٹ کا حق حاصل ہوا تو وہ ریاست میں طاقت کے تناسب کو بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ بات یقیناََ تشویش کا باعث ہے کہ جو لوگ محض مجبوری کی حالت میں اِس ریاست میں پناہ لے چکے ہیں وہ اب اِس حد تک بلا جواز مطالبات لئے ہوئے ہیں کہ جس سے ریاست کے اصل باشندوں کی زِندگی اجیرن بن سکتی ہے۔
معاملہ ویسے بھی انتہائی حساس تو ہے ہی لیکن اِسکی Timingبھی اپنے آپ میں انتہائی اہم اور معنیٰ خیز ہے۔اِس وقت جبکہ ریاست میں دو الگ الگ نظریات کی حامل جماعتوں،بی جے پی اور پی ڈی پی،کے مابین حکومت سازی کی کوششیں جاری ہیں اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی شائد” نرم روی“ کا اِظہار کرکے Aliniationکو کم کرنے کی کوشش کرے لیکن پارٹی نے جو تیور ظاہر کئے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ وہ کشمیریوں کے احساسِ محرومی کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اِنہیں اور بھی زیادہ پُشتبہ دیوار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

لیکن ایک سائنسی اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے اور کشمیریوں کی نفسیات کو جاننے والے سمجھ سکتے ہیں کہ زیرِ تبصرہ عمل کا ردِ عمل کس حد تک شدید ہو سکتا ہے۔ممکن ہے کہ شدید ردِ عمل اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھاجپا کے لئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا اُتنا فوری ممکن نہ ہو جائے کہ جتنی عجلت کا پارٹی اظہار کر رہی ہے لیکن اِسکے تیور کشمیریوں کو پہلے ہی حساس بھی بنا چکے ہیں اورتشویش کا شکار بھی!
آخر جب مرکزی سرکار ریاستی اسمبلی کو آئین میں ترامیم کرنے کے لئے الٹی میٹم دیتی ہو تو یہ کسے سمجھ میں نہیں آئے گا کہ ریاست کا اپنا آئین موجود ہونے کے باوجود بھی یہاں کے معاملات در اصل نئی دلی سے چلائے جاتے ہیں۔

پھر مسئلہٴ کشمیر کے حل کی صورت میں ”اچھے دِنوں کی اُمید“کرنے والوں کو یہ پتہ چلے کہ کشمیر کے متنازعہ ہونے کی سند کا درجہ رکھنے والی اُن 8/سیٹوں کو،جو پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی نمائندگی کے لئے اسمبلی میں خالی رکھی جاتی ہیں،پناہ گزینوں یا مہاجرین کے لئے مختص کیا جا رہا ہے تو اُنکا تشویش میں مبتلا اور ردِ عمل کے کئی راستوں پر سوچنا یقینی مانا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی نمائندگی کے لئے8/نشستیں خالی رہتی ہیں جو ایک طرح سے اِس بات کا اعتراف ہے کہ ریاست کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اور اگر اِن نشستوں کو مرکزی سرکار کے منصوبے کے مطابق ایک ”مخصوص طبقے“کو تحفے میں دیا جائے تو ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر سرد خانے کی اور بھی گہری تہہ کی جانب کھسکے گا جس سے ریاست،با الخصوص وادی اور جموں صوبہ کے مُسلم علاقوں،میں ایک بحرانی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔


مودی جی کی سرکار کو اِس صورتحال کا اِدراک کرتے ہوئے اُس بچے کی طرح اُچھل کود کرنا ترک کرنا ہوگا کہ جسے غیر متوقع طور ایک مہنگا کھلونا ہاتھ لگا ہو اور وہ ایک ساتھ اِس سے کئی طرح کے کھیل کھیلنے کی حماقت کرنے لگا ہو۔ یا پھرامن ِ عالم کے لئے کوشاں ہونے کے دم بھرنے والی دُنیا کو کشمیر میں تباہی و بربادی کا ایک نیا دور دیکھنے کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔اب مودی جی کی سرکار کو اِدراک ہوگا یا دُنیا تماشا دیکھے گی…دیکھنا باقی ہے!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :