این۔ اے 120: دونوں سیاسی جماعتوں کو سو چنا ہوگا

منگل 19 ستمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بالآخروسائل کی بے تحاشہ بندر بانٹ، طاقت و شہرت ، حکومتی مشینری کا بے دریغ استعمال، لاتعداد افرادی قوت،زر خرید اینکروں و صحافیوں کی فوج اور مریم نواز کی انتھک محنت کے نتیجے میں این۔اے 120میں بیگم کلثوم نواز شریف تقریباََ 14ہزار ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب قرار پائیں۔ با آسانی اس حلقے سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے حکمران جماعت کے افراد کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جنرل الیکشن میں بغیر کسی محنت کے 92ہزار ووٹ حاصل کرنے پر وزیرا عظم کی کرسی پر بٹھانے والے اس حلقے سے، شدید محنت اور جدوجہد کے بعد اب صرف 61ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔

اس حالت میں کہ مریم نواز کے ساتھ وفاقی و صوبائی وزرا ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور مسلم لیگ کے تجربہ کار افراد کی پوری ٹیم یہاں ڈیرے ڈالے ہوئی تھی۔

(جاری ہے)


میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ جہاں اقامہ کیس پر سپریم کورٹ نااہلی کا فیصلہ ہے وہاں خود حکمرانوں کی جانب سے اس حلقے کو یکسر نظر انداز کر نا ہے ۔ گندہ وغلیظ پانی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غلاظتوں سے بھرے چوک، گلیوں میں کئی فٹ جمع ہوا سیوریج کا پانی، سکول و کالج سمیت ہسپتال کی قلت اور سب سے بڑھ کر یہاں سے کامیاب ہونے والے ممبران صوبائی اسمبلی کا عوام سے رابطے کا فقدان، چار سالہ دور میں میاں نواز شریف سمیت ان کے کسی خاندان کے فرد کو یہ زحمت گواراہ نہ ہوئی کہ ایک دفعہ جا کر حلقے کے مسائل پر گفتگو کر لی جائے۔

یہی وجہ ہے کہ جو حلقہ ان کی میراث سمجھا جاتا تھا وہاں سے اس قدر منفی نتائج بلا شبہ نواز خاندان اور مسلم لیگ کے رہنماؤں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا۔
جہاں تک معاملہ ہے پاکستان تحریک انصاف کا تو مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ تبدیلی کے دعوے کر نے والے خود اپنی پارٹی میں تبدیلی لانے سے قاصر ہیں ۔ پارٹی میں موجود کئی دھڑوں نے سیاسی ساکھ کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں عمران خان سمیت پوری پارٹی کو خلوص نیت کے ساتھ این۔اے 120میں جس حکمت عملی کا مظاہرہ کر نا چاہئے تھا ایسا ہر گز نہ ہو سکا۔ اکیلی ڈاکٹر یاسمین راشد ، حلقے کے گلی محلوں میں کمپین کرتی نظر آئیں ۔ایک ایک گھر میں جاکر انہوں نے لوگوں کے سامنے پنا مقدمہ بخوبی لڑا۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ جہاں اس الیکشن پر عمران خان سمیت تمام رہنماؤں کو پورا زاور لگانا چاہئے تھا ، اتنی ہی سست روی دیکھنے کو آئی۔

اعجاز چوہدری اور علیم خان گروپ کی دھڑے بازی کی وجہ سے الیکشن کمپین مزید بے ضابطگی کا شکار رہی۔
ہر شخص اپنے نمبر بنانے کے چکر میں دوسرے کی محنت کو اکارت کر نے پر لگا ہوا تھا۔ یہاں ایک ایسے شخص سے بھی ملاقات ہوئی جو لاہور کے حلقے سے تحریک انصاف کے ایم۔پی۔اے کا امیدوار ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے علاوہ درجنوں لوگ اور بھی اسی حلقے سے امیدوار ہیں ۔

اس شخص کے بقول میرا حلقہ دوسرا ہے ، میں نے این۔اے 120میں دفتر صرف اس وجہ سے کھولا ہے کہ ہمیں پہلے خود رہنماؤں کو ملنے کے لئے منت تڑلے کر نے پڑتے تھے ، لیکن اب رہنما خود ہمارے دفترا ٓتے ہیں، ان سے ملاقات ہوتی ہے جس کی وجہ سے میری ایم۔پی۔اے کی ٹکٹ کنفرم ہو جائے گی۔
ایسے کم ظرف اور لالچی لوگوں کے ہوتے کسی دوسری جماعت کو کیا پڑی ہے کہ آپ کو شکست سے دوچار کر دے ، ایسے افراد خود ہی اپنا بیڑہ غرق کر نے کے لئے کافی ہوتے ہیں اور حالیہ الیکشن میں یہ چیز ثابت ہو گئی ۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے 2013کے الیکشنوں کی شکست سے بھی کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ چار سالوں میں کوئی بھی امیدوار حلقے میں نہ آیا اور نہ ہی عوام کے ساتھ رابطے میں رہا ۔ پھر پولنگ ڈے پر بھی 2013کی طرح اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں ناکام رہی اوراس جانب کوئی خاص توجہ نہ کی گئی۔
قارئین کرام !این۔اے 120کے ضمنی الیکشن، کامیاب ہونے اور ناکام رہنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم آئندہ کس طرح اپنی اپنی کار کردگی کو بہتر بناتے ہوئے آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔

بہر حال یہ الیکشن تو اس بات کی نوید دے رہے ہیں کہ نتائج مسلم لیگ کے لئے انتہائی تشویشناک ہیں ۔ سیاسی وابستگیاں تبدیل ہو رہی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ اس میں اضافہ ہور ہاہے۔اگر حکمران جماعت کے ذمہ داروں نے اب بھی غور نہ کیا تو آئند کے الیکشن اس سے مزید سخت اور کٹھن ثابت ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف کی تو اس میں کسی قسم کا کائی شبہ نہیں ہے کہ کپتان اپنی جماعت کے لوگوں کی سیاسی تربیت کرنے میں جس سست روی کا شکا رہیں اگر ایسا ہی رہا تو آئندہ الیکشن میں انہیں مزید مار پڑ سکتی ہے ۔ پارٹی میں موجود مختلف دھڑے ، پارٹی کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا غرور پاکستان تحریک انصاف کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :