علماء و شیوخ اور ابنِ آدم

پیر 6 اکتوبر 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے،جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
میرا کچھ بھی لکھنے کا مطلب کسی کی بھی دل آزاری ہر گز نہیں ہے بلکہ ان مفروضات سے پردہ اٹھانا ہے جو باعثِ کشت و خون ہیں۔شروعات ہی میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گاکہ ہم آجکل عجیب و غریب مباحثوں میں گھرے پڑے ہیں یہ بحثیں اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں لیکن ان بحثوں سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل روزمرہ زندگی کے کئی ایسے کام ہیں جنہیں ہم معمولی جان کر چھوڑتے جا رہے ہیں اور دن بہ دن راہِ خدا سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔


کسی نے کہا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نور ہیں تو کسی نے اختلافِ رائے میں کہا کہ ایسا بلکل نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺتو عام انسانوں کی طرح بشر ہیں۔

(جاری ہے)

ابھی کچھ قدم ہی آگے بڑھا تو سننے کو ملا خلافت کی بانٹ مرضی سے ہوئی، حق دار خلیفہ کو اس کا حق ہی نہیں ملا ۔ یہاں بھی اختلافِ رائے کرنے والے سرگرم ہو گئے۔ ابھی یہ بحث ختم ہونے کو نہیں آئی کہ ایک گروہ کی آواز آئی کہ پنجتن پاک ( حضرت محمد، حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن ، حضرت حسین  )معصوم ہیں اور اختلافِ رائے میں سننے کو ملا کہ معصوم تو صرف نبی  ہوتے ہیں۔


بحث برائے بحث کا سلسلہ جاری تھا کہ کچھ صاحبان نے قرآنِ پاک (کلام اللہ) کے تراجم میں بھی بحث کرنے سے گریز نہ کیاکسی نے کہا کہ قرانِ کریم میں لکھا نماز قائم کرو تو قائم کرنے کا مقصد پڑھنا نہیں ہوتا ، تو کسی نے مزید فرمایا کہ نماز نہ پڑھنے کی قرآنِ مجید میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ، اسی لیئے پڑھو تو باعث ثواب اور اگر نہ پڑھو تو کوئی حرج نہیں۔

ایک میاں جی کہنے لگے نماز صرف فرائض پہ مشتمل ہے اور دوسرے نے کہا اگر سنت و نوافل ادا نہ کیئے جائیں تو نماز ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
میں خاموشی سے تمام باتیں سنتا رہا لیکن یہ تمام مسائل ایک نشست میں نہیں بلکہ گاہے بگاہے سننے کو ملے، ابھی مندرجہ بالا باتوں کے جوابات یا متفق رائے سننے کو نہیں ملے کہ کچھ اہلِ عقل و علم نے معصوم ابنِ آدم کو مزید الجھا دیا ۔

اک معلم بولے!!! حضرت عیسیٰ  دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں تو دوسرے نے جھٹ سے اپنا نقطئہ نظر بیان کیا نہیں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ احادیث نبوی سے واضع ہے کہ آپ  حکمت خدا وندی کے تحت زندہ اٹھائے گئے تھے اور اللہ کی مرضی سے روئے زمین پر واپس آئیں گے۔کسی نے کہا کہ کسی بھی نبی  کا دنیا میں واپس آنا کوئی آسان بات نہیں ہیں اور دوسرے نے کہا کہ اللہ عزوجل کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے۔


باتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا بحث و مباحثے چلتے رہے نتیجہ آج تک نہ ملااور یہ مباحثے صرف اور صرف بحث برائے بحث تک ہی محدود رہے ، کسی بھی سوال کے جواب پہ کوئی گروہ متفق نہ ہوا البتہ انہی سوالوں کے پیشِ نظر قتل و غارت کا میدان ہمیشہ گرم رہا اور بھائی، بھائی کا دشمن بن بیٹھا اورایسا کیسے نہ ہوتا ؟ یہ مباحثے گلی ، محلوں کے باسی نہیں کر رہے بلکہ ہمارے جیّد علماء کرام ، معلم، بزرگانِ دین، اور شیوخ کر رہے ہیں اور سب سے اہم بات تو یہ ہیں کہ یہ مباحثے آمنے سامنے نہیں بلکہ اپنے ، اپنے گروہوں ، مساجد، اور تعلیمی اداروں میں ہو رہے ہیں اور نہائت افسوس کی بات تو یہ ہے کہ معلم حضرات کسی مخالف عالم کا سامنا کرنے کی بجائے فرقہ واریت کو ہی ہوا دیتے رہے ہیں ۔

انکی سوچیں مل بیٹھ کر پیار و محبت اور بھائی چارگی کے ساتھ مسائل کا حل نکالنے سے قاصر ہیں کہ کہیں آئے دن قتل و غارت اور دیگر گناہوں کے راہ بند نہ ہو جائیں کیونکہ ان نام نہاد علمائے دین کا یقین اللہ سبحانہ تعالیٰ پہ نہیں اگر ان کا اعتقاد مالکِ حقیقی پہ ہوتا تو یہ بجائے مسائل پیدا کرنے کے مسائل کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے۔


حالانکہ انٹر نیشنل علماء کونسل ، آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن اور ختم نبوت کانفرنس کا قیام مسلم ممالک کے حقوق اور آپسی فرقہ وارانہ فسادات کو مکمل حد تک ختم کروانے کی خاطر کیا گیا لیکن بد قسمتی سے آج تک کوئی خاطر خواہ کامیابی دیکھنے کو نہیں ملی اور قتل و غارت کا بازار جوں کا توں گرم رہا۔
اب دیکھتے ہیں تصویر کا دوسرا رخ!!!
یہ جیالے، یہ نام نہاد پیروکار اور عقیدت مندجو اپنے اہل و عیال اور گھر بار سے مخلص ہیں یا نہیں لیکن ہمارے علماء اور بزرگان کے ایک اشارے پہ جان قربان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیوں ایسا کیوں؟؟؟ آپ کے والدین ، بہن بھائی، بیوی اور بچے اگر موت کے دہانے پہ بھی ہوں تو آپ اپنے اعلیٰ حضرات کے پاؤں دھو دھو کر پی رہے ہوتے ہیں یہ محبت و عقیدت نہیں بلکہ جاہلیت کی مثالیں ہیں۔
کیا یہ وارثِ قرآن و حدیث ہیں؟؟؟ کیا صرف ان چند لوگوں کے اعمال قرآن و سنت کے مطابق ہیں؟؟؟ کیا یہ مخصوص لوگ ہی پاکباز اور عقل و شعور کے پیکر ہیں؟؟؟
نہیں میاں ایسا نہیں ، ایسا بلکل نہیں ہے۔

ہم کو خدی سوچنا ہو گا کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں؟؟؟ کیوں ہمارے گھرانوں میں مشکلات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟؟؟ کیوں ہم اپنے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کا فیصلہ بھی خود نہیں کر پاتے؟؟؟ کیوں ہم کشت و خون میں ملوث ہو گئے ہیں؟؟؟ کیوں ہم بے حس اور ہم سے برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے؟؟؟
ان سب مسائل کا جواب صرف اور صرف اتنا ہے کہ ہم سب نے رحمن کے ترتیب کردہ آسان اور آسائشوں سے بھر پور راہ کی بجائے شیطان کے بتائے غلیظ ترین راستے کا انتخاب کر لیا ہے جس کی منزل صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے۔


اتنا ذہن میں ضرور رکھنا کہ روزِ محشر ہمارے اعمال ہی ہمیں دوزخ کی بد ترین سزاؤں سے بچا کر جنت کی عمدہ ترین آسائشوں کی جانب لے جائیں گے وہاں کوئی دوسرا کسی کی مدد کے لیئے نہیں ہو گا لہذا ہم سب کو چاہیئے کہ علمِ رحمن سے استفادہ حاصل کریں اور قرآن و سنت کا خوب مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حقیقی زندگی گزارنے کا سلیقہ آ جائے۔ہمارے اخلاقیات صرف اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی کے لیئے بہتر ہو جائیں۔

کسی بھی دوسرے کے لیئے خواہ ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو دل میں بغض نہ رکھیں بلکہ پیار و محبت سے پیش آئیں۔ اپنے والدین ، بہن بھائی، رشتہ داروں، اہل علاقہ اور غریب و نادار لوگوں کی مدد کریں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ایسا کرنے سے دنیا جنت بن جائے گی لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر ہم نے معبود ِ برحق کے بتائے ہوئے راہ کا انتخاب کر لیا تونہ صرف ہم غم و افلاس سے پاک زندگی جو صرف اور صرف خوشیوں پہ منحصر ہو گی گزارنا شروع ہو جائیں گے بلکہ روزِ محشر جنت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کر لیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :