ٹی وی چینلز کے اخلاق باختہ پروگرامز

اتوار 12 جولائی 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

رمضان نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مبارک میں ہر طرف نیکیاں ہی نیکیاں فروغ پاتی ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ ہر طرف قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ ہو رہا ہوتاہے۔ غریبوں کی مدد کی جارہی ہوتی ہے۔ مسلمان رمضان کے مہینے میں اسلامی این جی اوز کی بھر پور مدد کرتے ہیں جس سے ان کے فلاحی امور چل رہے ہوتے ہیں۔

کہیں آنکھوں کے ہسپتال ہیں تو کہیں جرنل ہسپتال ہیں۔ کہیں غریب بچیوں کی شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں تو کہیں یتیم بچوں کی کفالت کے پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ افطاریوں کی محفلیں منعقد ہو رہی ہوتیں ہیں۔ غریبوں کو افطار کرائی جا رہی ہوتی ہے۔کیوں نہ ہو رمضان نیکیوں کے موسم بہار کا مہینہ ہے ۔ ہمارا مذہب ہمیں یہی سکھاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ مہینہ ہر سال آتا ہے ۔

یہ امت مسلمہ کے لیے ایک مہینے کا تربیتی کورس بھی ہے ۔اس میں نیکیاں کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ نیکیوں پر اُبھارا جاتا ہے تاکہ مسلمان معاشرے میں نیکیاں پھولے پھلیں مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں۔اس ماہ مبارک میں روٹین سے زیادہ عبادات ادا کی جاتی ہیں۔ عام دنوں کے بجائے اس ماہ میں نیکیوں پر اجر بھی کئی گناہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔اللہ کہتا ہے کہ رمضان میرا مہینہ ہے ۔

روضے دار کو میں اجر دوں گا۔رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرہ عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ دوزخ سے نجات کاعشرہ ہے۔ پہلے دو عشرے گزر گئے آخری عشرہ دوزخ سے نجات کا عشرہ جاری ہے۔ اس عشرے میں مسلمان اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ مسجد اعتکاف کرنے والوں سے بھر جاتی ہیں ہرطرف نیکیوں کی بہار ہی بہار ہے۔اسلام میں عام دنوں میں بھی خواتین کے لیے مخلوط یعنی مرد اور خواتین کا اکٹھا ایک جگہ محفل سجانہ منع کیا گیا۔

جب کہ شروع رمضان سے ہمارے ٹی وی شوز میں مرد اور خواتین کے اکٹھے پروگرام ہو رہے ہیں حتہ کہ افطار پارٹیوں میں مرد اور خواتین آمنے سامنے اکٹھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ساتھ کچھ علماء اکرام بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیا یہ تعلیم اسلام کے مطابق ہے؟ نہیں نہیں اسلام کے مطابق نہیں ہے!اسلام میں پردے کے صاف صاف احکامات ہیں۔ پردہ تو ایک طرف ،کوئی اِکا دُکا خاتون پردے میں ہوتی ہے باقی تمام کی تمام بے پردہ ہوتی ہیں۔

ٹی وی شوز میں عورتیں بن ٹھن کر آتیں ہیں ایسا لگتا ہے جیسے فیشن شو ہو رہا ہے۔ مسلمان خواتین کم از کم اسکارف پہن کر کیمرے کے سامنے آتیں تو بھی شاید کچھ مغفرت ہو جاتی۔ یورپ میں مسلمان خواتین اسکارف پہنتیں ہیں۔مغرب کے بے روا شیطانی معاشرے میں مسلمان خواتین اسلام پر عمل کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں۔ مگر ہم اپنے ٹی وی پروگراموں میں ان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اسلام نے گانے بجانے سے منع کیا گیا ۔

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے رسول اللہ نے فرمایا میں گانے بجانے کے سارے سامان توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ مگر ٹی وی کے پروگراموں میں گانوں کی بھر مار ہوتی ہے جو با لکل غیر اسلامی ہے۔ رمضان پروگرام بھی نیلام گھر شو کی طرز کے ہونے لگے ہیں خواتین انعامات کی طرف دیکھ رہی ہوتیں ہیں کہ کب ملا اب ملا۔ رمضان کے مقدس مہینے میں پروگرام کرنے والا مرد یا خاتون اِھر اُدھر اوچھل کود رہا ہوتا جو رمضان کے تقدس کے خلاف عمل ہے۔

انعامات کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر عورت انعام کی لالچ میں پروگرامر کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے۔کیا اسلام میں خاص کر اس عبادات کے مہینے میں لاٹری سسٹم اور لکی ڈراکی اجازت ہے ہر گز نہیں؟ اسلام ایک سنجیدہ مذہب ہے اس کے سارے عبادات کے پروگرامز اور تہوار بھی سنجید ہ ہیں۔ نماز کو لیجیے یہ فحاشی عریانی سے روکتی ہیں اس سے ڈسپلن سیکھا جاتاہے۔

مئوذن پانچ وقت اعلان کرتا ہے کہ اللہ بڑا ہے۔ سلامتی کی طرف آؤ۔ فلاح کی طرف آؤ۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں سنجیدگی با لکل نہیں ہے۔ ان کو گرجا گھروں میں بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتیں ہیں ان کی عبادات میں ڈھول بجائے جاتے ہیں۔ان کے تہواروں میں گانے بجانے ،خرافات، شراب نوشی ،فحاشی ،مخلوط محفلیں اور نہ جانے کون کون سے نامناسب طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسلام میں ان چیزوں سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کیا ہم رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کے بجائے مغرب کی نکالی کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جد وجہد میں نہیں لگے ہوئے ہیں ؟ کیا ایک سازش کے ذریعے پاکستان میں مغربی شیطانی معاشرہ مسلط نہیں کیا جا رہا؟ ہمارے علماء کرام کیوں خاموش ہیں؟ وہ اس سازش کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھا رہے ہیں؟ ہمیں حیرت تو اُن علماء پر ہے جو رمضان کے مقدس مہینے میں ان مخلوط پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔

ان کو ایسے پروگراموں شرکت سے اجتناب کرنا چاہییے۔ ہم ٹی وی مالکان سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ رمضان کے مبارک اور نیکیوں کے موسم بہار والے مہینے میں اس گناہ سے بچیں اور نیکیاں کمائیں اور رمضان میں ان اخلاق باختہ پروگراموں کو فوراًبند کروا دیں یا کم از کم ان بے ہودہ نشریات کو اسلام کے مطابق نشر کریں۔ کیا پاکستان میں عورتوں کے علیحدہ کالز نہیں ہیں۔

علیحدہ بنک نہیں ہیں۔ ٹی وی پر بھی خواتین کے پروگرام صرف خواتین ہی کوچلانے چاہیں۔ اس میں باپردہ خواتین کو شرکت کی اجازت ہو۔یا کم از کم اسکارف پہن کر پروگراموں میں شرکت کریں۔ اگرپاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں میں خواتین پردے میں رہ کر پائلٹ، ڈاکٹر، پروفیسر اور انجینئر بن سکتیں ہیں تو ٹی وی پروگراموں کو بھی چلا لیں گی۔ دنیا میں بچوں کے ٹی وی ، کھیلوں کے ٹی وی اور دوسرے ٹی وی چل سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں خواتین کے ٹی وی بھی ان شا اللہ چلیں گے۔

آہستہ آہستہ ایک ماحول بن جائے گا اور ایک وقت آئے گا کہ ان پروگراموں کو صرف خواتین ہی دیکھا کریں گی۔ کیا ہمیں اپنی عورتوں کو مغرب کی شیطانی اور عنقریب ڈوبنے والی تہذیب کی طرف راغب ہونے سے بچانے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیے ؟ہمارے علماء کو اجتہاد کا بند دروازہ کھولنا ہو گا اور مسلمان قوم کی راہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہو گا۔

اسلام سلامتی اور آگے بڑھنے والا مذہب ہے اسلام کا نام ہی سلامتی ہے۔اسلام ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے والا مذہب ہے۔اسلام بنی نو انسان کی راہنمائی کرنے والا بڑا مذہب ہے۔ اے کاش کہ شروع کے مسلمانوں کی طرح مسلمان پھر سے اسلام کے داعی بن جائیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ہمارا ہر کام اسلام کے مطابق ہو۔ ہمارے علماء عصری تقاضوں کے مطابق اجتہاد کر کے ہماری راہنمائی کریں۔

مسلمان کے ہر کام میں دنیا کے سامنے اسلام کی تبلیغ ہو۔ ہم کچھ بھی ہوں ڈاکٹر ہوں، انجنیئر ہوں، فوجی ہوں، کاروباری ہوں، استاد ہوں اورعالم ہوں مگر مسلمان ہوں۔ ہر مسلمان اسلام کا سچا داعی ہو۔ اس کو اپنے ہر فعل سے اسلام کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہمارے ہر کام اسلام کے دائرے کے اندر ہوں۔مغرب کی شیطانی تہذیب نے آج عورت کو شمع ِ محفل بنا دیا ہے۔

اس کا کوئی بھی مال فروخت نہیں ہوتا جب تک کہ عورت کو اس مال کے ساتھ نیم عریاں کر کے پیش نہ کرے۔ کیا مسلمان معاشروں میں بھی یہی شیطانی روش نہیں چل پڑی؟ مغرب نے عورت پر معاش کا بوجھ بھی ڈال دیا ہے جو عورت کے ساتھ نانصافی ہے۔اسلام میں خاندان کی معاش مرد کے ذمے ہے عورت کے ذمے نہیں ہے۔ہم اسے پھر سے وہی مقام دلائیں جو اسلام نے اس کے لیے تجویز کیا ہے۔

عورت اسلام میں گھر کی ملکہ ہے شمع محفل نہیں؟ اس کا ایک روپ ماں کا ہے جس کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔ ایک روپ بیٹی کا ہے جس سے والدین بے انتہاہی پیار کرتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس باپ نے دو بیٹیوں کی اچھی تربیت کی ان کو پڑھنا لکھنا سیکھایا پھر ان کا گھر آباد کیا اس کے لیے جنت ہے۔ اسلام نے بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی باپ کے مال میں حقدار بنایا ہے ۔

اسی طرح عورت اپنے میاں کے مال میں بھی قانونی حقدار ہیں ۔ عورت بیوی بھی ہے جو اپنے خاوند کی پیاری اور اس کے گھر کی رکھوالی ہوتی ہے۔عورت بہن بھی ہے جس سے اُس کے بھائی ہمیشہ پیار کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول نے خطبہ حج الوداع کے موقعے پر فرمایا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور عورتوں کے حقوق کا خیال کرو کیونکہ مردوں پر عورتوں کا حق ہے۔اللہ کرے ہمارے علماء اجتہاد کر کے موجودہ دور میں مسلمان عورتوں کی راہنمائی کریں۔

ہمارے ملک پاکستان میں سب کام اسلام کے مطابق چلیں۔ رمضان میں ٹی وی کی بے ہودہ مخلوط نشریات اور گانے بجانے کے پروگرام بند ہونے چاہیں۔ اور اسلام کے مطابق عورتوں کے ٹی وی پروگرام ہونے چاہیں۔ ان میں مرد علماء کے بجائے خواتین علماء کو شرکت کرنی چاہیے۔ اسی طرح عورتوں کے روٹین ٹی وی پروگرام بھی مخلوط، گانے بجانے اور لاٹریوں اور انعام کی لالچ اور اُچھل کود سے پاک ہونے چاہیں۔ہمیں اسلام کے خلاف کام کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت نہیں دینی چاہے بل کہ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہیے اللہ مسلمانوں کو برائیوں سے محفوظ رکھے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :