میں شاعر ہوگیاہوں

جمعرات 4 جون 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ہم اپنی بات نہیں کرتے البتہ شعرا کے حوالے سے کہاجاتاہے کہ یہ حضرات خبطی واقع ہوتے ہیں‘ اس کی وجہ نہ تو ہمیں پہلے پتہ تھی اورنہ اب ہے ۔ پرانے زمانے میں بیچارے شعرا خواہ مخواہ بدنام بھی توتھے ناں‘ ہم سب کی بات نہیں کرتے البتہ کہاجاتاہے کہ کتابی شعرا گلے فٹ ہو جائیں تو جان چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ مثال کے طورپرایسا کوئی شاعر آپ کو راستے میں ٹکر گیاتو پھر آپ کا گھنٹہ دو خواہ مخواہ اڑن چھو․․․․․․․․․عموماً لطائف میں شعرا کو خبطی بھی ظاہر کیاجاتاہے لیکن چونکہ ہم دورجدید میں پہنچ چکے ہیں اس لئے ہمارے دور کے شعرا بھی جدید ہیں۔

پہلے زمانے میں موسم کا مزاج دیکھ کر شاعری کی جاتی تھی اب موڈ کے مطابق․․․․․․․․ ہمیں یقین ہے کہ شاعر نے ”باغوں میں پڑے جھولے ․تم بھول گئے ہم کو ہم تم کو نہیں بھولے“ ظاہرہے کہ ساون کے موسم اور ہی برستی بارش میں باغوں میں جھولے ڈالے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

فی زما نہ یہ ریت بھی دم توڑچکی ہے۔ بہرحال ہمیں یقین ہے کہ یہ گیت ساون کے حوالے سے ہی تھا۔

اب ہوتا یوں ہے کہ ادھرکڑکتی پھڑکتی دھوپ تنگ کئے جارہی ہوتی ہے اور ہمارے شعرا کا موڈ درست ہوتو انہیں وہ موسم بھی سہانا ہی لگتاہے اگر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو‘ آسمان پر بادل اٹھکیلیاں کرتے پھررہے ہوں لیکن شاعر کاموڈ خراب ہو تو اسے یہ موسم بھی نہیں بھاتا۔ اب آپ یہ بھی مت سمجھئے کہ ہم تمام شعرا کے متعلق اظہارخیال کررہے ہیں نہیں نہیں یہ محض ان کیلئے جو موڈ کے پابند ہیں۔

موڈ ہوا تو اپنی محبوبہ کو دنیا کی حسین ترین لڑکی ثابت کردیا اور اگر مزاج یار خراب ہوں تو پھر وہ محبوبہ بھی وبال جان دکھائی دیتی ہے۔ چھوڑئیے ہمارے ایک دوست ہیں رنگ اور انداز بدلنا تو کوئی ان سے سیکھے․․․․․․․․․․․کبھی بال بڑھے ہوئے تو کبھی فوجی کٹ․․․․․․․․․․کبھی پینٹ شرٹ ہے تو کبھی اسی پینٹ کا ”کچھا“ بناکر خواہ مخواہ ”آزادی “ کا مزہ لوٹاجا تاہے اورشرٹ بیچاری ایک بازوسے محرومی کے بعد ایک طرف جھکی روتی چلاتی نظرآتی ہے۔

کبھی پاؤں میں اعلیٰ قسمی جوتے توکبھی ٹوٹے ہوئے چپل․․․․․․․وجہ غربت یا بیروزگاری نہیں بلکہ کہا جاتاہے ”فیشن ہے“ اللہ بخشے ایک اور دوست نے اسے پینٹ شرٹ تحفے میں دی۔ اگلے دن وہ صاحب زیب تن کرکے آئے ‘ ہم حیران رہ گئے کہ یہ پینٹ ہے یا کوئی اورشئے․․․․․․․موصوف نے پینٹ کو ایک طرف سے نیکربنارکھا تھا اوردوسری طرف وہ واقعی پینٹ ہی تھی۔

اگلے دن آئے تو سکون کا سانس لیا کہ واقعی اب دونوں سائیڈیں برابر تھیں۔ خیر یہ باتیں عرض کرنیکا مقصد محض اتنا ہے کہ آپ اس کی طبیعت کے متعلق اچھی طرح آگاہ ہوجائیں۔ خیر ایک دن سنجیدہ‘ فہمیدہ خاتون کی طرح سرجھکائے ‘ ہاتھ میں قلم پکڑے وہ صاحب تشریف لائے۔ ہمارے پاس بیٹھنے کے باوجو د صاف دکھائی دے رہاتھا کہ وہ اپنے آپ میں نہیں ہیں۔

بات بات پر سر اٹھاکر کرسی کی ٹیک پر مارتے اور پھر دائیں بازو لہراکر کرسی کے بازو پردھڑام ․․․․․․․․․․․․ ہم نے وجہ پوچھی تو گویا ہوئے ” میں شاعر ہوگیا ہوں“ یہ سنتے ہی ایک قہقہہ ہمارے حلق سے ابل پڑا ۔ وہ صاحب حیران ‘ہم نے عرض کی حضور شاعر بنتے نہیں ہیں بلکہ خدا کی طرف سے بنے بنائے ہوتے ہیں۔ وہ صاحب غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بازو لہرا لہرا کرکہنے لگے مجھ میں شاعروں کی کونسی خوبی نہیں ہے۔

یہ لہراتے ہوئے بازو‘ بٹنوں سے محروم کف‘گریبان کے پہلے دو بٹن سرے سے غائب‘ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے ہوئے ․․․․․․․․․․ ہم نے کہا اجی حضرت یہ کس زمانے کی بات کررہے ہو‘ آج کل تو شاعر بڑے کشادہ اور مالی طورپر بہتر زندگی گزار رہے ہیں ویسے بھی پرانے زمانے میں کم ازکم شعرا کا یہ حال نہیں ہوا کرتا تھا۔ خیر ان کی ضد تھی ہم نے تسلیم کرلیا کہ وہ صاحب شاعر ہوگئے ہیں۔

ہم نے کہا کہ اجی حضرت کوئی کلام بھی ارشاد فرمائیے ناں․․․․․․․․․․․․ وہ صاحب گلہ صاف کرنے کیلئے کھنگارے‘کالر درست کئے ‘ ہم تیار تھے کہ ابھی کوئی نہ کوئی حملہ ضرور ہوگا لیکن دوسری جانب انہوں نے سرجھکائے ہوئے کہا کہ ہم نئی تخلیق دنیا میں لارہے ہیں۔ ہم حیران کہ شاعری میں کونسی نئی تخلیق۔ بہت پوچھنے کے باوجود انہوں نے بتانے سے انکار کردیا تاہم محض اتنا کہا کہ ”خیال چوری ہوجائے گا“خدا کا کرنا دودن بعد وہی صاحب ہاتھ میں دیوان اٹھائے دکھائی دئیے۔

پوچھا اس خیال کا کیا بنا بولے عجیب صورتحال ہے ‘ شاعر خیالی محبوباؤں کے تذکرے بڑے تزک وشان سے کرتے ہیں۔ میں نے سوچاتھا کہ ان تخیلات کی روشنی میں ایک محبوبہ کو سانچے میں ڈھال کر پھر اس پرکوئی غزل عرض کریں گے لیکن یہ تو بتاؤ یہ قد سرو کے بوٹے جیسا‘ نین نشیلے‘ ہرنی جیسی چال‘ موتیوں جیسے دانت ‘ گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ‘ چاند جیسا چہرہ لچکتی کمر جیسے تیر ‘چلے یوں کہ زمانہ رک جائے (گویاوہ محبوبہ نہ ہوئی کوئی ٹریفک کانسٹیبل ہوگیا)بہرحال ان تما م اوصاف کو اکٹھاکرکے جب ایک محبوبہ کی شکل بنانے کی کوشش کی تو ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آسکا۔

پھر سوچا کہ چلو پہلے اس محبوب جاں کو کاغذپر اتاراجا ئے اب آپ خود ہی وہ تصویر دیکھئے اور پھر مجھے بتائیے کہ یہ کوئی انسان ہوسکتا ہے۔ یقین کریں جونہی اس تصویرپر نظر پڑی یوں لگتا تھا کہ ایک لمبے چوڑے اور خاردار درخت پر کسی نے چاند کو رکھ دیاہو ‘ البتہ وہ درخت کہیں بالکل دائیں طرف اور کہیں بالکل بائیں طرف دکھائی دیتاتھا۔ وہ صاحب بولے اب بھلا بتائیے کہ ہم اس پر کیاغزل کہیں۔

بات تخیل کی ہورہی ہے ایک صاحب کو شاعری کا شوق ہوا ‘ اور توکوئی حسینہ مہ جبینہ تخیل کیلئے دستیاب نہ ہوسکی البتہ محلے میں صفائی کیلئے آنیوالی ایک بھنگن کے عشق میں یوں مبتلاہوئے کہ پھر غائب ہی ہوگئے ؟ ایک دن سرراہ ٹکر گئے ہم نے پوچھا شاعر ی کا کیا ہوا ؟ بولے ” بچہ “ ہم حیران‘ یہ کیاجواب ہوا ؟ بولے ”سال بھر پہلے شاعری جی سے شادی ہوئی تو انجام بچہ ہی ہونا تھا ناں‘ ‘ ہم پھر بھی نہ سمجھے پوچھا ”کتنے دیوان تیارہوئے“ بولے ” یار ایک سال میں ایک ہی بچہ ہوسکتاتھا یا جڑواں ‘یہ کتنے سے کیا مراد ؟“ ہم نے کہا اجی حضرت ہم شاعری کی بات کررہے ہیں اورآپ بچوں کی “ جواب ملا ”اسی بھنگن سے ہی تو شادی کرلی تھی‘ ‘اب آپ یہ بھی مت سمجھئے گاکہ خدانخواستہ ہم تمام شعرا کیلئے ایسے الٹے سیدھے خیالات رکھتے ہیں ۔

نہیں حضور ․․․․․․․․․․․یہ تومحض ان کیلئے جو لہولگاکے خواہ مخواہ شہیدوں میں نام لکھوانے کوتلے ہوئے ہیں۔ (حقیقی شعر ا سے معذات)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :