ارتکازِ توجہ

جمعرات 8 جنوری 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

میں ایک ایسی بات نہ بتاؤں کہ جس سے آپ کے دماغ سے پریشانیاں پھرُ کر کے اُڑ جائیں۔ٹھہرئیے :پہلے یہ عہد کیجئے کہ میں جس ذہنی مشق کے بارے میں بتانے چلا ہوں اُس سے پہلو تہی نہیں کرنا۔ہاں تو وہ ذہنی مشق جو آدھی پریشانیوں کو دور کر دیتی ہے وہ ہے ارتکازِ توجہ کی مشق۔ اپنی توجہ کو آوارہ بھٹکنے سے روک لیجئے۔توجہ کو نکیل ڈال لیجئے۔توجہ کومرتکزکر لیجئے ۔

یکسوئی پیدا کرنے کے لئے اُس حد تک جائیے جہاں تک جا سکتے ہیں۔یہ بجا کہ ذہن کو آوارہ خیالی سے بچانااڑیل گھوڑے پر سوار ہونا ہوتا ہے لیکن یہ سواری جری مردکرتے ہیں۔وہ جری مرد بنئے اور انعامات پائے۔اس عمل کی بدولت آدھے سے زیادہ پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں اور مسلے حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔توجہ کا ارتکاز ایسے ہی ہے جیسے میگزین میں کارتوس ڈال کر سٹرائیگر دبا دیا جائے اور گولی نشانے پر جا لگے۔

(جاری ہے)

خرابی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے سارے کام نیم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں۔ہم کر کچھ اور رہے ہوتے ہیں اور سوچ کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔ہم بازار میں دوکان سے سودا خرید رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ذہن میں دفتر کی گم شدہ فائل گھوم رہی ہوتی ہے۔دوکاندار پوچھتا ہے کہ صاحب چینی پانچ کلو یا دس کلو تو ہمارا جواب ہوتا ہے یہ تو میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں مل ہی نہیں رہی۔

دوست راستے میں کہتا ہے کیا حال ہیں، ہم خربوزے خریدنے کے بارے میں سوچتے جا رہے ہوتے ہیں ،تو ہم ہڑ بڑا کر کہتے ہیں وہ تو ابھی تک میں نے خریدے ہی نہیں۔ایک وقت میں ایک مسلے کے بارے میں نہ سوچنے سے ہم گفتگو میں دوسروں کا مزاق بن جاتے ہیں۔ہم ایسا جواب دے بیٹھتے ہیں جس سے دوسر ا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔
مسلے کو چلتے پھرتے اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرنا اورنیم بیداری کے عالم میں سوچتے رہنا مسلے کو الجھاتا ہے۔

غورو فکرکا یہ طریقہ ہرگز درست نہیں ہوتا۔ اس طرح سے مسلے کے کئی پہلو سامنے ہی نہیں آتے۔ کوئی ایک پہلو ذہن میں اٹکا ہو اہوتا ہے اور کولہو کے بیل کی طرح ذہن اسی کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔اس صورتحال میں ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں تو سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں لیکن مسلے کا کوئی حل نہیں مل رہا۔ اس طرح سے ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے اورہم اس کے پیچھے پیچھے بھٹک رہے ہوتے ہیں ۔

ذہن کی لگام اپنے ہاتھ میں ہو نا چاہیے۔ جب سوچیں ٹھہر کر سوچیں۔پہلے سے ذہن بنالیں کہ اب میں اپنے مسلے پر سوچنے لگا ہوں۔اگر مسلے کا حل نکل آئے تو بھی اٹھنے سے پہلے مسلے کو ذہن سے اتار دیں اور اگر حل نہ نکلے اور دوسری نشت میں سوچنے کی ضرورت ہو تو بھی مسلے کو ذہن سے اتار دیں۔ مسلہ پیچیدہ نہیں ہوتا ہم نیم بیداری سے سوچنے سے اسے پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔

یکسوئی اور قوتِ مشاہدہ سے پیچیدہ مسلے بھی حل ہو جاتے ہیں۔
بھٹکتے ہوئے خیالات کو قابو میں لانے کے لئے کچھ مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم روزانہ دفتر جاتے ہیں لیکن اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ راستے میں آپ کیا کیا دیکھتے ہیں تو صرف چند چیزیں ہی بتا کر خاموش ہو جائیں گے حالانکہ راستے میں کتنی ہی چیزیں پڑتی ہوں گی۔مثلاَ راستے میں فروٹ والوں کے کھانچے ہوں گے۔

کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں ہوں گی۔ دوسرے دن غور کرنے سے کچھ اورچیزیں ایسی دکھائی دیں گی جو بڑی مدت سے وہاں موجودتوہوں گی مگر نیم بیداری اوربے خیالی کی حالت میں گزر جانے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔ قوتِ مشاہدہ بڑے کام کی چیز ہے اور یہ پروان چڑھانے سے پروان چڑھتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن قابو میں آجاتا ہے۔

ایک مسلے میں ذہن کو ہر وقت الجھائے رکھنے کی وجہ سے ہم کڑھتے رہنے کی عادت کے غلام بن گئے ہیں۔ اس عادت کی وجہ سے ہمارے ا ندر تلخیاں بھر گئی ہیں۔ یکسوئی اور قوتِ مشاہدہ کی مشق سے ہم اپنے آپ کو ان تلخیوں سے بچاسکتے ہیں۔
نماز یکسوئی پیدا کرتی ہے لیکن ہم نماز ایسے پڑھتے ہیں جیسے روزانہ کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ہمارا دھیان کہیں اور ہوتا ہے ، ذہن کہیں اور بھٹک رہا ہوتا ہے اور ہم مشین کی طرح نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔

اگر ہم نماز بھی عادت پوری کرنے کے انداز میں پڑھیں تو اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے نہ دینی نہ دنیاوی۔ خدا ایسی نماز قبول نہیں کرتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ خدا کو اپنے سامنے موجود محسوس کریں۔ توجہ خدا کی ذات اور صفات پر مرکوزہو۔جب ہم کہیں کہ خدا سب سے بڑا ہے تو دریاؤں کی مخلوق، جنگلوں کی مخلوق اور آسمانوں پر اڑنے والے پرندے ہماری نظر کے سامنے گھوم جائیں کہ وہ ان سب کا خالق و مالک ہے۔

الفاظ کے ساتھ مراقبہ کے ذریعے ایک فلم بنا رکھی ہو جو الفاظ کہنے کے ساتھ ہی چل پڑے۔ جب ہم کہیں کہ ہم تیری ہی تعریف کرتے ہیں تو وہ وجوہات ذہن میں لائیں جو اُس کے لئے قابلِ تعریف ہیں۔نماز کے بعد دعا بھی اس یقین کے ساتھ مانگیں کہ جو آپ مانگ رہے ہیں وہ آپ کو مل رہا ہے۔اگر آپ پانچ وقت اپنے بھٹکتے ہوئے ذہن کو عبادت اور خدا پر مرکوز کر لیں گے تو آپ کا ذہن ڈسپلن میں آ جائے گا ۔

آپ اس کے تابع نہیں رہیں گے بلکہ یہ آپ کے تابع ہو جائے گا۔ آپ تلخیوں سے محفوظ رہیں گے۔
صبح سے لے کر رات سونے تک کے کاموں اور تفریح کے اوقات کی پلاننگ کریں۔اپنے وقت کو مینج کریں اور اس کی سختی سے پانبدی کریں۔ اپنے خیالات میں باقاعدگی اور ڈسپلن پیدا کریں۔ اپنے مسائل تفکرات اور پریشانیوں کی فہرست بنائیں اور ہر پہلو کا تجزیہ کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :