انتخابی عملہ کے مسائل

منگل 20 اکتوبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پنجاب اور سند ھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات اسی ماہ ہونے جارہے ہیں انتخابی گہماگہمی عروج پر ہے ‘امیدواروں کے تابڑتوڑ حملے ‘ وفاداروں کی یقین دہانی‘ خدمت کے دعوے ‘ماضی کی کہانیاں ‘حال کے قصے اور مستقبل کے وعدوں کی نوید بھی سنائی جارہی ہے ‘سیاستدانوں کی دیکھادیکھی عوام بھی تقریباً اسی طرز عمل کامظاہرہ کررہے ہیں جو محض سیاستدانوں سے ہی منسوب تھا۔

ماضی کے انتخابات سے ہٹ کر موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھاجائے توامیدواروں کو اپنی جگہ پریشانی کا سامنا ہے کہ آخر ووٹر کس کے ساتھ کھڑا ہے‘ ہرامیدوار کو وفاداری کی یقین دہانی کرانیوالا ووٹرآخری وقت میں اپناحق رائے دہی استعمال کریگا؟ یہ کسی بھی امیدوار کو خبر تک نہیں ہوتی ۔

(جاری ہے)

البتہ نظریاتی ووٹروں کے حوالے سے بہرحال کھلی رائے موجود ہے کہ وہ اپنے جماعتی‘ نظریات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔


صاحبو! انتخابی تیاریوں کے ضمن میں اگر پولنگ عملہ کی کاوشوں کاذکر نہ کیاجائے تو زیادتی ہوگی۔ 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کاواویلا اب ختم ہونے کے قریب بلکہ قریب المرگ ہوچکا ‘لکیر پیٹتے پیٹتے عمران خان بھی تھک ہارگئے مگر دوتین ضمنی انتخاب کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آسکاان میں سے ایک پر تو خیر سے انکے حمایت امیدوار شکست کے بعد گھر کو روانہ ہوچکے ہیں۔

خیر اسی دھاندلی کی افواہوں‘ آوازوں ‘عدالتوں میں اٹھتی گونج کے دوران پتہ چلا کہ انتخابی بے ایمانی ضرور ہوئی ہے مگر دھاندلی نہیں‘ اب بے ایمانی بھی انتخابی عملہ کے سرمونڈھ دی گئی اس بات سے قطع نظر کہ انتخابی عملہ اپنے تئیں کبھی بھی اس بے ایمانی کامرتکب نہیں ہوتا ‘ ظاہر ہے کہ انہیں یا تو مجبورکیاجاتا ہے یاپھر ان کے حالات ہی ایسے بنادئیے جاتے ہیں کہ ان کیلئے اپنابچاؤ بھی محال دکھائی دیتا ہے۔

گو کہ 2013 کے عام اور2015کے بلدیاتی انتخابات میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ عام انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی ہوئے لیکن اب کی بار یہ فریضہ مقننہ انجام دے رہی ہے۔ اس ضمن میں بھی بے شمار جماعتوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ مقننہ کی زیرنگرانی ہونیوالے انتخابات کا صاف شفاف ہونامحال ہی نہیں ناممکن بھی ہے کیونکہ سرکاری مشینری براہ راست صوبائی حکومت کی تابع ہوتی ہے۔


بہرحال ان مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر انتخابی عملہ کے مسائل کو پیش نظر رکھاجائے تو عجیب صورتحال سامنے آتی ہے اور یہ مسائل صرف ان بلدیاتی انتخابات کے نہیں بلکہ ماضی میں ہونیوالے تمام عام اوربلدیاتی الیکشنز کے حوالے سے ایسی ہی صورتحال درپیش رہتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے طے کردہ فارمولہ کے تحت انتخابی عملہ بشمول پریذائیڈنگ افسر‘ پولنگ افسران کو ایک دو دن قبل ہی ضلعی پریذائیڈنگ آفیسر سے رابطہ کرکے انتخابات کیلئے استعمال ہونیوالا سامان( جس میں بیلٹ باکس‘ بیلٹ پیپرز‘ مہریں اوردیگرسامان شامل ہے ) لیکر جائے تعیناتی پرپہنچادیاجاتاہے۔

کہنے کو یہ فریضہ سرکار کی طرف سے ہائر کی گئی ٹرانسپورٹ میں طے پاتا ہے مگر اس کے بعد رہائش ‘کھاناپینا اوردیگراخراجات بہرحال امتحانی عملہ کو اداکرناپڑتے ہیں۔ یہ مرحلہ مردوں کیلئے تو خیر اتنامشکل نہیں ہوتا مگر خواتین بہرحال پریشان رہتی ہیں۔ اس مرحلہ کے دوران سیکورٹی ‘سامان کی حفاظت بھی انتخابی عملہ کے سپرد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں وہ خود کو غیرمحفوظ تصورکرتے ہیں اورسامان کو بھی ۔

ان دو ایک ایام کے بعد جب انتخابات شروع ہوتے ہیں تو پھر اسی رو ز سرکاری سطح پر سیکورٹی کا انتظا م ہوتاہے مگر بعض مقامات پر محض ایک آدھ پولیس اہلکار کے سوا سیکورٹی کاانتظام ناقص ہی دکھائی دیتا ہے ۔ یہ شکایات بھی عام رہتی ہیں کہ مخالف امیدواروں کی تلخ کلامیوں میں انتخابی عملہ ہی نشانہ بنتا ہے بعض مقامات پر بات بڑھتے بڑھتے دھینگا مشتی اور مارپیٹ تک جاپہنچتی ہے۔


خیر الیکشن ہونے کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر نتائج ‘پولنگ بیگز کے ہمراہ ضلعی پریذائیڈنگ آفیسر کے پاس تو پہنچ جاتے ہیں پھر انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرناپڑتا ہے اوریہ مرحلہ رات کے پچھلے پہر بھی انجا م پاسکتاہے اس کے بعد اس پریذائیڈنگ افسر یا دیگرعملہ کیلئے اپنے گھروں تک پہنچنا محال ہوتاہے کیونکہ ایک تو پبلک ٹرانسپورٹ سرکار کی ڈیوٹی پرلگی ہوتی ہے یا پھرامیدواران کی ووٹر اٹھانے کی ڈیوٹی کیلئے انہیں ایک دن کیلئے کرایہ پرحاصل کیاجاتاہے۔


ا ن مسائل کو دیکھاجائے تو کاغذات پر یہ بہت ہی چھوٹے نظرآتے ہیں مگر عملی طورپر یہ مرحلہ انتخابی عملہ خاص طورپر خواتین کیلئے بہت جاں گھسل ہوتاہے ۔ ہم نے کئی اساتذہ ودیگر شعبہ جات سے منسلک لوگوں کو منت سماجت کرتے دیکھا ہے کہ خدا کیلئے ہمارا نام ڈیوٹی سے ختم کرادیاجائے ہمیں محض ہزار بارہ سو روپے کیلئے ذلت نہیں اٹھانا۔ پھر دیکھاگیا ہے کہ دیہی علاقوں میں تعینات عملہ کو خیر کسی نہ کسی امیدوار یا اہل دیہہ کی طرف سے کھاناپانی کی سہولت فراہم کردی جاتی ہے مگر شہروں میں تعینات عملہ اپنی جیبوں سے ہوٹل کاکھاناکھانے پر مجبورہوتا ہے یہاں بھی خواتین کئی طرح کے مسائل میں گھری دکھائی دیتی ہیں۔


ان حالات سے گزرکرکر دیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ محض ایک ہزار یابارہ سوروپے فی یوم کرایہ پر لی گئی خدمات بذات خود کتنی مشکل ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان شاید اس ضمن میں ادراک نہیں رکھتاورنہ ان مسائل کے حل پربھی توجہ دی جاتی ۔دوسری جانب یہ نقطہ اعتراض بھی سامنے آتا ہے کہ امیدواروں سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرنے اور حکومتی خزانے سے فنڈز مختص کرانے کے باوجود بھی انتخابی عملہ کو محض پیسے دیکر ٹرخادیاجاتا ہے یا پھر یہ سمجھ لیاجاتاہے کہ انکی ضرورت محض ایک ہزار بارہ سو میں پوری ہوجائیگی۔

ایک اورنقطہ اعتراض بھی دیکھ لیجئے‘ بلدیاتی انتخابات کیلئے پہلے بھی کئی امیدواروں نے انتخابی فیس جمع کرائی مگر کاغذات جمع ہونے ‘اعتراضات کا مرحلہ طے ہونے کے باوجود وہ سب کچھ ختم کرکے از سرنو نیا مرحلہ شروع کردیاگیا یعنی وہ وصول ہونے والے کروڑوں روپے کس مد میں خرچ ہونگے؟اس کی بابت کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں‘ ظاہر ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اور الیکشن کمیشن حکومت پر ہی مدعا ڈال کر بری الذمہ ہوجائیں گی لیکن عوام کا سوال اپنی جگہ ہے کہ اتنے بھاری بھرکم فنڈز حاصل کرنے اور امیدواروں سے فیس لینے والا الیکشن کمیشن آف پاکستان انہیں پوری ایمانداری سے خرچ کیوں نہیں کرپاتا اورخاص طورپر انتخابی عملہ کے مسائل کے حل پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :