سوشل میڈیا کا بے ہنگم استعمال اور ہمارے معاشرتی رویے

پیر 13 مارچ 2017

Qasim Ali

قاسم علی

سوشل میڈیا کو عمومی طور پرمعلومات عامہ اور باہمی روابط کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بات کافی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ اس کے باعث لوگ نہ صرف پوری دنیا میں تیزی سے ایک دوسرے جڑرہے ہیں بلکہ اس کے مثبت استعمال سے آپ نہ صرف نئی دنیا کے نئے تقاضوں سے واقف رہتے ہیں نت نئی خبریں اور گردشِ زمانہ سے واقفیت آپ سے صرف ایک کلک کی دُوری پر ہوتی ہے آپ سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن کورسز اورآن لائن ارننگ کرسکتے ہیں دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز کے پروفیسرز کے لیکچرز لے سکتے ہیں اور لاکھوں کتابوں پر مشتمل لائبریریوں کی سیرکرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر دوسری جانب ان بے پناہ فوائد کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں پر کئی منفی اثرات بھی مرتب کئے ہیں اس سلسلے میں گزشتہ دنوں میری نظر میں ایک تازہ ترین امریکی تحقیق گزری جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشل میڈیاکا روزانہ دوگھنٹے سے زیادہ استعمال لوگوں کو تنہائی کا شکار کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے یہ تحقیق انیس سے پینتیس سال کی عمر کے ہزاروں نوجوانوں پر کی گئی تھی تحقیق کرنیوالے امریکی ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ فیس بک،انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائیٹس پر دوسروں کی پارٹیوں اور فنکشنز کی تصاویر دیکھ کر صارف خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے علاوہ ازیں جو شخص سوشل میڈیا پر گھنٹوں صرف کرتا ہے وہ حقیقی زندگی میں اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطہ کم ہی رکھتا ہے تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ انسانی ایک سماجی مخلوق ہے لیکن جدید دور نے ہمیں ایک دوسرے کیساتھ جڑنے کی بجائے تقسیم کردیا ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ اس تحقیق میں صرف نوجوانوں کی تنہائی پر ہی زیادہ فوکس کیا گیا ہے مگر حقیقیت میں بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے سوشل میڈیا کے بے ہنگم استعمال نے ہمارے معاشرتی رویوں پر بھی گہرے اور منفی اثرات ڈالے ہیں آج سے بیس سال قبل جب صرف ایک ٹی وی چینل،چند اخبارات اور پی ٹی سی ایل لینڈ لائن سروس ہی کمیونیکیشن کا ذریعہ تھے تب حالات آج سے یکسر مختلف تھے مجھے اچھی طرح یادہے کہ ان دنوں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے ایک ماہ بعد بھی ملاقات ہوتی تھی تو یہ ملاقات خوشی کے مارے باقاعدہ ایک پارٹی میں تبدیل ہوجاتی تھی جس میں خوب گپ شپ ہوتی خواتین اپنے پکوانوں اور بچے اپنی شرارتوں کے باعث اس محفل کو چار چاند لگادیتے مگر اب یہ عالم ہے کہ سالوں بعد ملنے پر بھی وہ چارم اور اپنائیت ڈھونڈے سے نہیں ملتی ابتدائی سلام دعا کے بعدبجائے اس کے کہ ہم اپنے دیگر عزیزوں اور رشتہ داروں کااحوال پوچھیں ہم اپنے اپنے موبائل نکال کر ان نامعلوم فیس بک فرینڈز کی سرگرمیاں دیکھنے اور ان کیساتھ نہ ختم ہونیوالی چیٹ میسجنگ شروع کردیتے ہیں جن کیساتھ ہمارا حقیقی زندگی میں کوئی تعلق نہیں ہوتا یہی حال مہمانوں کا بھی ہوتا ہے اسی طرح کیا خواتین اور کیا بچے سب سوشل میڈیا یا پھر گیمز کی دنیا میں غرق نظر آتے ہیں ۔

سوشل میڈیا کا یہ استعمال پہلے پہل شہروں تک محدود تھا مگر اب دیہات بھی اس کے مضراثرات سے محفوظ نہیں رہے کیوں کہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں تھری جی اور فورجی سروسز کا دائرہ کار ہر گلی محلے تک بڑھایا چکی ہیں جس کے باعث دیہاتوں میں صدیوں سے لگنے والی بزرگوں کی محفلیں بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہیں ایک وقت تھاجب مائیں اپنے بچوں کو خود ان محفلوں اور پنچائتوں میں بھیجتی تھیں کیوں کہ بڑوں کی باتوں اور مختلف تنازعات کے فیصلوں کو دیکھ کر بچوں کی ذہنی تربیت بھی ہوتی رہتی تھی مگر''ترقی''کے اثرات نے انہیں اس غیرنصابی مگر موثر تربیت سے اھروم کردیا ہے اب گاوٴں کے یہ نوجوان بھی بڑوں کی نصیحیتوں سے ''آزاد''ہوچکے ہیں بلکہ ٹھیک اس وقت جب انہیں ان کے والدین پاس بٹھا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کے پاس بیٹھنے کی بجائے اتنے فاصلے پر بیٹھتے ہیں جہاں پر اباجی کی نظر ان کے فیس بک،میسنجر یا وٹس ایپ کے کرتوتوں پر نہ پڑسکے اور جب ماں باپ اپنی اولاد کو اپنی زندگی کے تجربات یا کچھ سبق آموز واقعہ سنانے کی کوشش کرتے ہیں تو موصوف ان باتوں پر توجہ سے سننے کی بجائے فیس بک پر مست نظر آتے ہیں اور چند ہی منٹ بعد اپنی ٹائم لائن پر ''ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ جنت کا دروازہ'' جیسی پوسٹ لگاکر چلتے بنتے ہیں ۔

سوشل میڈیا نے ہمارے رویوں کیساتھ ساتھ ہماری صحت پر بھی کافی سے زیادہ بُرے اثرات مرتب کئے ہیں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اوپر میں نے جس امریکی تحقیق کا ذکر کیا وہ روزانہ صرف دو گھنٹے سوشل میڈیا پر خرچ کرنیوالوں پر کی گئی اور پاکستان میں ایسے '' صوفی '' اور ''دانشور''عام پائے جاتے ہیں جو روزانہ بیس بیس گھنٹے عوام کو اپنے مفید مشوروں ،نصیحیتوں اور تبصروں سے ''فیضیاب''کرنے میں لگانا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے کھانے کا کوئی شیڈول نہیں رہتا بلکہ سہل پسندی اور نیند پوری نہ ہونے کے باعث ان کی صحت بھی تباہ ہوجاتی ہے اوپر سے رہی کسر وہ فاسٹ فوڈ پارٹیاں نکال دیتی ہیں جو وہ فیس بک پر دوسرے دوستوں کی پوسٹوں کو دیکھا دیکھی ارینج کرتے ہیں ۔

یہ تو تذکرہ تھا سوشل میڈیا کے ہمارے معاشرتی رویوں اور صحت پر اثرات کا مگر اس کے بے ہنگم اور بے جا استعمال نے ہمارے ایمانوں پر بھی ڈاکہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے چونکہ زیادہ تر سوشل میڈیا کا کنٹرول ایسے ممالک اور افراد کے قبضہ میں ہے جس نے صارفین کو ہر طرح کی ''آزادی'' دے رکھی ہے یہی وجہ ہے ہر ایرا غیرا اپنے ذہن کی گندگی یہاں پر پھینکتا رہتا ہے جس سے بے راہ روی ،فحاشی و عریانی کے در کھتے ہیں عشق و محبت کی پینگیں پروان چڑھتی ہیں اور پھر اس میں ناکامی پر خودکشی جیسے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں اور اگر یہ عشق ''کامیاب''ہوجائے تو دونوں خاندانوں کی معاشرے میں مٹی پلید ہوجاتی ہے اور ہماری روشن خیال حکومتوں کی پالیسیوں پر صدقے جاوٴں کہ گھر سے بھاگ کر اپنے ماں باپ کو جیتے جی ماردینے والے ان جوڑوں کے تحفظ کیلئے تو فوری قانون سازی کردیتی ہے مگر ایسے قوانین نہیں بناتی اور ایسے فلٹر نہیں لگاتی کہ جس سے سوشل میڈیا پر ایسا مواد نشر ہی نہ ہوجو ایسے قبیح واقعات کا سبب بنتا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :