جمہوریت میں بھی بیوروکریٹس مارشل لاء

بدھ 4 جنوری 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اکتوبر2015 کو وقوع پذیرہونیوالے بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل ٹھیک ایک سال دوماہ بعد بخیروخوبی مکمل ہوچکے ہیں‘منتخب عوامی نمائندگان کو جس حال میں سیٹوں پر بٹھایاگیا ہے وہ بھی کھل کرسامنے آچکا ہے ‘ایک سال سے تاخیری حربے کو ن استعمال کرتارہا‘ کیوں حربے اورہتھکنڈے استعمال کئے گئے؟ یہ الگ طرح کے سوالات ہیں لیکن مختلف آرڈیننسوں کے بعد اب آخری مرحلہ میں سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس کا”تڑکہ “ لگانے سے پنجاب میں بیوروکریسی کے منہ زور ہونے کے تمام ترثبوت بھی سامنے آچکے ہیں ‘جب یہ آرڈیننس تیارہورہاتھاتو اس کی بنیادی شقوں کے مطابق ضلعی سطح پرپولیس بھی مقامی ڈپٹی کمشنر کے زیرنگیں رکھی گئی جس پر 35سابق آئی جیز سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے جس پر ترمیم کے بعد اب پولیس کو ضلعی سطح پر خود مختیار بنایاگیا ہے تاہم ایک اور رنگ آمیزی یہ کی گئی ہے کہ ضلع کونسل کے چیئرمین ڈپٹی کمشنر اور ڈویژنل سطح پر میئر کمشنر کے زیرنگیں اورمحتاج ہونگے ۔

(جاری ہے)

گویا جمہوریت میں بھی بیوروکریسی کے مارشل لا کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اسی آرڈیننس کی رو سے کسی بھی ضلعی حکومت یا میونسپل کمیٹی کوصوبائی حکومت تحلیل بھی کرسکتی ہے ۔جبکہ فنڈز اوردیگرمعاملات میں یہ حکومتیں ڈپٹی کمشنر ‘اسسٹنٹ کمشنرز کی محتاج ہونگی۔ ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اکاؤنٹس اوردیگر معاملات کی چیکنگ کیلئے الگ سے انٹرنل آڈٹ کا انتظام بھی ہوناچاہئے ۔

گویامحدود پیمانے پر ملنے والے فنڈز اوراختیارات پر انٹرنل آڈٹ کے انتظام سے بیوروکریسی کو مکمل با اختیار اور بلدیاتی نمائندگان کو بے اختیارکردیاگیا ہے
بلدیاتی اداروں پر سول بیوروکریسی کی حکمرانی اور بلدیاتی نمائندگان کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی کہانیاں آج کی نہیں ماضی میں جب کبھی بھی مسلم لیگی حکومت نے پنجاب میں قدم رنجا فرمائے تو یہی طرز عمل روا رکھا گیا بلکہ رویوں کے ذریعے ممبران قومی‘ صوبائی اسمبلی کو بھی مقامی سطح پر اس قدر بے بس کیاگیا کہ وہ ڈپٹی کمشنرکو کسی بھی عوامی مسئلہ میں تجویز دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کو اگر سول بیوروکریسی کے رحم وکرم پر رکھنا ہی تھا تو پھر بلدیاتی انتخابات کاڈرامہ رچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کم وبیش پانچ سال تو یہ ادارے ویسے بھی سول بیوروکریٹس کے شکنجے میں تھے پھر چیئرمین لانے کی زحمت کیوں کی گئی ۔وہ چیئرمین بھی ایسے کہ جن کاوجود محض ڈمی ہی رکھاگیا ہے۔

دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر صوبے میں راج کرنیوالی ن لیگی قیادت کو شایدکسی مشیر نے باورنہیں کرایا کہ حضور جمہوری معاشروں میں بلدیاتی ادارے سیاسی پنیری کی حیثیت رکھتے ہیں سوال پھر آن موجودہوتاہے کہ وزیراعلیٰ کو یہ بتائے کون ؟ کیونکہ جی حضوری کی گردان الاپنے والوں میں بھلا اتنی ہمت کہاں کہ وہ جھوٹ کو سچ کہنے کی جرات کرسکیں۔


صاحبو!یہاں یہ سوال بھی باربار ذہن کو کچوکے لگارہاہے کہ آخر مسلم لیگ کی لال بک میں جمہوریت کی تشریح میں یہ وضاحت کیوں کی گئی ہے کہ عوامی نمائندگان کی بجائے بیوروکریسی پر اعتبار کیا جائے؟ شاید لال بک لکھنے والوں میں بیورورکریٹ کی کارستانی کا عمل دخل زیادہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی شقیں سامنے آتی رہیں اوراب بھی سامنے آرہی ہیں؟ ماضی میں بھی سوال کیاجاتارہا ہے اوراب بھی اس کی گونج جاری ہے کہ آخر وزیراعلیٰ پنجاب ایسا کیوں چاہتے ہیں کہ تمام تر اختیارات عوامی نمائندگان کی بجائے بیورو کریسی کے کاندھوں پر تمغے بن کر چمکتے رہیں۔


جنوبی پنجاب میں ایک ضرب المثل عام ہے کہ پٹواری سے ایک بات منوانے کیلئے ا س کی سو باتیں مانناپڑتی ہیں۔ چونکہ جنوبی پنجاب میں پٹواری اورسیاسی جاگیرداروں کا چولی دامن کاساتھ رہتاہے اس لئے کسی قبضہ قائم کرنے یا برقرار رکھنے کیلئے انہیں پٹواری کی خدمات مستعار لیناپڑتی ہیں ظاہر ہے کہ جب پٹواری کسی بھی سیاسی وڈیرے کا ایک کام کریگا تو اس کی آڑ میں اس کے اپنے سوکام انجام پاچکے ہونگے۔

سوال یہ پیداہوتاہے کیا وزیراعلیٰ پنجاب بھی سول بیوروکریسی سے ایک کام نکلوانے کیلئے اس کی سو باتیں ماننے پر کیوں مجبورہوئے اور یہ سلسلہ اتنا دراز تر ہوتا جارہاہے کہ اس کے ختم ہونے کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔
ہوسکتاہے کہ بڑے شہروں پر سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس کے ا س قدر اثرات مرتب نہ ہوسکیں مگر چھوٹے اضلاع خاص طورپر جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع پر اس کے اثرات واضح طورپر نظرآتے ہیں کہ ان اضلاع میں ڈپٹی کمشنر ز ماضی میں جو گل کھلاتے رہے وہ سب پر عیاں ہے اوراس کی داستانیں آج تک سنائی جاتی ہیں کیونکہ ایک ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کسی بھی عام شہری کے بس کی بات نہیں ہوتی البتہ کوئی بھی عوامی نمائندہ باآسانی عام شہری کے ہاتھ آجاتاہے اور وہ کبھی توپانچ دس ووٹ کی بناپر اورکبھی کسی سیاسی سفارش کی بناپر کوئی نہ کوئی مسئلہ حل کراہی لیتے ہیں ورنہ ڈپٹی کمشنر سے مسئلہ حل کرانا گویا شیر کے منہ سے گوشت کا ٹکڑا نکلوانے کا معاملہ ہوجا تاہے ۔

سارے جنوبی پنجاب کی بات نہیں کرتے ہم ضلع بھکر کی ہی مثال سامنے رکھتے ہیں کہ محض ایک ڈپٹی کمشنر کے خودساختہ اصولوں کی بناپرسارے کاسارا عمل ہی رکا ہوا نظرآتا ہے ‘ترقیاتی عمل چونکہ براہ راست ان صاحب کی زیرنگرانی وقوع پذیرہوناہے اس لئے اس معاملے میں بھی سکوت ہی سکوت دکھائی دیتاہے۔ عوام کی ان صاحب سے ملاقات تو ایک طرف ممبران اسمبلی سے سیدھے منہ بات نہ کرنا ان کاوطیرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایسے افسران کسی بھی ضلع میں تعینات ہونگے تو پھر عوام اوراس ضلع کی کیا حالت ہوگی؟ یہ پوچھنے ‘بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔شاید ایسے افسران کی تعیناتی سے وزیراعلیٰ کے ارمان پورے ہوتے ہونگے ورنہ عوام کیلئے ایسے لوگ وبال جان ہی ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :