جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ریلی کراچی

جمعرات 3 دسمبر 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

ریلیاں تو سیاسی جماعتیں نکالتی رہتیں ہیں مگر کچھ ریلیاں تاریخ کا حصہ بن جاتیں ہیں اسی میں سے ایک ریلی مرحوم بھٹو کے زمانے میں کراچی ایئر پورٹ سے برنس روڈ تک نو ستاروں والی تحریک نے نکالی تھی جو ۱۲/ گھنٹوں میں سفر کر کے منزل مقصود پر پہنچی تھی پھر بھٹو صاحب نے اس کے توڑ میں ریلی نکالی تھی وہ بھی بڑی ریلی تھی۔ اب بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کراچی کی لسانی تنظیم نے بھی کچھ دن پہلے ریلی نکالی تھی جو لیاقت آباد سے قائد اعظم کے مزار پرختم ہوئی تھی جس میں وہ دم خم نہ تھا جو کراچی میں لسانی تنظیم کی گزشتہ ریلیوں میں ہوا کرتا تھا۔

اب اس کے توڑ میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحادنے کراچی ایئر پورٹ سے قائد اعظم  تک مشترکا ریلی نکالی ہے۔ بلاشبہ اس ریلی میں کراچی کے عوام جس میں عورتیں بچے مرد بوڑھے اور نوجوانوں نے بھر پورشرکت کی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے جھنڈے ہاتھوں میں لیے جس گرم جوشی سے سراج الحق اور عمران خان کا استقبال کیا اُس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کراچی میں تبدیلی چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ ریلی بھی ۱۰/ گھنٹوں میں اپنی منزل تک پہنچی ۔راستے میں پہلے اسٹار گیٹ اور پھر مختلف پر جگہوں پر سراج الحق اور عمران خان صاحب نے خطاب کیا۔ کامیاب ریلی کے اختتام پر خوشی میں آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ صاحبو! سب کو معلوم ہے کہ کراچی کو ایک عرصہ سے ایک بین الالقوامی سازش کے تحت ایک لسانی تنظیم نے تیس نیس کر دیا ہے۔ نہ اس میں عوام کو پانی میسر ہے نہ سوریج کا نظام درست ہے نہ کراچی کی سڑکین صحیح ہیں نہ عوام کے ٹرانسپورٹ کا نظام ہے نہ تعلیم کا انتظام ہے ہاں افرا تفری، دہشت گردی، بھتہ خوری ، بوری بند لاشوں ،اقراپروری، کرپشن اور روزانہ کی بنیاد پر بے گناؤں کی پندرہ پندرہ لاشوں کے ملنے کی وجہ سے کراچی کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔

آپ غیر جانب دار ہو کر کرچی شہر کا سرو ے کریں ہر طرف آپ کو تباہی ہی تباہی نظر آئے گی ۔ گو کہ یہ بھی کراچی کے عوام نے برداشت کر لیا تھا مگر قتل غارت اور ہدافی قتل(ٹارگٹ کلنگ) نے عوام میں ایسا خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے جیسا ہمارے پاکستان کے دہی علاقوں میں وڈیروں نے پیدا کیا ہوا ہے۔کسی کی جرأت نہیں ہو سکتی کی وہ وڈیرے کی مرضی کے خلاف چل سکے ایسی ہی خوف اور دہشت کا بازار کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے پیدا کیا ہوا ہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۳۰/ سال سے کراچی میں پیپلز پارٹی اور اس لسانی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت رہی ہے مگر عوام کے مسائل حل نہ کیے۔

اس کی وجہ عام لوگوں کو شاید معلوم نہیں اور اگر معلوم بھی ہے تو عوام کو ان سب مصیبتوں میں پھنسا کر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کراچی پاکستانی کی۷۰/ فی صدآمدنی کا ذریعہ ہے اس کی وجہ کارخانے اور بندر گاہ ہے ۔ گریٹ گیم جس میں امریکا،اسرائیل اور بھارت شامل ہیں کے تحت پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے کراچی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور اس میں لسانی تنظیم کے مقامی ایجنٹ ان کے سہولت کار ہیں اور پیپلز پارٹی اپنی کرپشن کی روایت کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی ہے۔

کراچی سے آمدنی بند ہونے کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی اداروں سے قرضے پے قرضے لے رہا ہے اب اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر پاکستانی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض بنا دیا گیا پہلے قرضے کا سود ادا کرنے کے لیے نیا قرضہ لیا جاتا ہے اگر یہی صورت حال رہی تو ایک وقت پاکستان کو مقروض ناکام ملک قرار دے کر اس کے ایٹمی ہتھیار بین الاقوامی اختیار میں دے دیے جائیں گے اور یہی گریٹ گیم والوں کا ہدف ہے۔

پھر اُس کے بعد وہ اپنے مقامی سہولت کاروں کے ساتھ اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے کراچی کو فری پورٹ بنا کر اور لسانی تنظیم کو صوبہ کا تحفہ دے کر پاکستان کے حصے بخرے کرنے والے منصوبے کو پورا کریں گے جس کے لیے وہ گائے بگائے نقشے بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ اسی گریٹ گیم کی سہولت کار لسانی تنظیم نے کراچی کے سرمایا داروں سے بھتہ وصولی کے لیے لفافوں میں گولیاں بھیج بھیج کر ا تنا خوف زدہ کر دیا تھا کہ کراچی سے سرمایا داروں نے سرمایا باہر دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیا ہے ۔

کراچی کے پوش علاقوں کے لوگ بیرون دنیا ہجرت کر گئے ہیں ان حالات کے مقابلہ چاہیے تو تھا کہ وقت کی مرکزی حکومتیں کرتیں مگر وہ اپنے حکومت کو قائم رکھنے کے لیے لسانی تنظیم کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسا نہ کر سکیں اور اب الطاف حسین کی طرف سے پھیلائی گئی لسانیت کی زہر کینسر بن گئی ہے اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ اس ساری گریٹ گیم کا فوج کو اچھے طریقے سے معلوم ہے اسی لیے ملک میں فوج کی جانب سے جاری ضرب عضب کے ساتھ ساتھ کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے۔

فوج تو اپنے حصے کا کام خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے مگر سیاسی معاذ پر یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے کاش ن لیگ اس میں دل سے شامل ہوتی اور لسانی تنظیم کو سیاسی معاذ پر شکست سے دو چار کرنے میں سیاسی معاذ بنا کر اس ناسور کو ختم کرنے میں شامل ہوتی مگر سیاسی ضروتوں کی وجہ سے وہ نہیں کر رہی اور اسے طاقت کے نشے میں شاید یہ ادراک بھی نہیں ہو رہا کہ اسی ناسور کی وجہ سے اس کے حکومت پہلے کی طرح پھر بھی جا سکتی ہے۔

بہر حال ان حالات کی وجہ سے کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے سیاسی اتحاد کیا ہے شہر کی ۹۰ /فی صد سیٹوں میں کچھ اس طرف طے کیا گیا ہے کہ جہاں جماعت اسلامی کا چیرمین نامزد ہے وہاں عوام ترازو کو ووٹ دیں گے اور جس سیٹ پر تحریک انصاف کا چیرمین نامزد ہے وہاں عوام تحریک انصاف کے نشان بلے کو ووٹ دیں گے شہر میں جیتنے والے کونسلر، چیئر مین اور وائس چیئر مین باقی باڈی کا انتخاب کریں گے اور یہ مل کر ملک کر میئر کا انتخاب کریں گے ۔

اگرسیاست اور خاص کربلدیاتی انتخابات میں کرپشن ،دیانت اور شرافت کا دخل ہے تو جماعت اسلامی میں کرپشن کا نام تک نہیں ایک دفعہ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ اور دودفعہ بلدیہ میں (مرحوم )عبدالستار افغانی نے حکومت کی تھی ایک دفعہ این اے ۲۵۰/ ڈیفنس سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی جیتا تھا میں ان کی قومی اسمبلی کی مہم کا انچارج تھا جس میں لسانی تنظیم کی امیدوار نسرین جلیل صاحبہ کو شکست ہوئی تھی اس حوالے سے عبدالستار افغانیکو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا وہ لیاری میں پٹھان مسجد کے قریب ایک ۶۰/ گز کے فلیٹ میں رہتا تھا اور جب فوت ہوا تو اس کا جنازہ اسی ۶۰/ کے فلیٹ سے نکلاتھا۔

اس کے سامنے لسانی تنظیم کے میئر کرپشن کی وجہ سے اور اخباری اطلاع کے مطابق اپنی تنظیم کو حساب کتاب صحیح نہ دینے کی وجہ سے ملک سے باہر ہے وہ کراچی نہیں آسکتا لسانی تنظیم کے چائنا کٹنگ کے الزامات تو اس لسانی تنظیم کے سربراہ برطانوی شہری کی طرف سے بھی ان کے لوگوں پر لگائے تھے اور رابطہ کمیٹی کو ڈس مس بھی کر دیا گیا تھا۔ اس اتحاد کے دوسری فریق عمران خان بھی کرپشن سے پاک اور صاف ہیں وہ اپنی جماعت کو بھی کرپشن سے پاک چلا رہا ہے اس کی زندہ مثال کہ خیبر پختونخواہ میں اس کے ایک وزیر نے کرپشن کی تو اسے تحریک انصاف سے علیحدہ کر دیا گیا اس وقت کراچی تبد ہلی کی طرف دیکھ رہا ہے کراچی میں لسانی تنظیم نے ۵۰ /سیٹوں پر اپنے نمائندے ہی کھڑے نہیں کیے رہا باقی سیٹوں کا حال تو اس پر سخت مقابلہ ہو گا اور ان شااللہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد کراچی میں جیتے گا۔

کراچی میں ایک تو خوف کی فضا میں کچھ کمی آئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے کراچی میں فوج کو تعینات کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے لسانی تنظیم کے غنڈے جو الیکشن میں زور ذبردستی کرتے تھے کچھ تو انڈر گراؤنڈ ہیں جو بچے ہیں وہ رینجرز کی کاروائی سے خوف زدہ ہیں ان حالات میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکن زور شور سے تحریک چلا رہے ہیں۔ ادھر ایک کامیاب ریلی بھی نکل چکی ہے جس میں کراچی کی عوام کی طرف سے پزیرائی ملی ہے۔

اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ آج کی شاندار ریلی نے خوف کا ماحول ختم کر دیا ہے ۵/ دسمبر کادن ہماری جیت کا دن ہے۔ دہشت گردوں، بھتہ، خوروں،چائنا کٹنگ کرنے والوں،ٹارگٹ کلروں ، کراچی کو بدامنی میں دھکیلنے والوں کوشکست فاش ہو گی۔ ریلی کے اختتام پر انہوں نے قائد کے مزارا پر فاتحہ خوانی کی اور کہا کہ قائد نے اسلامی پاکستان حاصل کیا تھا ہم قائد کے اسلامی پاکستان کی حفاظت کریں گے ا گر کسی کو لبرازم پسند ہے تو وہ بھارت چلا جائے ۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد کراچی کے روشن مستقبل اور عزت و وقار کے لیے اتحاد ہے۔ہم کراچی کو پانی، تعلیم، صحت ، ٹرانسپورٹ، سوریج اوربوری بند لاشوں کی مشکلوں سے نجات دلائیں گے شہر میں امن قائم کریں گے جب کارخانے چلیں گے تو پھرنوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ الطاف حسین بھی کراچی آ کر آرام اور تحفظ سے رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں شاندار اسقبال پر کراچی کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں اس سے قبل اس کے اسٹار گیٹ اور الہ دین پارک پر بھی سراج الحق اور عمران خاں صاحب نے خطاب کیا اس موقعہ پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، نائب امیر مسلم پرویز،اسامہ ر ضی اور تحریک انصاف کراچی کے صدر سید علی زیدی ، عمران اسماعیل،خرم شیر زمان اور ڈکٹر عارف علوی اور دیگر بھی موجود تھے۔

نعیم الرحمان اور علی زیدی نے خطاب بھی کیا۔عمران خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ میں اس شاندار استقبال پر کراچی کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک پارٹی کا چیئر مین اپنی عوام سے خطاب نہ کرے ۔ ایک جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن عوام سے خطاب سے روک رہا ہے میرے خلاف ایف آئی آر کٹ چکی ہے کیا یہ جمہوریت ہے ایسا کرنے سے خونی انقلاب کا راستہ کھلتا ہے۔

عوام کو جمہوری راستے سے نہ ہٹاؤ۔اسحاق ڈار نے دوبرس میں دبئی میں اربوں کی پراپرٹی بنائی۔آصف زرداری کا ۶/ ارب روپیہ سوئس بنکوں میں پڑا ہوا ہے۔یہ پیسہ واپس لانے کے بجائے عوام پر مزید ٹیکس لگا رہے ہیں۔عوام جانتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری میں مک مکاؤ ہے۔کراچی کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں پاکستان میں تمام تحریکیں کراچی سے شروع ہوتیں ہیں کراچی جاگتا ہے تو پورا پاکستان جاگتا ہے کراچی میں امن ہو گا تو پورے پاکستان میں امن ہو گاہم کراچی میں امن لائیں گے کراچی کی پولیس غٰیرجانبدار ہو گی تو رینجرز کی ضرورت نہیں ہو گی ہم کراچی کی پولیس کو بھی خیبرپختونخواہ کی پولیس کی طرح غیر جانبدار بنائیں گے تو اس سے امن قائم ہو گا۔

الطاف حسین کو میرا مشورہ ہے کہ آپ کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے اندر سے ہی مائنس ون کا فارمولہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ آپ کے لوگوں کی گزشتہ ریلی میں آپ کی کوئی تقریر نہیں تھی نہ تصویر تھی۔ عمران خان نے کہا ہمارا جو میئر ہو گا وہ کراچی میں رہے گا اُسے لندن سے احکامات نہ ملیں وہ پیسہ بھی لندن نہیں بھیجے گا وہ کراچی کے عوام کے پیسے کی چوری بھی نہیں کرے گاعوام کی خدمت کرے گا نفرت کی سیاست ختم کرے گا ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے دم بھگا کر بھاگ جاتا ہے عوام خوف سے نکل کر اپنا ووٹ استعمال کریں ظالموں کا احتساب کریں ہم کراچی کو امن و شانتی کا شہر بنا کر دم لیں گے۔

آج کی شاندار ریلی اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے سے کراچی کے عوام مطمئن ہیں ان کو مثبت تبدیلی نظرآرہی ہے اللہ کرے ان کی آرزوئیں پوری ہوں اور کراچی میں امن قائم ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :