صحت کا شعبہ شریف خاندان کی راہ تک رہا ہے

بدھ 27 ستمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میرے نزدیک ماں، بہن اور بیٹی کا رشتہ انتہائی تقدس کا حامل ہو تا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اب بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کو اپنا جیسا سمجھتے ہوئے ان کی عزت کرتے ہیں ، ان کا احترام کرتے ہیں اور تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔این۔اے 120کے ضمنی الیکشن میں کچھ ایسا ہی معاملہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کے ساتھ دیکھنے کو ملا جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ کلثوم نواز کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں تو انہوں نے پانامہ و اقامہ کیس اور اس کے نتیجے میں شریف فیملی کے خلاف ہونے والی سازشوں کے باوجود بھی انہیں کامیاب کرایا بلکہ الیکشن کمپین کے لئے محتاط لیکن پر زور طریقے سے مریم نواز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اہلیان 120نے انہیں ایسے عزت و اکرام سے نوازا جیسے اپنی بیٹی کو دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان کی امید و آس کو ٹوٹنے نہ دیا بلکہ امید سے کئی زیادہ ووٹوں سے کامیاب کرایا۔
بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی خبر جیسے شریف خاندان کے لئے اذیت اور کرب کا باعث بنی ویسے ہی کئی پاکستانیوں سمیت میرے لئے بھی یہ خبر تکلیف کا باعث ٹہری ۔ کلثوم نواز کی تکلیف پورے شریف خاندان کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھی جس کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ پہلی فرصت میں لندن کے ایک مہنگے ہسپتال میں ان کا علاج شروع کرایا جائے ۔

یہی وجہ تھی کہ بیگم صاحبہ کے ساتھ میاں نواز شریف ، ان کے بیٹے اور بعد میں مریم نواز بھی لندن اپنی ماں کے پاس چلے گئے اور اپنی بیمار ماں کی تیمارداری میں مصروف عمل ہو گئے ۔ انہی ایام میں ہسپتال سے جاری ہونے والی کلثوم نوازا ور نواز شریف کی تصاویر میں غم او رکرب کے ملے جلے احساسات صاف دکھائی دے رہے تھے جبکہ الیکشن کے دوران مریم نواز کا چہرہ بھی اپنی ماں کی بیماری کے غم میں مبتلا تھا ۔


قارئین کرام !کئی سالوں پر محیط حکمرانی، طاقت و شہرت ، بے تحاشہ پیسہ اور لا تعداد وسائل کے باوجود بھی شریف خاندان کا ایک فرد کینسر کے مرض میں مبتلا ہوا تو پورا خاندان غم اوربے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ لیکن کیا کبھی شریف خاندان سمیت ہم سب نے یہ سوچا کہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارنے والے لوگ کس اذیت میں مبتلا ہیں ۔

ایک وقت کی روٹی کے لئے جنہیں صبح سے شام،تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔خستہ حال کمرہ ، جس کے درو ویوار کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں ، اس میں پورے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ضمیرشاہ اور اس جیسے لاکھوں لوگ گھر میں پڑے فاقوں سے جنگ لڑتے لڑتے خود تھک گئے ہوتے ہیں ۔ اس حالت میں جب گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے اور اس کے علاج کے لئے سر کاری ہسپتال کا رخ کیا جائے تو ڈاکٹرں سمیت نرسز اور باقی عملے کی گالیاں، دھکے، غربت کے طعنے اور ذلت وخواری کو دیکھ کر اس کی مزید ہمت بھی جواب دے جاتی ہے اور یوں وہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح بے بسی کی تصویر بنے ، اپنے رب کو حکمرانوں کے خلاف شکایت کرتا نظر آتا ہے ۔

پھر جس کے نتیجے میں وہ وقت آتا ہے جب حکمرانوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا تا ہے اور پھر انہیں کئی جاہ پناہ میسر نہیں آتی۔
قارئین کرام ! مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ جہاں پاکستان میں علاج کی سہولیات کو بہتر ہو نا چاہئے تھا ، اس شعبے میں تباہی وبر بادی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ پچھلے دنوں میں نے لاہور کے تما م سر کاری ہسپتالوں کا معائنہ کیا جہاں مریض ذلیل و خوار ہوتے دکھائی دئیے۔

سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے افسران خاص اپنے ٹھنڈے کمروں سے نکلنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے بلکہ مریضوں کے لواحقین کو اپنے دفتر کے دروازے کے باہر کئی گھنٹے ذلیل کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ پنجاب میں محکمہ صحت کے دو وزرا ء بھی صرف کاغذی کاروائی کو دیکھتے ہوئے اپنی کار کردگی پر چھلانگیں لگانے کے علاوہ اور کچھ کرتے نظر نہیں آتے ۔ جس کی وجہ سے عام مریض شدید اذیت میں مبتلا ہو کر سک سسک کر موت کے قریب ہوتا چکا جاتا ہے یا پھر سود پر رقم اٹھا کر کسی پرائیویٹ ہسپتال میں اپنا علاج کر اتا ہے اور تاحیات سود خوروں کے ہاتھوں یر غمال بنا رہتا ہے ۔

ادویات کا یہ حال ہے کہ ایف۔آئی۔اے کی رپورٹ کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسروں کی ملی بھگت سے روز بروز جس جن کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ بھارت میں جان بچانے والے جس دوا کی قیمت 1710روپے ہے یہاں وہ 2لاکھ32ہزار 8سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ شریف خاندان حالیہ دنوں میں جس طرح خود اذیت کا شکار رہا، ان غریب اور عام مریضوں کی اذیت کو سمجھتے ہوئے صرف صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کا آغاز کردیں تو کچھ بعید نہیں کہ کچھ ہی سالوں میں جس کے مثبت ثمرات برآمد نہ ہوں۔

اس کے لئے شہباز شریف سمیت مریم نواز کو بھی آگے آنا چاہئے اور کاغذی کاروائی پر سب اچھا ہے کی رپورٹ کی بجائے حقیقی معنوں میں سب اچھا بنا نے کی کوشش کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ۔ا س سے جہاں غریب مریضوں کا بھلا ہو گا وہاں آپ کو بے تحاشہ عزت دینے والے اہلیان لاہور کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہو نگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :