منٹو اور بھٹو (ایڈوانس معذرت کے ساتھ)

ہفتہ 7 نومبر 2015

Hussain Jan

حُسین جان

آج کل منٹو صاحب پر اتنا لکھا جا رہا ہے کہ مجھے بھٹو یاد آگئے،جو آج بھی زندہ ہیں اور اُن کے نام پر ایک نام نہاد سیاسی جماعت پانچ سال تک پاکستانیوں پر مسلط رہی، خیر جس طرح بھٹو صاحب زندہہیں اسی طرح منتو صاحب کو بھی زندہ رکھا گیا ہے۔تاکہ اُن کے نام پر این جی اوز،کلب،جماعت وغیرہ بنا کر لوگوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہر لکھنے والا آعلیٰ درجے کا لکھاری ہو، بعض دفعہ تو ایسے ایسے لکھاری بھی مشہور و معروف ہو گئے جنہوں نے کبھی خود بھی اپنا لکھا نہیں پڑھا ہو گا۔

ہمارے ایک اُستاد محترم اکثر کہا کرتے ہیں کہ بیٹا اس ملک کی بنیادوں میں خالص خون شامل ہے۔ لہذا اس کو گرنے میں بھی وقت لگے گا اور فحش نگار اس کے تقدس کو کبھی پامال نہیں کر پائیں گے۔

(جاری ہے)

شادی کی پہلی رات دُلہن کے ساتھ کیا ہونے والا ہوتا ہے یہ اُس کے غیرت مند باپ،بھائی اور دوسرئے تمام رشتہ داروں کو پتا ہوتا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص آکر اُونچی اُونچی آواز میں شور مچانا شروع کر دے کہ آج تمہاری بہن ،بیٹی رات کو اس دُلہے کے ساتھ ہم بستری کرئے گی تو میرا خیال ہے مجمے میں موجود ہر مرد و زن اُس شخص کی دھلائی کرنے پر تیار ہو جائے گا۔

جبکہ دیکھا جائے تو بات وہ درست کر رہا ہے مگر اُس کا لہجا درست نہیں الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں موقع و محل ٹھیک نہیں، اسی طرح اگر منٹو صاحب کو معاشرئے میں برائیاں نظر آتی تھیں تو وہ بہتر الفاظ میں بھی ان کا ذکر کر سکتے تھے، اللہ نے لکھنے کا فن تو دے ہی رکھا تھاکیا ہی اچھا ہوتا اگر سلیقے سے لکھتے۔ پاکستان کیا پوری دُنیا میں خواتین کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے بیان کرنا بہت ضروری ہے تاکہ لوگوں میں آگہی پیدا ہو سکے کہ اگر آج وہ کسی خاتوں کو تنگ کریں گے تو کل کو اُ ن کی خواتین کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ ہوسکتا ہے، مگر بات پھر وہی ہے کہ الفاظ کے چناؤ کو فوقیت دینی چاہیے،
لاہور میں شاہی قلعہ کے عقب میں واقع بازار حسن کا نام ہر انسان اپنی سوچ کے مطابق لیتا ہے ، کوئی اُسے ہیرا منڈی تو کوئی رنڈی بازار کہتا ہے، اگر اُس کے بارئے میں کچھ لکھنا ہے تو اس طرح لکھا جائے کے پیغام بھی پہنچ جائے اور معاشرئے کی تذلیل بھی نہ ہو۔

کتنا ہی عجیب لگتا ہے اُس اداکارہ کا ولن کے آگے عزت کی دہائی کے لیے ہاتھ جوڑنا جو ہیرو کے ساتھ ساتھ بہت سے ایکسٹرا اداکاروں کے سامنے بھی چھوٹے چھوٹے لباس پہنے جسم کو لہراتی ہے،
اس میں کوئی شک نہیں کہ منتو صاحب ایک فوش نگار تھے کبھی کبھی اُن کی تحریروں کو پڑھ کر گمان ہوتا کہ کہ شہوت و کرپشن ایک ہی چٹو کے بٹے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملکوں میں قمار خانے ہوتے ہیں، وہاں ہر وہ برائی ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر معاشرئے میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں۔اگر اُن کو بھی بیان کر دیا جائے تو کیا قباحت۔ منٹو صاحب کا انداز تحریر اچھا ہو گا۔ لیکن اُن کے دماغ میں شائد خیالات بہت زیادہ ہوتے ہوں گے جن میں سے وہ فحش خیالات کو صفہ کرتاس پر منتقل کر دیتے تھے۔ مزئے کی بات ہے اُن کے پڑھنے والے جب کبھی بھی بحث کریں گے، ٹھنڈاگوشت، کالی شلوار،بلاؤزاور اس جیسے دوسرئے افسانوں پر ہی بات کریں گے تاکہ بحث کو طول دیا جاسکے اور زیادہ سے زیادہ داد وصول سکیں،
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے معاشرئے میں موجود چند عناصر لبرل ازم کے نام پر فحاشی کو عام کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے نزدیک جب تک چیزوں کو ننگا کرکے پیش نہ کیا جائے وہ عالمی معیار کو نہیں پہنچ سکتی۔ لبرل ہونا اور بات ہے اور فحش ہونا اور بات۔ اکثر لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ منٹو صاحب ایک حقیقت پسند لکھاری تھے ۔جنہوں نے معاشرئے میں جو دیکھا وہی لکھا تو ایسے لوگوں کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ آپ کسی جوئا کھیلنے والے کو لے لیں اُس کے تمام دوست احباب جواری ہی ہوں گے۔

آپ کسی چور کو دیکھ لیں اُس کے دوستوں میں زیادہ تعداد چور وں کی ہی ہو گی۔ تو بھائی منٹو صاحب نے وہی لکھا جو خود چاہتے تھے اور جیسی اُن کی کمپنی تھی۔ سیکس اُن کی نظر میں ایک عام بات تھی۔میڈیکل سائنس بھی کہتی ہے کہ انسان نشے میں کوئی اچھا کام نہیں کرسکتا کیونکہ اُس کے حواس برقرار نہیں رہتے، اور اس کے ساتھ ساتھ شراب کے نشے کے دوران انسان کے اندر جو سب سے زیادہ خوائش اُٹھتی ہے وہ سیکس کی ہوتی ہے۔

تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ منٹو صاحب جب نشے میں ہوتے تھے تو اپنی خوائش کے اظہار کے لیے الفاظ،قلم کا استعمال کرتے تھے۔ رہی بات معاشرئے کی تو ضروری نہیں کہ ہر انسان کو وہ شہرت و عزت ملے جس کا وہ حق دار ہو۔ جنگ میں بہت سے سپاہی شہید ہو جاتے ہیں مگر اعزازات چند ایک کے حصے میں ہی آتے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے منٹوصاحب پر فلم بنانے کا تو اس میں بھی اُن کے خیالات کا پرچار کیا گیا ہے۔

معاشرئے میں بڑھتی ہوئی برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بہتر ہوتی ہے نہ کہ معاشرئے کی برائیوں کی تشہیر کی جائے۔ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنے کو ہی کمال کہتے ہیں۔ ہم لوگ مغرب کی تقلید صرف فحاشی میں کرتے ہیں ، کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ مغرب والوں نے کتنی ایجادات کی ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ لیکن نہیں ہم نے صرف کپڑئے اُن جیسے پہننے ہیں اور اُن کے فیشن کو اپنانا ہے۔

حال ہی میں قربانی کے جانوروں کے ساتھ ماڈلز کی کئی کیٹ واک کو کیا نام دیں گے۔ کیا ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی کوئی رقاصہ سانپ کے ساتھ ڈانس کرتے ضرور پائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں تو مذہب کو ہی مذاق بنا لیا گیاہے۔ جو جتنا مذہب کے خلاف بولے گا اُتنی ہی شہرت کمائے گا۔ اور شائد یہی کمال منٹو صاحب کا بھی تھا، منٹو صاحب معاشرئے کی برائیوں کو تعصب کی عینک سے دیکھا، اصلاح کی عینک سے نہیں،
منٹو ہمارے ہاں ایک فیشن کے طور پر جانا جاتا ہے ، درحقیقت اُن میں لکھاریوں والی کوئی بات نہیں تھی۔

کثرت مے نوشی نے اُن کے دماغ پر وہ اثرات چھوڑئے جوکہ ایک شرابی کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں منٹو صاحب کو وہ عزت نہیں دی گئی جس کے وہ حق دار تھے ، یہ سرا سر بہتان ہے ، پاکستان میں جتنی عزت منٹو کو ملی کم کم کے ہی حصے میں آئی، یہ الگ بات ہے کہ منٹو صاحب کو فحاشی کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتاتھا، نیا قانون جیسے افسانے بھی منٹو صاحب کا شاہکار ہے مگر ایسے افسانوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے، جب پانچ روپے کے لیے فورا کہانی لکھنی شروع کر دی جائے تو اُس میں بہت سی خامیاں بچ رہتی ہیں، ویسے بھی کہاوت ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے،بوتل کے چکر میں وہ جلدی جلدی کہانی مکمل کردیتے تھے تو خود ہی اندازہ لگائیں کیا لکھتے ہوں گے۔

ماڈرن ترکی کے بانی مصظفیٰ کمال کو ہی لے لیں، اُنہوں نے لبرازم کو پروموٹ کیاکہ اسلامی دُنیا میں بھی سراہا گیا، اگر وہ بھی مسائل کو ننگا کر کے بیٹھ رہتے تو معاشرئے میں اصلاح کیسے ہوتی۔
یہ تحرے لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ آپ اپنی پسند کو دوسرئے پر تھوپ نہیں سکتے ،ضروری نہیں کہ منٹو صاحب اگر آپ کے نزدیک بڑھے لکھاری تھے تو دوسرؤں کے نزدیک بھی ویسے ہی ہوں، اگر کسی کا دل دُکھا ہو تو معذرت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :