آپ بھی آزما لیں !

اتوار 10 جنوری 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سر پلاننگ تو میں ہر سال کرتا ہوں لیکن میں اس پر عملدرآمد نہیں کرپاتا ، میں ہر سال ارادہ کرتا ہوں کہ خود کو تبدیل کروں گا ، وقت کی قدر کروں گا ، مطالعہ کی عادت ڈالوں گا ، نماز اور قرآن کی تلاوت کا اہتمام کروں گا ، اپنے اخلاق بہتر بناوٴں گا ، فیس بک پر وقت کم ضائع کروں گا ، پڑھائی پر ذیادہ فوکس کروں گا اور سی جی پی اے بہتر بناوٴں گا ۔

میں ہر سال ارادہ کرتا ہوں کہ والدین کی خدمت میں دوسرے بھائیوں سے سبقت لے جاوٴں گا ، گناہ چھوڑنے کی کوشش کروں گا ، غصہ کرنا چھوڑ دوں گا ، ورزش کو معمول بناوٴں گا اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام پر فوکس کروں گا لیکن سر مسئلہ یہ ہے کہ میرا یہ ارادہ صرف ارادہ بن کر رہ جاتا ہے اور اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں یکم جنوری کا سورج 31دسمبر کو غروب ہو جاتا ہے اور میں کچھ بھی نیا نہیں کر پاتا ، مجھ میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آتی اور میں خود کو ایک فیصد بھی تبدیل نہیں کر پاتا ۔

(جاری ہے)


میں ملک کے ایک مشہور موٹیویشنل اسپیکر کے آفس میں بیٹھا تھا ، ہماری تازہ تازہ دوستی ہو ئی تھی اور میں پہلی بار ان کے آفس میں حاضر ہو ا تھا ، ہم نے ابھی چائے کا ایک ایک گھونٹ بھر اتھا کہ ایک خوش شکل نوجوان ہماری گفتگو میں حائل ہو گیا ، میرے دوست شاید پہلے سے اسے جانتے تھے انہوں نے اس کی گفتگو سنی اور مسکراتے ہوئے بولے ”بھائی یہ تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ، آپ کوشش جاری رکھوایک نہ ایک دن خودکو بدلنے میں کامیاب ہو جاوٴ گے “ نوجوان بولا ” سر ! آپ کے لیے یہ مسئلہ نہیں میرے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ، میں ہر نئے سال کے شروع میں نئے عہد ، نئی قراردادیں اورنئے منصوبے ترتیب دیتا ہوں لیکن جنوری کی دھند دسمبر کی ٹھنڈی راتوں میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن میرے رویے اور میری عادات میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آتی ، جنوری کی برف جون جولائی میں پگھل کر دسمبر میں دوبارہ جم جاتی ہے لیکن میری تبدیلی کا سفر صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی آگے نہیں بڑھ پاتا “نوجوان کی گفتگو میں تڑپ تھی ، میرے دوست نے اس کی تڑپ دیکھی تو سنجیدگی سے پوچھا” اچھا وہ لسٹ دکھاوٴ جو تم نے پچھلے سال خود کو بدلنے کے لیے بنائی تھی ، جو منصوبہ بندی، جو عہد اور قراردادیں تم نے پچھلے سال ترتیب دیں تھیں وہ ذرا مجھے دکھاوٴ “نوجوان اس سوال پر گھبرا گیا ”سر میں نے یہ سب کسی کاغذ یا ڈائری پر تھوڑی لکھا تھا ، یہ تو وہ پلاننگ اور منصوبے تھے جو میں نے اپنے ذہن میں ترتیب دیئے تھے کہ اس سال میں نے یہ یہ کرنا ہے ، اس کام سے رکنا ہے ، یہ رویہ اپنانا ہے اور اس بری عادت کو ترک کرنا ہے ۔

سر جب ذہن میں لکھ لیا تو کاغذ یا ڈائری میں لکھنے کا کیا فائدہ “ نوجوان خاموش ہوا تو میرے دوست نے ایک لمبی سانس لی اور بولے ” میرے بھائی یہی تمہارا مسئلہ ہے ، تم نے کچھ خواب دیکھے ہیں اور خواہشات پال رکھی ہیں اور ہر نئے سال کی آمد پر یہ خواب اور یہ خواہشات تمہیں تنگ کرتی ہیں ، تم تنگ ہو کر دل ہی دل میں کچھ نئے عہد کر لیتے ہو ، مہینہ گزرتا ہے تو یہ عہد و پیمان ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ، پھر جب 31دسمبرکا سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی حرارت سے ان خواہشات اور عہد و پیمان میں دوبار ہ جان پڑجاتی ہے اور پھر یہ تمہاری جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔

آج میں تمہیں خود کو بدلنے کا ایک نسخہ بتا رہا ہوں اس کو آزماکے دیکھنا امید ہے تمہیں اس سے فائدہ ہو گا“نوجوان کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی ، اس نے کاغذ قلم سنبھالااور لکھنے کی پوزیشن میں آ گیا ، میرے دوست گویا ہوئے ”سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تم نئے سال میں جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو ، تمہاری جو بھی پلاننگ ہے ، تم جو بھی قراردادیں ترتیب دہتے ہو اور تم نے جو بھی عہد و پیمان باندھے ہیں انہیں ایک کاغذ یا ڈائری میں لکھ لو ، یہ لکھنے کے بعد اپنے گھر میں جو سب سے منحوس بندہ ہے اور تمہارے دوستوں میں جو سب سے بڑا دشمن ہے اسے تلاش کرو “ نوجوان کان کھجلاتے ہوئے بولا ” سر میںآ پ کی بات سمجھا نہیں “ میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور بولا ” منحوس بندے سے مراد یہ ہے کہ تمہاری فیملی کا وہ فرد جو ہر لمحے تمہیں طعنے دیتا ہو کہ تم یہ نہیں کر سکتے ، وہ نہیں کرسکتے یعنی فیملی کا وہ ممبر جو دن میں تمہیں پچاس بار ناکامی کا طعنہ دے اور یہ آپ کا بھائی ، بھابھی ، پھوپھو ، خالہ ، چاچی ،تائی اور کوئی بھی ہو سکتا ہے ، دوسرے نمبر پر تمہارا وہ دوست جو تمہارے مستقبل کی پیشنگوئی کچھ اس انداز میں کرے کہ تم زندگی میں ذیادہ سے ذیادہ ٹرک ڈرائیور بن سکتے ہو بس ، تم اپنی فیملی اور اپنے دوستوں میں سے یہ دوافراد ڈھونڈو ، جو عہد تم نے کیئے ہیں ان کو دو فوٹو کاپیاں کرواکر انہیں دے دو اور اصل کاغذ اپنے اسٹڈی روم یا اس جگہ پرلگا دو جہاں تم دن میں چوبیس بار اسے دیکھ سکو ۔

ایسی جگہ جہاں ہر وقت تمہاری نظر پڑتی ہو ، تم آتے جاتے اسے دیکھ سکو ۔ تم اسے اپنے اسٹڈی روم میں بھی لگا سکتے ہو اور سونے کے کمرے میں بھی ، تم اسے تہہ کر کے اپنی جیب میں بھی رکھ سکتے ہو اور اپنے پر س میں بھی ، تم اسے اپنے لیپ ٹاپ کے ڈیسک ٹاپ پے بھی لگا سکتے ہو اور اپنے موبائل کی اسکرین پر بھی ، تم اسے اپنے والدین کے کمرے میں اس جگہ پر بھی لگا سکتے ہو جہاں رات کو ان کے پاوٴں دباتے ہوئے تمہاری نظر پڑتی ہو اور تم اسے اپنی کتابوں کے اندر بھی رکھ سکتے ہو ، تم اسے اس دیوار پر بھی چسپاں کر سکتے ہو جہاں رات کو چارپائی پر لیٹ کر تمہاری نظر پڑتی ہو ۔

تم دن میں جب چوبیس بار اپنی ان قرار دادوں اور اپنے عہد وپیمان کو دیکھو گے تو تمہیں احساس رہے گا کہ تمہیں کچھ بدلنا ہے ، تمہیں کچھ حاصل کرنا ہے ، تمہیں کچھ پانا ہے اور کچھ کر کے دکھانا ہے ۔ ایک طرف یہ احساس تمہاری قرار دادوں اور عہد وپیمان کی فصلوں کو کھاد فراہم کرے گا اور دوسری طرف وہ” منحوس اور دشمن “ آپ کی انا کو ٹھیس لگاتے رہیں گے ، آپ جب بھی ہفتے مہینے بعد ان سے ملو گے یہ آپ کی لسٹ آپ کے سامنے رکھ کر فٹ بال کی طرح آپ کی انا کو ٹھوکر لگائیں گے اور پھر جب آپ کی انا پانچ فٹ اچھل کر زمین پر گرے گی تو آپ کو کچھ یاد آئے گا کہ میں نے کچھ بدلنا تھا ، کچھ حاصل کرنا تھا ۔

آپ کا یہ فیملی ممبر اور آپ کا یہ طعنے باز دوست آپ کے سب سے بڑے محسن ہیں ، ان کی باتیں اور ان کے طعنے تمہیں آگے بڑھانے میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو ارسطو نے اسکندر کو اسکندر بنا نے میں کیا تھا ، یہ آپ کی ذات کے ارسطو ہیں ان کی قدر کرواور ان کے طعنے اور ان کی باتوں سے سبق سیکھو “ نوجوان کا چہرہ اس مسافر کی طرح کھل اٹھا تھا جسے صحرا میں اچانک پانی مل گیا ہو ، میرے دوست دوبارہ گویا ہوئے ” اور آخری بات یہ کہ تم خود بھی اپنا احتساب کرتے رہو ، ہر ہفتے یا مہینے بعد اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہو کہ سو میں سے کتنے فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔

اگر رزلٹ سو فیصد ہے تو اللہ کاشکر ادا کرو ، اسی فیصد ہے تو مطمئن رہو ، پچاس فیصد ہے تو فکر کرو اور اگررزلٹ تیس فیصد سے بھی کم ہے تو اسی ”منحوس اور دشمن “ کے پاس چکر لگا آوٴ ، ان کی باتوں اور طعنوں سے آپ کو دوبارہ پوٹینشیل اور انرجی مل جائے گی اور آپ دوبارہ اپنے کام میں جت جاوٴ گے “
نوجوان کی آنکھوں میں چمک تھی اور اس کے وجود میں خوشی ،مسرت اور اطمینان کی لہریں دو ڑ رہیں تھیں ۔ یہ نسخہ نوجوان کے اس مسئلے کو حل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے اس کا جواب جاننے کے لیئے ہمیں جنوری 2017کے سور ج کا انتظار کر نا پڑے گا ۔ یار زندہ ، صحبت باقی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :