پاکستان!خوشحالی کا راستہ

منگل 29 دسمبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

پاکستانی میڈیا کے لئے پچیس دسمبر کا دن بہت پرسکون تھا اور بہت سے صحافی چھٹی کے موڈ میں تھے لیکن دوپہر کے وقت بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کے ایک ٹوئٹ نے نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ دنیا بھر کے میڈیا میں ایک ایسا بھونچال پید ا کردیا کہ رات گئے تک دنیا بھرکے ٹیلی ویژن چینلز کی سکرینز ارتعاش میں رہیں گو یہ ارتعاش اب کچھ کم ہو چکا ہے لیکن آنے والے کچھ دنوں تک اس کے اثرات باقی رہیں گے ۔

دراصل حیرانی تھی ہی غیر معمولی کیونکہ نریندر مودی جب سے دلی کے تخت پر براجمان ہوئے ہیں انہوں نے پاکستان کے بارے میں خیر کاایک کلمہ نہیں بولاتھا۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران نریندر مودی نے مخالفانہ بیانات کے آتش فشاں اگلنے سے لے کر سرحدی خلاف ورزیوں تک بہت سے پینترے بدل کر دیکھ لئے۔

(جاری ہے)

عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بے پناہ پروپیگنڈے اور دہشتگردی کے الزامات بھی لگا ئے لیکن کچھ بن نہ پڑا۔

لیکن پاکستان کی طرف سے امن کے لئے پیش کئے گئے چار نکاتی ایجنڈے اور بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو دینے کی حکمت عملی کامیاب رہی ۔شائد مودی کا حالات کا ادراک ہوگیا اور یہ احساس ہوا کہ اس سودے میں "شائننگ انڈیا " کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے تو پھر یوٹرن لے لیا۔ویسے توعالمی برادری بھی اس بات کو سمجھ رہی تھی کہ باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لئے مذاکرات سے بھاگنے کی پالیسی اپنا کر بھارت خطے میں عدم استحکام پید ا کررہا ہے ۔

لیکن اس بات کا کھل کر اظہار اس لئے نہیں کیا گیا کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اور امریکہ ،برطانیہ سمیت بہت سے ملکوں کے مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان حالات میں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کابل سے نکل کردلی روانہ ہونے سے پہلے ٹوئٹر پر پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ظاہر ہے ا س سے پہلے وزیراعظم محمد نواز شریف سے رابطہ کیا ۔

دونوں ملکوں کے ماضی قریب کے تعلقات اور پھر ستر سالہ تاریخ کے تناظر میں بے شک یہ ایک بڑا فیصلہ تھا اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی بجا طورپرایک ریاست دان کا سا رویہ اپنایا۔پروٹوکول کی تمام تر پابندیاں توڑتے ہوئے مودی جب لاہور پہنچے تو بوزیر اعظم نواز شریف نے بھی خیر سگالی کے اس جذبے کا ایک قدم آگے بڑھ کر جواب دیا اور خود نہ صرف ہوائی اڈے پر مودی کو خوش آمدید کہا بلکہ رخصت کرنے بھی ہوائی اڈے پر آئے۔

انسان بنیادی طور پر عزت کا بھوکا ہے اسی لئے نریندر مودی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے عزت افزائی ان کو یاد رہے گی۔ مودی کا یہ دورہ بلاشبہ حیران کن لیکن خوشگوار تھا۔ چین جو خطے کا ایک اہم اور طاقتور ملک ہے اس نے بھی مودی کے دورہ پاکستان کوخوش آئند قراردیا ہے اور دنیا بھر میں نریندر مودی کے بدورہ پاکستان باوروزیراعظم نواز شریف کی طرف سے مثبت ردعمل کی تحسین کی جارہی ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ دورہ اتنا اچانک تھا کہ پاکستان میں حکومت کے سیاسی مخالفین کو اس پر کھل کر تنقید کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں اس معاملے پر ہر کوئی حکومت کے ساتھ ہے ۔
جماعت اسلامی کے لاہور میں مظاہرے،تحریک انصاف کی طرف سے لاہور میں جندل کی موجودگی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی طرف سے بعض خدشات کے ساتھ ساتھ نقار خانے میں لال حویلی کی طوطی بھی بولی ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ شکوک اور دلائل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ مودی کا یہ دورہ کوئی بڑا بریک تھرو بالکل نہیں ، بلکہ باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کی ایک اچھی ابتدا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دورے کو تعمیر ی اور نتیجہ خیز تب ہی کہا جاسکے گا جب دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت آگے بڑھے گی اور تنازعات کے حل کی کوئی راہ نکلے گی،نہ صرف راہ نکلے گی بلکہ دونوں ملک اس راہ پر عملی طور پر گامزن بھی ہوں گے۔

میرے خیال میں پندرہ جنوری کو اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کم از کم یہ طے کر دیں گے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل کی تلاش کی گاڑی درست سمت جارہی ہے یاایک گول چکر میں گھوم رہی ہے اور پھردوہزار سولہ میں ہی سارک سربراہ کانفرنس دونوں وزراء اعظم کے لئے آگے بڑھنے کا ایک اچھا موقع ہے کہ وہ دنیا بھر کے میڈیا کو ایک بار پھر خوشگوار حیر ت میں مبتلا کردیں ۔

بہتر تو یہ ہوگا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی میں ہونے والے مذاکرات کو ٹھیک اسی نکتے سے اسی راستے پر آگے بڑھائیں جہاں سے ایک کمانڈو نے راستہ کاٹا تھا۔تاریخ کا جبر دیکھیں کہ خطے میں امن کی کوششوں کو تباہ کرنے والے آمر کو خود واجپائی کے سامنے جا کر ہاتھ ملانا پڑا تھا لیکن یہ پاکستان کی جمہوری حکومت کی پالیسیاں تھیں کہ بھارت کے انتہاپسند مودی کو خود وزیراعظم محمد نواز شریف سے نہ صرف آگے بڑھ کر ہاتھ ملانا پڑا بلکہ خود چل کر اسی لاہور میں آنا پڑا جہاں پر وزیراعظم محمد نواز شریف اوراٹل بہاری واجپائی نے دونوں ملکوں کے درمیان مستقل امن کی بنیاد رکھی تھی ۔

حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اب بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے عوام کی بدحالی کو خوشحالی میں بدلنے کے لئے ایک واضح لائحہ عمل تیار کریں اور اپنے عوام کی ذہن سازی کے بعد اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی صاحب پاکستان آنے سے چند گھنٹے پہلے بھی کابل میں پاکستان کے خلاف بآگ اگل رہے تھے اور یہ چیز نظر انداز کرنے کے قابل بہرحال نہیں ۔

لیکن ملکوں کے معاملات اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ ایک دوبیانات یا دوروں سے سمجھ میں آجائیں، اصل بات یہ ہے کہ مودی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے اور باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے مستقبل میں کیا اقدامات کرتے ہیں۔مودی نے برسر اقتدار آنے بسے پہلے بھارت کی معیشت کو بہتر کرنے اور بیروزگاری کے خاتمے جیسے وعدے کئے تھے۔ لیکن ڈیڑھ برس ضائع کرنے کے بعد ان کو سمجھ آئی کہ اگر بھارت کو افغانستان کے آسان راستے سے مشرق وسطی کی وسیع مارکیٹ تک پہنچنا ہے یا ترکمانستان سے آنے والی سستی گیس خریدنی ہے تو پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،گویا خطے میں خوشحالی کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے ۔

اب وہ دور نہیں رہے کہ آپ کسی چھوٹے ملک کو اپنے اسلحے کے زور پر دھمکا سکیں اور پاکستان تو خاص طور پر اس دھمکی میں آنے والا نہیں۔ عالمی برادری بھی اس خطرے کو اچھی طرح بھانپ چکی ہے کہ چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے ہمسائے میں بدو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کے لئے خطرناک ہے خاص طور پر موجودہ حالات میں جب پاکستان ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے اور بھارت باجود تلملاہٹ کے نہ تو گوادر کی بندرگاہ کا منصوبہ روک سکتاہے اور نہ بہی اقتصادی راہداری کا کوئی توڑ اس کے پاس موجود ہے۔

اب یہ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ قدرت نے اس کو جغرافیہ ہی ایسا دیا ہے اور اگر اس کے حکمران اگر اپنی جغرافیائی حیثیت کو ہی اچھے طریقے سے استعما ل کر سکیں تو پاکستان کی معیشت میں اچھی خاصی بہتری آسکتی ہے۔ بھارت دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے اور بپاکستان کے زمینی راستے سے گزر کر افغانستان اور پھر اس سے بھی آگے بوسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچنا بھارت کا ایک دیرینہ خواب ہے اور یہ خواب پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی صورت میں کبھی بھی حقیقت کاروپ نہیں دھار سکتااور اگر اس خواب میں حقیقت کے رنگ بھرنے کے لئے بھارت نے سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو بی جے پی کو بھارت میں آئندہ انتخابات میں ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ پھر دہائیوں تک کانگریس ایک بار پھر دلی کے تخت پر قابض ہوجائے گی۔

تاہم اب پاکستان اور بھارت کے تعلقات صرف دونوں ملکوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اس میں بافغانستان اور وسط ایشیا کے ببہت سے ملک ببھی شامل ہو چکے ہیں۔ بھارت کے لئے یہ ایسا وقت ہے کہ وہ دنیا کے اہم ملکوں کے ایک دھڑے کے ساتھ تعلقات کو پاکستان کے ساتھ بگاڑ کر ،داوٴ پر لگانے کی پالیسی ترک کرے اور پاکستان کے ساتھ اپنے تمام تر تنازعات کو حل کرے۔


مودی کے اس اچانک دورہ پاکستان کا روٹ بھی ایک بہترین استعارہ ہے روس سے کابل اور پھر لاہور۔میرا یہ ماننا ہے کہ ماسکو، دلی ، اسلام آباد اور بیجنگ اگر دوستوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیں تو اس خطے میں خوشحالی کا ایک ایسا دور شروع ہوگا کہ جو دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ دے گا۔اور پھر دونوں ملکوں میں دوستی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بھارت کی تقریباََ بیس لاکھ اورپاکستان کی سات لاکھ سے زیادہ فوج پر ہونے والے بھاری اخراجات دونوں ملکوں کے غریب عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ ہوسکیں گے ۔


چلتے چلتے میں اس خدشے کا اظہار کرنے پر بھی مجبور ہوں کہ پاکستان میں کچھ لوگ ایک بار پھر مودی کے دورہ لاہور کے تناظر میں پاکستان کی حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے لیکن مجھے قوی امید ہے کہ پاکستانی ادارے اتنے سمجھدار ہوچکے ہیں کہ اب یہ خدشات ان کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :