شاید کہ پولیس اشرافیہ کو یہ بات سمجھ آجائے

بدھ 25 جنوری 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

پولیس سسٹم میں شفافیت، تھانہ کلچر میں تبدیلی، پولیس اور عوام میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کا خاتمہ، ایک طویل عرصہ ہوتا ہے ،پولیس افسران کے ان نعروں کو سن سن کر کان درد ہو نا شروع ہو گئے ہیں۔ ہر نیا آنے والا افسر، اپنی سیٹ پکی کرنے اور حکمرانوں تک اپنی کارکردگی رپورٹ پہچانے کے لئے ہم جیسے صحافیوں کو اپنے بڑے بڑے لیکن حقیقت سے کوسوں دور دعووں کے جال میں پھنسا لیتے ہیں، اور ہم بھی اس امید پر کہ شاید ان کے دعووں میں کچھ سچائی ہو بہت کچھ لکھ ڈالتے ہیں۔

لیکن کئی سالوں میں بھی بڑے بڑے دعووں اور اربووں روپے کابجٹ ضا ئع ہونے کے علاوہ اور کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نظر نہیں آئی۔ بھلا ہوڈی۔آئی۔جی آپریشنز پولیس لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف کا جنہوں نے ذاتی طور پر پولیس کلچر میں تبدیلی کا آغاز کیا اور یہ ان کی نیک نیتی کا ہی ثبوت ہے کہ لاہور کے تھانوں میں اب تبدیلی نظر آرہی ہے ۔

(جاری ہے)


قارئین ! میرے نزدیک کسی بھی ادارے میں جب تک حقیقی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل سکتی جب تک آپ اس ادارے کے لوگوں کو عزت نہیں دیتے ۔

سابق آئی۔جی اور درویش منش شخص سردار محمد چوہدری مرحوم نے اپنی مشہور تصنیف The Ultimate Crimeمیں بھی جہاں پولیس سے متعلق عوامی تاثر اور اس کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا وہاں کی پولیس کارکردگی کو بہتر بنا نے کا مشورہ دیتے ہوئے ایک جملے میں اس کا حل بتا یا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پولیس کی کار کردگی بہتر بنا نی ہے تو اسے اعتماد دینا ہو گا اور اس کے مورال کو بلند کر نا ہو گا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے ذمہ داران پولیس سسٹم اور تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے کے بڑے دعووں کے ساتھ اربوں روپے خرچ کرنے نظر آتے ہیں لیکن اپنے کارکنان کو عزت بخشنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے والے اصوال وضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کے حقوق کو پامال کرتے نظر آتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ملازمین افسران کے غیض و غیضب کا بدلہ عام عوام سے لیتے ہی۔

ان کے مزاج میں اتنی تلخی پیدا ہو چکی ہوتی ہے کہ جس کا اظہار سڑکوں، چوراہوں اور تھانے کے اندر عام آدمی کے ساتھ روا ء رکھے جانے والا ا،ن ملازمین کا سلوک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دعوے اور اربوں روپے کے فنڈز سسٹم میں بہتری لانے کی بجائے مزید بگاڑ کا باعث بنتے ہیں اور عام عوام میں پولیس کے خلاف نفرت کا عنصر مزید تقیویت پکڑتا جا رہا ہے۔


ایسی ہی ایک خبر کچھ روز اخبارات میں پڑھنے کو ملی کہ ملتان کے چیف پولیس افسر نے کسی معاملے پر چند منٹ کی تاخیر پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہوئے دو نوجوان سب انسپکٹروں کوہتھکڑیا ں لگوا دیں۔ معاملہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ افسری رعب و دبدبہ کے نشے میں مست ہو کر بہت کچھ کہتے رہے اور بات حوالات کی سیر اور خوب تضحیک پر جا کر ختم ہوئی۔

جس کے نتیجے میں محکمہ میں جو کچھ پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں ان کی خوب دل آزاری کی گئی اور بد ظن کیا گیا۔ یاد رہے اس میں سے ذوہیب اشفاق نامی سب انسپکٹر کو انجئیرنگ میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے پر کچھ روز قبل سی ریجنل پولیس افسر ملتان نے ایوارڈ سے نوازا تھا۔
حالیہ دنوں میں آؤٹ آف ٹرن پرموشن کیس کی ز دمیں آنے والے پولیس افسران وملازمین کے ساتھ بھی پولیس کی اشرافیہ کا رویہ قابل افسوس رہا۔

محکمے اور معاشرے سے جرائم اور برائی کی بیخ کنی کرنے کے لئے دن رات ایک کر نے والے قابل ملازمین کی حق تلفی اور ان کے حالات سے کنی کترانے والے افسروں کا رویہ انتہائی شرمناک رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آؤٹ آف ٹرن پروموشن قانون کے بر عکس کی گئیں تو ذمہ دار تو ان افسران کو قرار دینا چاہئے تھا جنہوں نے ترقیوں کے پروانے جاری کئے۔ لیکن اس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے افسران کو بچا کر چھوٹے چھوٹے لوگوں کو پھنسا دیا گیا ۔

میں یہاں سابق ایس۔پی، سی۔آئی۔اے عمر ورک اور ان کی ٹیم کی بات بھی بالخصوص کروں گا کہ جنہوں نے لاہور میں جرائم کی ٹھاٹیں مارتی ہو ئی موجوں کے آگے بند باندھے رکھا ۔بطور تحقیقاتی صحافی، میں ذاتی طور پر کئی واقعات کا گواہ ہوں کہ ان کی ٹیم نے ایسے بڑے بڑے گروہوں اور بد معاشوں کو نکیل ڈال کر رکھی تھی جنہیں اگر آزاد کر دیا جاتا تو یہ پورے شہر کا سکون تبا وبر باد کرڈالتے۔

بغیر کسی سفارش اور تعلق کے جو عام آدمی ان کے پاس جاتا تو فوراََ اس کی دادرسی ہوتی۔ لیکن ایسے قابل لوگوں کو بھی ذلیل و خوار کر کے تنہائی کا مسافر بنا دیا گیا۔ ان کے گھروں میں کیا حالات ہیں کسی افسر کو اس بات کی زحمت گوارہ نہیں ہوئی کہ کم زکم ایک بار ہی اپنے ماتحتوں کا پتہ لے لیتے۔ ان لوگوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک عام سپاہی بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ، شدید محنت اور لگن کا اگر یہی نتیجہ ہے تو پھر خاموش ہو کر صرف اپنی ڈیوٹی ہی کی جائے۔


قارئین کرام !یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک آپ اپنے ماتحت کو عزت نہیں دیتے، اعتماد بحال نہیں کرتے اور ان کے مورال کو بلند نہیں کرتے ، جب تک اربوں کیا کھربوں روپے خرچ کر نے اور سیکڑوں پروجیکٹس شروع کر نے سے بھی نظام کی تبدیلی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ فرق اسی صورت میں پڑ سکتا ہے جب آپ اپنے ماتحتوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں ، ان کی عزت کریں اور ان کا اعتماد بحال کریں۔ شاید کہ پولیس کی اشرافیہ کو یہ بات سمجھ آجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :