مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اوّل

بدھ 11 جنوری 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

دنیا میں مسلمانوں کی تین مقدس ترین جگہیں ہیں۔ جن میں سے مسجد اقصٰی مسلمانوں کے لیے تیسری مقدس جگہ ہے۔ پہلی اللہ کا گھر خانہ کعبہ مکہ میں، دوسری مسجد نبوی مدینہ میں اور تیسری مقدس جگہ مسجد اقصٰی جو فلسطین میں واقع ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرانے کے لیے ایک رات مسجد اقصیٰ میں لے گیا۔

مسجد اقصیٰ سے ہی رسولاللہ آسمانوں کی سیر کرنے گئے تھے۔جہاں رسول اللہ کو جنت، دوزخ، پیغمبروں سے ملاقات اور پیج وقتہ نمازکی اللہ کے طرف سے ہدایات ملی تھی۔ مسلمان جب مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے گئے تھے تو اس وقت مسجد اقصیٰ( بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ اسی وجہ سے مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل کہلائی تھی۔

(جاری ہے)

پھر کچھ مدت بعد اللہ کی طرف سے حکم آیا تھا کہ اب مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کریں۔

صاحبو!مسلمانوں کا وہی قبلہ اوّل اِس وقت یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ یہودی مدتوں سے دنیا میں یہ جھوٹا پروپیگنڈاکرتے رہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ ان کی ملکیت ہے۔ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو کہ قدیم جگہوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ یو نیسکو نے ایک قرارداد میں جو عرب ملکوں نے پیش کی تھی، اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں، رائے شماری کے تحت تسلیم کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی تاریخی جگہ اور ملکیت ہے ۔

اس طرح یہودیوں کے ملکیت کے دعوے کو یونیسکو نے اپنی رائے شماری میں باطل قرار دے دیا ہے۔ اسی تاریخی حقیقت کوقرآن نے سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ا میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُ س مسجدتک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے“(بنی اسرائیل آیات ۱) ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہودیوں کے تاریخی فساد اور نافرمانی کا ذکر اپنی آخری کتاب قرآن شریف میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ”ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کی تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم بر پا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ آخر کار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقعہ پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہاے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جونہایت زورآور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس گئے۔

یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے لیے ہی بھلائی تھی، اور برائی کی وہ تمہاری اپنے ذات کے لیے بُرائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کاوقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلّط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اورمسجد(بیت ا لمقدِس) میں اِسی طرح گھُس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھُسے تھے اور جس چیز پران کا ہاتھ پڑے اس کو تباہ کر کے رکھ دیں۔

ہوسکتا ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا توہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے“( سورةبنی اسرائیل آیات ۴تا۸)۔ صاحبو! تاریخ کے مطابق پہلی سزا سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہلِ بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی ۔

آٹھویں صدی قبل مسیح اسیریا نے شمالی فلسطین پرقبضہ کر کے اسرائیلیوں کاقلع قمع کیا تھا اورعربی النسل قوموں کو آباد کیا تھا۔ پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا تھا ۔ دوسرے تباہی سے مراد رومی ہیں جنہوں نے بیت المقدس کو بالکل تباہ کر دیا، بنی اسرائیل کو مار مار کر فلسطین سے نکال دیا ۷۰ءء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی، جس کی پاداش میں رومیوں نے ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔

اللہ نے بھی دو مرتبہ ان کو اسیریا اور بخت نصر سے سزا دلوائی اور کئی سالوں سے وہ دنیا میں تتربتر تھے۔ اس کے بعد دو ہزار سال سے وہ دنیا بھر میں پراگندہ و منتشر رہے تھے۔(حوالہ تفسیرسورة بنی اسرائیل آیات ۴تا۸ ،از سید مودودی) یہودی اب پھر سازش سے عیسایوں کی مدد سے فلسطین پر قبضہ کیا ہوا ہے اور تیسری بار فساد کا موجب بن رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضے کر رہے ہیں۔

غزہ کی پوری پٹی کی آبادی کو دس سال سے قید کیا ہوا ہے۔ فلسطینی عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر رہے ہیں۔باہر سے بھی کسی قسم کی امداد نہیں آنے دیتے۔ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت سے روکتے ہیں۔مسلمانوں کو نماز کے لیے آذان دینے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ صاحبو! جیسا کے اوپر اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے اگر یہودیوں نے پھر تیسری بار ویسا ہی فساد پھیلایا تو اللہ بھی پہلے کی طرح یہودیوں کو ویسی ہی سزا دے گا جیسی پہلے دو دفعہ دے چکا ہے۔

کیا فلسطین میں مسلمانوں پر مظالم کی وجہ سے وہ اللہ کے عذاب کے مستحق نہیں بن رہے؟کون سا ظلم ہے جویہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر روا نہیں رکھا؟ فلسطینیوں پر یہودی ریاست کے مظالم سے بیزار ہو کرامریکا تک نے بھی کہہ دیا ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودیوں کے لیے گھر بنانا ناجائز ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل کویہاں تک کہہ دیا ہے کہ آ پ کو کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔یہودی سیاست ہیں یا جمہوری ریاست! اب تو یونیکسو نے بھی ثابت کر دیا کہ مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے حوالے کر دیا چاہیے یا پھر اللہ کے عذاب کے لیے تیار ہو جائیں۔اللہ مسلمانوں کا حامی و مددگار ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :