سانحہ قصور پردانشمندی کی ضرورت

جمعرات 13 اگست 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

بچوں سے زیادتی کے واقعات صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے بے شمار ممالک میں وقوع پذیرہوتے ہیں انہیں رپورٹ بھی کیاجاتا ہے ،یہ خبریں اخبارات الیکٹرانک میڈیا پر بھی شائع ،نشر کی جاتی ہیں ان بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے جہاں ان ممالک نے قانون سازی کی وہاں بچو ں میں جنسی جرائم روکنے کیلئے ان کی تربیت کا اہتمام بھی کیا یہ تربیت کسی اورجگہ نہیں بلکہ اپنے گھر کے اندر فراہم کرنے انتظام کیاگیا یعنی والدین کوسکھایا/بتایا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو جنسی واقعات سے بچنے کیلئے تربیت دیں انہیں آگاہ کریں کہ کسی بھی فرد کی مخصوص حرکات یا جب وہ ”حد“ سے بڑھنے لگے تو اس کی روک ٹوک کیسے کرنا ہے؟یقینا اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں مگر ہمارے ہاں کی صورتحال ہی مختلف ہے، اولاً ہمارے حوالے سے یہ تاثرعام ہے کہ ہم سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والے لوگ ہیں کہ جن روپیٹ بھی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ لکیر نظرآتی رہتی ہے جونہی وہ لکیر معدوم ہوئی ہم پھر سے بے غم ہوکر اپنی دنیا کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


صاحبو!کچھ ہی عرصہ قبل لاہور کے جاوید مغل کی کہانیاں منظرعام پر رہیں میڈیا ان واقعات کو من وعن پیش کرتارہا اس وقت بھی کہاجارہاتھا کہ کئی پس پردہ شخصیات اس معاملے میں بے نقاب ہوسکتی ہیں،اس ضمن میں بڑے پولیس افسران اورنامی گرامی شخصیات کے نام لئے جارہے تھے مگر جب جاوید اقبال نے اعتراف جرم کرلیا اور اسے سزا بھی سنادی گئی تواچانک اس نے جیل ہی میں خود کشی کرکے بے شمار سوالات کو ادھورا چھوڑدیا ۔

اسے ہم اپنی تاریخ اور اپنی بدقسمتی سے ہی منتج کریں گے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایسے ان دیکھے ہاتھوں کا سراغ نہیں لگایاجاسکا جو کبھی تو وقت کے وزیراعظم کے قتل کے بعد قاتل کو بھی گولی سے اڑا دے ،یاپھر ہراس موقع پر جب کسی بھی معاملے کی گتھی سلجھنے کا وقت آرہاہواوروہ سرا ہی غائب کردیاجائے۔ بہرحال جاوید اقبال مغل کی خود کشی کئی اہم شخصیات کو بچا گئی بلکہ کئی نامی گرامی چہرے بھی بدنامی کے داغ سے بچ گئے۔


اب دیکھنا ہوگا کہ قصور میں وقوع پذیرواقعات یا سانحات کے پس پردہ عوامل کیا ہیں؟ ہمارے جلد بازصوبائی وزیر رانا ثنااللہ نے واقعہ کی خبریں نشر/شائع ہوتے ہی بیان دا غ دیا کہ یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے، حالانکہ اس وقت ملک کے کروڑوں عوام اس بات سے لاعلم تھے، انتظامی مشینری بے حسی کاشکار تھی رہی حکومت تو وہ ہمیشہ لکیرپیٹنے کا کام ہی کرتی ہے ،خیر ایسے میں نجانے راناصاحب کو کہاں سے الہام ہوگیا کہ یہ واقعہ اتنا بڑا نہیں ہے اس پر ان کے بیان نے جلتی پر تیل کاکام کیا ۔

لوگ حیرت زدہ ہیں کہ رانا ثنا اللہ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سمیت دیگر کئی واقعات سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا اور اپنی ہی مرلی پر دھن بجاکر ناچنے کا فن انہیں پہلے بھی آتا تھا سواب اس فن میں کچھ زیادہ ہی نکھار آگیا ہے ۔خیر رانا صاحب جیسے بیانات کئی حکومتی کونے کھدروں سے بھی آئے مگر جب حقائق کھلنا شروع ہوئے تو احساس ہوا کہ معاملہ وہ نہیں ہے جو ظاہراً نظرآرہاتھا۔

یعنی یہ کوئی دو چار دن کاقصہ نہیں بلکہ برسوں کی کہانی ہے ،تواتر کے ساتھ ہونیوالے ان واقعات میں ان لوگوں کی خاموشی کی کئی وجوہات سامنے آئیں اولاً فریق مخالف بااثر افراد پر مشتمل ہے اور متاثرہ فریق یا فریقین اتنی جرات نہیں رکھتے کہ وہ ان کے سامنے آواز اٹھاسکیں، دوئم بدنامی کے خوف سے بعض والدین نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ جیسا کہ این جی او ز سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ان والدین کے خوف کو آشکارکررہی تھیں ۔

ان کے مطابق ان بچوں کے والدین کو خوف تھا کہ کہیں ان کے بچوں،بچیوں کی تصاویر منظرعام پرآگئیں توا ن کے لئے زندگی اجیرن ہوکر رہ جائیگی خاص طورپر بچیوں کے والدین کو اسی بدولت پریشانی کاسامنا تھا کہ کہیں ان کی بچیوں کی آنیوالی زندگی متاثر نہ ہو۔
سوئم یہ کہ علاقائی دھڑے بندی، مخالفتیں کچھ ایسی دکھائی دے رہی ہیں جس کی نشاندہی رانا ثنا اللہ نے کی کہ یہ محض زمینوں کاجھگڑا ہے اور کچھ نہیں، یعنی زمین جائیداد کے جھگڑا بھی اس میں کارفرما ہوسکتا ہے مگر اصل سانحہ تو یہی ہے کہ درجنوں بچوں کو جنسی تشددکانشانہ بناکران کی ویڈیوز بنالی گئیں۔

ابتدائی اطلاعات تو یہ بھی تھیں کہ یہ ویڈیوز بین الاقوامی سطح پر فحش فلمو ں کاکاروبار کرنے والے اداروں کو فروخت کی گئیں گو کہ اس حوالے سے کوئی پیش رفت یا ثبوت سامنے نہیں آیا لہٰذا اسے محض الزام ہی تصورکیاجائیگا۔
صاحبو! قصور زیادتی سکینڈل کے حوالے سے اہم پیش رفت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جے ٹی آئی تشکیل دی جاچکی ہے سینٹ ،قومی اسمبلی ،خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں ان واقعات کی مذمت کرچکی ہیں اوراس حوالے سے قرار داد یں بھی منظورہوئیں ۔

یقینا اس طرح کے معتبرپلیٹ فارموں سے قرار دادوں کی منظوری قابل تحسین ہے۔ سوچنے کامقام یہ ہے کہ کیا رانا ثنا اللہ کے کہے گئے جملوں( یعنی یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں محض زمین جائیداد کاجھگڑا ہے)کا قومی اسمبلی، سینٹ اور خیبرپختونخواہ اسمبلی کے اراکین کو احساس نہیں تھا کہ یہ محض خاندانی جھگڑا ہے یازمین جائیداد کا تنازعہ، کیا ان اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ انہوں نے مذمتی قراردادیں منظورکرلیں۔

اگر تو تینوں ایوانوں نے قرار دادیں باہوش وحواس منظور کرلی ہیں تو راناثنااللہ کو اپنے کہے ہوئے جملوں پر قوم سے معذرت کرنا ہوگی کیونکہ ان کی جلد بازی کی عادت ہمیشہ ہی نہ صرف ان کیلئے پریشانی کاباعث بنتی ہے بلکہ صوبائی حکومت بھی انہی کے بیانات پر مشکلات کاشکار ہوجاتی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بچوں میں جنسی تشدد کا دوسرا بڑاسانحہ رونما ہورہا ہے یقینا اس صوبے کے کارپردان کے حوالے سے سوچنے کامقام ہے کہ جاوید سکینڈل1990کی دہائی میں سامنے آیا جب مسلم لیگ ن حکمران تھی اور اب جبکہ قصور سانحہ سامنے آیا تو پھر بھی ن لیگ ہی حکمران ہے۔

اس وقت بھی جاوید اقبال کو بچانے کیلئے کئی حکومتی خفیہ ہاتھ متحرک تھے اوراب بھی ایسا ہی الزام سامنے آرہاہے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ جاوید اقبال مغل ایسے ہی الزامات کے تحت متعددبار جیل گیا مگر اسے رہائی مل گئی مگر آخر میں شدید ترین قومی سانحہ سامنے آیا اوراسے جیل جاکر خود کشی کرناپڑی جس سے اسے بچانے والے ہاتھوں کا ”بھرم“ بھی رہ گیا۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا سانحہ قصور کے ذمہ داران کو بھی ایسے ہی رہائی مل جائیگی یا پھر انہیں بچالیاجائیگا؟لیکن اگر ذمہ داران عدالت میں سزاؤں سے بچ نہ پائے تو پھر کہیں انہیں جیل میں ختم کرکے ایک بارپھر کئی سوالات ادھورے چھوڑدئیے جائیں گے؟؟ یقینا بے شمار سوالات ہیں جن کاجواب اب ضروری ہوگیا ہے۔ نیز حکومتی کارپردان،ملک کے مقتدر ایوانوں پرلازم ہوچکاہے کہ اس حوالے سے از سرنو قانون سازی کرکے سخت ترین سزائیں تجویز کی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :