ایک بارپھرامن کی آشا

منگل 15 دسمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

9 دسمبرکو اسلام آباد میں دوروزہ ”ہارٹ آف ایشیاکانفرنس“ کاانعقاد ہوا جس میں10 ملکوں کے وزرائے خارجہ اور 27 ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیاکے کیمروں کی آنکھیں بھارتی وزیرِخارجہ سُشما سراج پرہی جمی رہیں ۔پاکستان پہنچنے پر سُشماسراج نے استقبال کے لیے کھڑے مشیرِخارجہ سرتاج عزیزکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے توگویا الیکٹرانک میڈیاکی چاندی ہوگئی۔

ہرنیوز چینل باربار یہی منظردکھاتے ہوئے بیک گراوٴنڈ میں بھارتی فلموں کے حسبِ حال گیت سناتارہا ۔ایک گاناہمیں بھی یادرہ گیا جوغالباََ یوں تھاکہ”تیرے ہاتھ میں میراہاتھ ہو ،ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں“ ۔قصوراتناالیکٹرانک میڈیاکا بھی نہیں کہ اِس کانفرنس میں سُشماجی کے نازوانداز تھے ہی نرالے۔

(جاری ہے)

کبھی وہ سبزساڑھی پہن کرپیغامِ امن دیتی نظرآئیں توکبھی ہمارے مشیرِخارجہ کوسب کا ”سرتاج“ قراردیتے ہوئے۔

وزیرِخارجہ سرتاج عزیزنے سُشماجی کے لیے دیدہ ودِل فرشِ راہ کرتے ہوئے اُن کااستقبال ”اے آمدنت ِ باعثِ آبادیٴ ما“ کہہ کرکیا اورجاتے سمے اُن کے ”سرتاج “کایہ عالم کہ
صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور جی لہو سے بھر گیا
لیکن سُشماجی نے یہ کہہ کرکچھ تسلی ضروردے دی ”اگلے سال نریندرمودی پاکستان آئیں گے اورمیں بھی اُن کے ساتھ آوٴں گی“۔

سُشماجی جب تک اسلام آبادمیں رہیں، سبھی کی نگاہوں کا مرکزبنی رہیں ۔سرتاج عزیزسے ملاقات کے بعدجو اعلامیہ جاری ہوا اُس میں جامع مذاکرات شروع کرنے کااعلان ہوا ۔اِس اعلامیے میں دیگر 11 نکات کے علاوہ تنازعہ کشمیرکا ذکربھی ہے جس پربغلیں بجائی جارہی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سُشماجی یہاں بھی ہمارے ساتھ ”ہَتھ“ کرگئیں کیونکہ اِس علامیے کی پہلی چارشقیں دہشت گردی اورممبئی حملے کے متعلق ہیں۔

ہمیں یقین کہ بھارت انہی شقوں کے گردگول گول گھومتے ہوئے دیگرتنازعات پر مذاکرات کو ٹالتارہے گا۔ قارئین کویاد ہوگا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے، اوفاکانفرنس کے بعدجب مذاکات کاڈول ڈالاگیا اور ہمارے مشیرِخارجہ بھارت جانے کوتیار ہوگئے توتب سُشماسراج نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دوٹوک کہاکہ جس ایجنڈے میں کشمیر شامل ہواُس پربھارت بات نہیں کرے گا (حالانکہ اوفاکانفرنس میں تمام متنازع امورپر بات چیت کااعلامیہ جاری ہوچکاتھا) ۔

تب سرتاج عزیزکو بھی غصّہ آگیا اوراُنہوں نے بھی بھارت جانے سے صاف انکارکرتے ہوئے کہہ دیا
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سَر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جان بوجھ کربھارتی خطاب سے پہلے پاکستانی وزیرِاعظم کاخطاب رکھاگیا تاکہ بھارت کوجواب دینے میں آسانی ہو ۔

نریندرمودی توخطاب سے پہلے ہی راہِ فرار اختیارکر گئے اورقرعہ فال نکلا اُن کی ”چیلی“ سُشماسراج کے نام ،جس نے پاکستان کے خلاف ”رَج“ کے ہرزہ سرائی کی ۔اُدھر سُشما سراج جنرل اسمبلی میں پاکستان کے خلاف زہراُگل رہی تھی اوراِدھر بھارت نے سرحدوں پر چھیڑچھاڑ کے ساتھ ہی پاکستان پرحملوں کی دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔صورتِ حال بالکل ویسی ہی جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیاں دینی شروع کیں توپاکستان کو ایٹمی دھماکے کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کااعلان کرنا پڑا ۔

اب کی باربھارت یہ جاننا چاہتاتھا کہ آیاواقعی پاکستان چھوٹے ایٹمی ہتھیار بناچکا۔ بھارت کی یہ ترکیب کامیاب رہی اورپاکستان کواعلان کرنا پڑاکہ وہ بھارت کی ”کولڈوار“ سے بچاوٴ کی خاطر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بناچکا۔( بھارتیوں کو ”نوید“ ہوکہ 11 دسمبرکو شاہین تھری بیلسٹک میزائل کاکامیاب تجربہ بھی کرچکاجس کی رینج 2750 کلومیٹر اورجو ایٹمی ہتھیار لیجانے کی صلاحیت بھی رکھتاہے )۔

عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی معترف اوریہ بھی سبھی کومعلوم کہ پاکستان کی مددکے بغیر افغانستان میں قیامِ امن کاخواب ادھورا۔ اُدھرپاک چائنابڑھتے تعلقات اوراقتصادی راہداری پرامریکہ بے چین وبیقرار۔ اُس نے یقیناََ نریندرمودی کوڈانٹ پلائی ہوگی کہ پاکستان سے ”پنگا“ لینے کایہ مناسب وقت نہیں، جہاں بھارت گزشتہ چھ عشروں سے ”لار الپّا“ لگاتاچلا آرہاہے ، وہاں ایک آدھ عشرہ اورسہی۔

اسی عالمی دباوٴ کے تحت بھارت مذاکرات کی میزپر آنے کے لیے مجبورہوا اِس لیے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ پاکستان کی ادھوری ”امن کی آشا“ فی الحال پوری ہوتی نظرنہیں آتی ۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اوراگر ایک ہاتھ سرہانے دھرے دھرے سوگیاہو توپھر ”تالی“ بجنے کاانتظاراحمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ۔
اُدھردنیا کی نظریں ہارٹ آف ایشیاکانفرنس پر جمی ہوئی تھیں اور اِدھر حکمرانوں نے موقع غنیمت جان کر پی آئی اے کی نجکاری کاا”کھڑاک“ کردیا ۔

فی الحال پی آئی اے کوغیرسرکاری ادارہ بنانے کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے ”کارپوریشن“ کی بجائے” لمیٹڈکمپنی“ میں تبدیل کیاگیا ہے۔ کہاتو یہی جارہا ہے کہ پی آئی اے کے صرف 26 فیصد انتظامی شیئرز ہی فروخت کیے جارہے ہیں، پی آئی اے کے تمام اثاثے بدستورحکومت کے پاس رہیں گے اورملازمین کوبھرپور تحفظ دیاجائے گالیکن ہمارے وزیرِخزانہ اسحاق ڈارآئی ایم ایف کویقین دلاچکے کہ ایک مقررہ مدت تک پی آئی اے مکمل طورپر غیرسرکاری ادارہ بنادیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ وزیرِخزانہ نے پارلیمنٹ میں یہ وعدہ فرمایاکہ پی آئی اے کے معاملے پردوبارہ غورکیا جائے گالیکن اُن کے وعدے پرمتحدہ اپوزیشن اعتبارکرنے کوتیار ہے نہ پی آئی اے کے ملازمین۔ سبھی بیک زبان کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہمیں یہ سوال کرنے کاحق توملنا چاہیے کہ جوحکومت اپنے اداروں کو نہیں سنبھال سکتی ،وہ پوراملک کیسے سنبھالے گی؟۔

اگرعزم صمیم ہوتو ناممکن کوبھی ممکن بنایاجا سکتاہے ۔پاکستان ریلوے کی مثال ہمارے سامنے ،جس کی حالت پی آئی اے سے کہیں بدترتھی لیکن وزیرِریلوے خواجہ سعدرفیق کی محنتوں کا ثمرسب کے سامنے کہ اب کوئی ریلوے کی نجکاری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :