کائناتی قانون

اتوار 13 دسمبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم


مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں بسے خوبصورت اسلام آبادکو بارش کے خدائی فوارے نے ایسے دھویا ہے کہ ہر بوٹے کا پتہ پتہ نکھر گیا ہے ۔ ٹھنڈی ہوا انسان کو گرم لحاف میں دھکیلتی ہے لیکن قدرت کی خوبصورتی کا مزہ لینے والے ایسے موسم میں باغوں ،سڑکوں اور پہاڑ وں کے دامن میں بکھرے حسن کے مزے لیتے ہیں ۔ فضا میں رچی بارش کی خوشبو کی اگر کوئی قیمت ہوتی تو شائد دنیا کا امیر ترین انسان اپنے سارے اثاثے لٹا کر بھی یہ مہک نہ خرید پاتالیکن خالق کائنات نے ایسی بے شمار نعمتیں انسان کو بے مول عطا کرر کھی ہیں لیکن انسان ان کا شکر نہیں بجا لاتا۔

بارش نے ایک بار پھراسلام آباد کووہ دوشیز گی عطا کی ہے جیسے کسی کنواری کا بدن شفاف ندی میں نہانے کے بعد مہک اٹھے۔ایسے میں کوئی پاکستان اوربھارت کے درمیان پیچیدہ اور کشیدہ ماحول کو بہتر بنانے کی بے ثمرکوششوں،ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی باز گزشت ، مودی عمران ملاقات اور اس جیسی خون کا دباوٴ بڑھانے والی خبروں میں کب تک سرکھپائے ۔

(جاری ہے)

شام کی دھوپ میں تمازت ختم ہوئی تو میں ٹیرس سے اٹھ کر اندر آیااور بیڈ روم کا دروازہ بندکرلیا۔

سائیڈ ٹیبل پر نظر ڈالی ،دور حاضر کے عظیم روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب ” احسان وتصوف “ اٹھائی اور لحاف میں گھس گیا۔ اوراق پر نظر ڈالیں تو پہلی نظر میں شائد ایک غیر دلچسپ مضمون لگے لیکن تھوڑی کوشش سے مطالعہ جاری رکھیں تو ذہن میں بہت سے نئے در، وا ہوتے ہیں اور انسان کو اپنی کم مائیگی اور ناشکری کا احساس ہوتا ہے ، اور پھر انسان اپنے خالق کے آگے جھکتا چلا جاتا ہے کہ جس کے ہاں اس کی مخلوق کی حیثیت اس کے کنبے کی سی ہے ۔

اور وہ اپنے خاندان کو ہر وقت امن اور خوشحالی میں دیکھنا چاہتا ہے لیکن برا ہو ہوس کا کہ انسان نے اس زمین کو جنت کا ٹکڑا بنانے کی بجائے اپنے سفلی جذبے کے تحت دوزخ سے بھی بدتر کر دیا ہے۔
”انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی حس (احساس) کسی نہ کسی عضو کسی نہ کسی TISSUE کسی نہ کسی شریان اور رگ پٹھوں سے متعلق ہے ۔ دو کھرب سیلز یا خلیوں میں سے ایک بھی خلیہ متاثر ہوجائے تو انسانی جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور مختلف نالیوں سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں داخل ہوتی ہے جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دباوٴ زیادہ ہوتا ہے اور ان نالیوں کا قطر بتدریج چھوٹا ہو جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں موجود تین ملین تھیلیوں میں ہوا پہنچ جاتی ہے ۔ ہم کانوں سے سنتے ہیں،آواز کی لہریں کان میں داخل ہوتی ہیں ۔ کان کے پردے پر بالوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی گونج میں ہم معنی پہناتے ہیں ۔

اللہ تعالی ٰ کی صناعی میں انسان جس طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اور اللہ کی نشانیوں میں تفکر کرتا ہے اس پر عجائبات کی دنیا روشن ہوجاتی ہے ۔جسم کے اندر وریدوں اور شریانوں میں دوڑنے والا خون چوبیس گھنٹے میں پچھتر ہزار میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔(ذرا غور کیجئے)آدمی ایک گھنٹے میں تین میل چلتا ہے اور اگر وہ مسلسل بغیر وقفے کے چھبیس ہزار تین سو اسی گھنٹے (یعنی مسلسل تین سال سے زائد) تک چلتا رہے توتب پچھتر ہزار میل کا سفر پورا ہوگا۔

اللہ نے انسان کے ارادہ و اختیار کے بغیر جسم کو متحرک رکھنے کے لئے دل کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ پھیلنے اور سکڑنے کی صلاحیت سے سارے جسم کو اور جسم کے ایک ایک عضو کو خون فراہم کرتا رہے ۔
سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، جو عالمین میں مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے بھی وسائل فراہم کرتا ہے ۔جڑی بوٹیاں ،پھل پھول اور پودے بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔

جس طرح انسان کی پیدائش مرحلہ وار پراسس سے ہوتی ہے اسی طرح نباتات و جمادات کی حیات و ممات بھی مرحلہ وار پراسس پر قائم ہے ۔اللہ نے کائنات میں ہر شے کو جوڑے جوڑے بنایا ہے یعنی ہرشے کے دو دورخ ہیں اور ہر رخ مقداروں (خلیوں) سے مرکب ہے ۔ہر خلیہ کی بیرونی دیوار میں آکسیجن ،ہائیڈروجن اور کاربن کا عمل دخل ہے۔ہر شے کی بنیاد پانی ہے ،پانی پر ہی تخلیق کا دارومدار ہے۔

پانی نہ ہو تو زمین بے آب و گیاہ بنجر بن جاتی ہے۔ انسان ،جنات،پودوں،درختوں اور دوسری تمام مخلوقات کی نشو ونما کے لئے نمی،ہوا اور گرمی کا ہونا ضروری ہے۔ فاسفورس،پوٹاشیم اور نائٹروجن نہ ہو تب بھی نشوونما نہیں ہوگی اور یہ سب چیزیں قدرت نے پانی میں جمع کردی ہیں۔درختوں میں اگر پتے نہ ہوں تو درختوں کی زندگی مخدوش ہوجاتی ہے۔ ہر پتے میں رگیں ہوتی ہیں،مسامات ہوتے ہیں،ان مسامات میں کاربن خون کی طرح دوڑتا ہے اور یہی مسامات آکسیجن کو باہر نکالتے ہیں۔


” اور تمام جاندارچیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ پھریہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے “۔ القرآن “
پیارے قارئین !اگر آپ اوپر لکھی گئی سطور پر غور کریں تو آپ پر منکشف ہوگاکہ نظام کائنا ت کی ہر شے میں ایک قدر مشترک ہے ۔ اور وہ قدر مشترک یہ ہے کہ ہر شے دوسری شے سے ایک مخفی رشتے میں بندھی ہوئی ہے ۔اور یہ خفیہ رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اس رشتے سے انکار کر سکتا ہے نہ اس کو توڑ سکتا ہے ۔

جب تک کائنات کی کوئی شے کسی دوسری شے کے کام آرہی ہے اس کا وجود باتی رہتا ہے ورنہ وہ چیز صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔خالق کائنات کا قانون ہے کہ ”اگر تم نے کائناتی نظام سے منہ موڑلیا تو یہ زمین کسی ا ور کے قبضے میں دے دی جائے گی۔“
اس آیت تک پہنچا ہوں توخیال کاا یک ایسا کوند ا ذہن میں لپکاہے جس نے ذہن کو بہت گہرائی میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔

”کائناتی نظام سے منہ موڑنے والوں کی زمین (ملک) کسی اور کے قبضے میں دے دی جائے گی“۔جی ہاں کائنات کا نظام یہ ہے کہ اس کی ہر شے دوسری سے رشتے میں جڑی ہے ۔ ہر ایک کا کسی دوسری شے پر کسی دوسری مخلوق پر انحصار ہے خود انسان اس زمین سے پیدا ہونے والے اناج کے بغیر ایک دن نہیں گزار سکتا اور پھر انسانوں کا انسانوں سے اور ملکوں کا ملکوں سے تعلق اور ایک دوسرے پر انحصار تو اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

ذرا غور کیجئے قرآن کی آیت اور ایک درویش کے الفاظ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ بالکل اسی طرح پاکستان اور بھارت ستر برس سے ایک دوسرے پر انحصار کے کائناتی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ باہمی تنازعات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی بجائے سات دہائیوں سے سر پھٹول جاری ہے اور ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوپایا۔اب ذرا عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں !شام،عراق،افغانستان،مصر اور یمن میں لگی آگ کہیں بھجتی نظر نہیں آرہی بلکہ یہ اور آگے بڑھے گی ۔

عالمی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں کی جس طرح آپس میں بندر بانٹ کی تھی و ہ اب تاریخ کا حصہ ہے ۔آج ایک بار پھر کرہ ارض کے حالات شائد اس سے بھی برے ہیں جیسے جنگ عظیم دوم سے پہلے تھے۔لیکن بھارت تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے موڈ میں نہیں وہ سمجھتا ہے کہ اپنے بڑے رقبے،بہتر معاشی حالت اور بڑی فوجی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کو زیردست کر لے گا لیکن بہت سے مسائل اور کمزوریوں کے باوجود پاکستان جس حیثیت کا قابلیت کا حامل ہے بھارت اس کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ۔

مختصر یہ کہ دونوں ملکوں کی بقا اور خوشحالی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ مل بیٹھ کر باہمی تنازعات کو حل کریں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تومیرے خیال میں فوجی ،سفارتی ،معاشی اور دوسرے محاذوں پر جو جنگ اس وقت دنیا میں لڑی جارہی ہے اس میں امریکہ اور روس کے بعد چین بھی اپنا حصہ وصول کرے گا اور امریکی حصے میں شائد اور کچھ ملکوں کا حصہ بھی شامل ہولیکن بھارت کاسپر پاور بننے کاخواب جس طرح چکنا چور ہوگا وہ سوچ کر ہی ہول آتے ہیں ۔ اس ساری خرابی میں پاکستان کا بھی کوئی فائد ہ نہیں لیکن بہرحال جو نقصان بھارت کا ہوگا وہ پاکستان کے نقصان سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اورقانون قدرت کے تحت ”زمین کسی اور کے قبضے میں دے دی جائے گی “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :