ایک المناک واقعہ

منگل 18 اگست 2015

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

قصور میں بچوں سے زیادتی کاسانحہ منظر عام پر آنے کے بعد بچوں سے جنسی زیادتی پر ریسرچ کررہا ہوں۔ اِس دوران درندگی کا شکار کئی بچوں کے بارے میں علم ہوا۔ کئی دلسوز واقعات اور سانحات کے بارے میں آگاہی ہوئی لیکن دل اُس وقت دہل جاتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پولیس کے بعض اہلکار بھی اس گھناؤنے جرم کے آلہ کار ہیں۔ ریسرچ کے دوران میرے علم میں آنے والا ایک واقعہ جس کی تفصیل راولپنڈی کے کینٹ علاقے میں برگر بنانے والے ایک سولہ سالہ لڑکے کی زبانی پیش خدمت ہے:
14اگست یوم آزادی کی رات کو میں برگر بنانے میں مصروف تھا تو وردی میں ملبوس ایک پولیس اہلکار ایک چودہ سالہ بچے کو بازو سے پکڑ کر لے جارہا تھا، لگ رہا تھا کہ بچہ بڑی کسم پرسی کی حالت میں ہے۔

میں نے پولیس اہلکار سے پوچھا اِس کو کدھر لے جارہے ہیں ۔

(جاری ہے)

پولیس اہلکار بچے کو پکڑکر میرے نزدیک لایا اور بتایا کہ یہ وَن ویلنگ کررہا تھا، اِس کے پاس موٹر سائیکل کے کاغذات بھی نہیں ہیں اور نہ ہی شناختی کارڈ، لہذا میں نے اس کی بائیک تھانے میں بند کردی اور کہا کہ بائیک چھڑا کر لے جانا چاہتے ہوتو تین سو روپے ادا کرو۔ چونکہ اِس بچے کے پاس تین سو روپے نہیں ہیں تو میں نے اسے ایک مطالبہ کیا اور یہ بالآخر میرے مطالبے پر راضی ہوگیا۔

اب میں کسی جگہ کی تلاش میں ہوں۔ اگر تم مجھے کوئی جگہ فراہم کرو گے تو تمہیں بھی انجوائے کرنے کا موقع ملے گا۔ مجھے بچے پر ترس آیا اور اپنے مالک سے تین سو روپے لیکر پولیس والے کو دئے اور بچے کو پولیس والے کے چنگل سے نجات دلائی۔ایسے کئی واقعات سننے کو ملتے ہیں لیکن سب کچھ سن کر اپنی بے بسی، اپنی قوم کی حالت اور قانون کا بول بالا نہ ہونے پر ترس آتا ہے۔


ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں پاکستان کے دس بڑے شہر سرفہرست ہیں جن میں سے آٹھ پنجاب کے ہیں اواِن آٹھ شہروں میں رالپنڈی پہلے نمبر پر ہے۔ میں انتہائی دُکھ کے ساتھ اس بات کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ ہم سب اندھے ، بہرے اور گھونگے ہیں۔ ہم سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن دکھائی کچھ نہیں دیتا، سب کچھ سنتے ہیں سنائی کچھ نہیں دیتا، سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن آواز نہیں اٹھا سکتے۔

معاشرے میں ہر جرم کے ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ ہاں، ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پھول جیسے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور مجرموں کو اُنکے منطقی انجام تک پہنچانا تو دور کی بات ہے ان سے پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی۔ایسا معاشرہ جہاں پھول جیسے بچے سب سے زیادہ Vulnerableہیں، جہاں اپنے بچے یا بچی کو گھر سے باہر پڑھانے کیلئے بھیجنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔

ایسا معاشرہ جہاں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ میں اٹھارہ سال سے کم عمرکم سے کم 1565بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو کسی نہ کسی لحاظ سے منظر عام پر آئے ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کتنے ایسے واقعات ہونگے جن کے بارے میں کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی اور جن واقعات کو بچوں کے والدین نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو ذلت سے بچانے کیلئے واقعات پر خود پردہ ڈالادیا ہو۔


ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اکیسویں صدی میں بھی خواتین کی قرآن سے شادی، انہیں ونی کرنے اور کاروکاری کے واقعات عام ہیں۔ اگر ہم واقعی انسان ہیں اور انسانیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اگر ہم حقیقی معنوں میں اپنے ملک سے محبت کے دعویدار ہیں تو ہمیں اِس ملک کو ہر ناسور سے پاک کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی، ورنہ ہم سب نہ صرف جھوٹے ہیں بلکہ خود کو مسلمان کیا انسان کہلانے کے حقدار بھی نہیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :