موسیقار مچھر

ہفتہ 21 مارچ 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پرانے زمانے کے موسیقی کے اُستاد مختلف راگنیوں سے مختلف امراض کا علاج کیا کرتے تھے۔ ایک شخص فلو میں مبتلا ہے اور مسلسل چھینک رہا ہے تو اُستاد اُسے سامنے بٹھا کے راگ درباری گانا شروع کر دیتے۔ گاتے گاتے اُستاد کا گلا بیٹھ جاتا تھااور مریض کو فلو کی بجائے کھانسی شروع ہو جاتی تھی۔اُس وقت طبیعتیں بہت سادہ ہوتی تھیں، اُستاد راگ درباری روک کر راگھ بھیروی گانے لگتے تھے تو کھانسی بھی رُک جاتی تھی اور جلاب شروع ہو جاتے تھے۔

اس طرح جراثیم نکل بھاگتے تھے اور مریض شفا یاب ہو جاتا تھا۔فصلوں کا انحصار چونکہ زیادہ تر بارش پر ہوتا تھا، اس لئے بادل بھی بہت نخریلے تھے۔جب تک موسیقی نہ سنتے اکٹھے ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔راگ ملہار سنے بغیر ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔

(جاری ہے)

ہاں البتہ راگ ملہار سننے کے بعدجھومتے ہوئے آتے اور دل کھول کر برستے تھے ۔ اِدھر بارش برستی اُدھر مچھر نمودار ہو جاتے تھے اور ڈھولکیاں بجاتے بے سُری تانیں بجاتے گلی گلی محلے پھیل جاتے تھے۔

لوگوں میں قوتِ مدافعت تھی اس لئے لوگ ان مچھروں کی موسیقی چوں چراں کئے بغیر سنتے تھے۔ہاں بچو :گا لے جتنا گا سکتا ہے اور کاٹ لے جتنا کاٹ سکتا ہے ۔پنڈلی سے کپڑا اٹھا کے سامنے کر دیتے تھے۔وہ لوگ کھجلانا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔مچھروں کے جب گلے بیٹھ جاتے تھے تواپنے اپنے گٹا ر اُٹھائے خود ہی تھک ہار کر چل دیتے تھے یوں جیسے پرانے زمانے کے گوئیے بھوکوں کی شادی سے ویلیں نہ ملنے سے منہ لٹکائے چل پڑتے تھے۔

اُس وقت موسیقی ریکارڈ کرنے کی سہولت میسر نہ تھی اس لئے جہاں کہیں موسیقی کی کوئی محفل منعقد ہونا ہوتی لوگ دور دراز سے موسیقی سننے کے لئے اکٹھے ہو جاتے تھے ۔دور دراز کے اس سفر کی وجہ سے صرف مقامی مچھر ہی موسیقی سیکھ پاتے تھے۔ زیادہ تر مچھر ناخواندہ ہی ہوتے تھے۔نہ سُر، نہ لے نہ تان،جو بھی گاتے بے سرا ہی گاتے تھے۔اب گھر گھر موبائل آ جانے کی وجہ سے موسیقی کی خواندگی کی شرعبہت بلند ہو گئی ہے۔

رہڑی پر سبزی بیچنے والا اونچی آواز میں صدا لگانے کی بجائے نور جہاں کے کسی گانے کے ساز کے ساتھ اپنی آواز ریکارڈ کرتا ہے، لے لے بھنڈیاں، لے لو بینگن اور اپنے موبائل پر چلاتا پھرتا ہے۔اس موسیقی سے گندی نالی کے مچھر بھی اورچھپڑ کے مچھر بھی ساز بھی سیکھ رہے ہوتے اور آواز کے اُتار چڑھاؤ سے بھی آگاہ ہو رہے ہوتے ۔پہلے زمانے کے مچھر دن کو آرام کرتے تھے اور سرِ شام اپنے اپنے ہارمونیم گلے میں ڈالے گھر گھر پہنچ جاتے تھے۔

آج کے مچھر اوو ٹائم لگاتے ہیں، دن کو آس پاس کے موبائلوں سے موسیقی سیکھتے ہیں اور رات کو موسیقی بجاتے ہیں۔ یہ مچھر پرانے راگوں کو بھی جانتے ہیں اور نئی موسیقی سے بھی آشنا ہیں۔یہ مچھر پکے راگ بھی گا سکتے ہیں اور پاپ میوزک بھی بجا اور گا سکتے ہیں۔یہ مچھراس قدرخواندہ ہیں کہ راگ ملہار بھی گا سکتے ہیں اور راگ مالکوس بھی۔محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ کے مہینے میں بارشوں کے سلسلے کی وجہ مچھروں کا راگ ملہارے سے خواندہ ہونا ہے۔

قوی امکان ہے کہ ان کے مسلسل راگ ملہار گانے کی وجہ سے موسم بہار بھی موسم برسات بن گیا ہے اور یہ جا بجا گاتے پھر رہے ہیں شادمانی ہو شادمانی۔یہ مچھر نوجوانوں کے موبائلوں سے پاپ موزک سن سن کرخود بھی پاپ گلوگار بن گئے ہیں۔اگرچہ نہ تو ان کے کان میں بالی ہے اور نہ فرنچ داڑھی لیکن سب ایکٹنگ پاپ گلوکاروں والی ہوتی ہے۔لاکھ تالیوں بجاتے رہو کہ اچھی موسیقی اچھی موسیقی ہے اب بس بھی کرو لیکن ایک تان ختم ہونے سے پہلے دوسری شروع کر لیتے ہیں۔

جس طرح پاپ میوزک کے گلوکارسننے والے اچھے بھلے شریف شہریوں کو اپنے ساتھ ناچنے گانے کے لئے سیٹ سے اٹھا لیتے ہیں اور چار بچوں اور بیوی کے سامنے نچوا لیتے ہیں بلکہ اسی طرح یہ بھلے مانس بندے کو بھی تالیاں بجانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اِدھر اُدھر کودتے نہ جانے بندہ کیا کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ایک کی دھن پر تالی بجائیں تو درباروں کے بھکارویوں کی طرح دوسرے بھی اکٹھے ہوتے جاتے ہیں اور اگر کبھی کسی کی دھن پر تالی بجانے کی ذرا سے قضائی ہو جائے تو کاٹنا شروع ہو جاتے ہیں بداخلاق کے بداخلاق،جاہل کے جاہل۔

نہ جانے یہ کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں نہ یہ خوش اخلاقی سے باز آتے ہیں نہ بد اخلاقی سے۔زہر بھی یوں کھاتے ہیں جیسے سلاد کھا رہے ہوں۔حکومت سے التجا ہے کہ ان دہشت گروں کی دہشت گردی سے بھی نجات دلائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :