میانمار کے مظلوم مسلمان اور ہمارا رویہ

منگل 3 اکتوبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

خوشی محمد صاحب میرے قریبی تعلق والے ہیں ، کچھ روز قبل دوستوں کے اعزاز میں سجائی جانے والی ایک نجی محفل میں ان سمیت کئی لوگوں نے پاکستانی سیاست سے یوٹرن لیتے ہوئے میانمار کے خون آشام حالات کا تذکرہ شروع کردیا۔ یہاں ہونے والے مظالم، مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے والے دل دہلا دینے والے واقعات ، ان کو گھروں سے زبردستی بے دخل کرنے کی مذمت اور میانمار کے حکمرانوں کی مسلمان دشمنی،آکسفورڈ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے انسان کے روپ میں جلاد ،نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی تصویر کو یونیورسٹی کے آڈیٹوریم سے ہٹانے کے احکامات سمیت کئی ایسے عنوانات پر سیر حاصل بحث جاری رہی ۔

لیکن اس بحث کے دوران محفل میں موجود کسی بھی شخص کے چہرے سے دکھ، اضطراب اور اداسی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔

(جاری ہے)


جیسے عام دنوں میں بطور قوم ہمارا رواج بن چکا ہے کہ کھانے کی میز پر کھانے کو انجوائے کرنے کے لئے کبھی سیاست، کھیل اور محلے کی لڑائی کو اپنا مو ضوع بنا لیتے ہیں با لکل اسی طرح جلتے، کٹتے اور سمندر برد ہوتے میانمار کے مظلوم مسلمانوں کی حقیقی معنوں میں امداد کی بجائے ہم صرف اخبارات میں اپنی بڑی بڑی تصایر اور ناموں کے ساتھ اشہار دے کر، چوراہوں پربینرز اور فلیکس کی بھر مار کر کے ، کھانے کی میز پر صرف انجوائے کر نے اور ”ٹائم پاس“ کر نے کے علاوہ مزید کچھ کرنے سے معذور دکھائی دیتے ہیں ۔


جہاں انسا نیت کے نام لیوا بڑے بڑے امن کے علمبردار و چیمپئین ، جنہیں ویسے تو کسی سڑک پر بلی اور کتے کے گاڑی کے نیچے آکر مرنے پر دکھ کااحساس ہوتا ہے اور جو اسی دکھ پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ، وہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کے گلے کاٹنے، انہیں زندہ جلا کر بھسم کرنے اور تیزی سے ان کی نسل کشی کرنے والوں کے خلاف نہ صرف خاموش تما شائی کا کردار ادا ء کر رہے ہیں بلکہ ان درندوں کے خونی کھیل میں برا بر کے شراکت دار بنے ہوئے ہیں ۔

ایسے حالات میں ہمارے سر مایہ داروں، سیٹھوں اور تاجروں ، جنہیں محلے کی کسی کمیٹی کا نگران بنا دیا جائے تو وہ حکمرانوں کی خوشنودی میں بے حساب پیسے لٹاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن حاکم الحاکمین کے کنبے کے مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کی بجائے صرف خالی نعروں اور عمل سے خالی باتوں سے اپنا فرض نبھاتے ہوئے امن کے جھوٹے علمبرداروں کی طرح حاکم الحاکمین کی عدالت میں مجرموں کی صف میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔


قارئین کرام !انسانی حقوق کی عالمی تنظیم روہنگیا اراکان نیشنل موومنٹ نے اپنی حالیہ جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ میانمار کی فوج، پولیس اور ریاستی اداروں نے یہاں کے مسلمانوں پرمظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے ایسی سفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک ماہ کے دوران 7ہزار معصوم اور بے گناہ نہتے روہنگیا مسلمان بچوں،عورتوں ،،مردوں اور بوڑھوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ شہید کیا ہے۔

میانمار کی فوج قتل عام کا ثبوت مٹانے کی خاطر زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر دریاؤں میں بہاتی رہی اور کئی جگہوں پر ماؤں کی گودوں سے چھوٹے بچوں کو چھین کر آگ میں ڈال دیا گیا یا گولیوں سے ان کے ننھے جسموں کو چھلنی کر دیا گیا۔کم سن بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بھی گولیاں مار کر شہید کرنے اور ان کی لاشوں کو جلانے یا دریا برد کرنے کے بیسیوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔

مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ کر عورتوں کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنا یاجا رہا ہے اور اپنی حوس پوری ہونے کے بعد انہیں گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی جاتی ہے ۔
قارئین محترم !مارے غم کے سینے کو پھاڑ دینے والے ایسے واقعات کو پڑھ کر اور اپنی بے حسی کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم میں انسانوں والی کوئی بات نہیں رہی۔ نبی محترم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان آپس میں پیار و محبت ، رحم و شفقت اور مہر بانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کاایک عضو بیمارپڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

اس حدیث کی روشنی میں ہم اپنا اپنا محا سبہ کریں کہ کیا واقعی ہم اس پر پورا اترتے ہیں؟اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر تو بات بن گئی لیکن اگر خدانخواستہ اندر سے” ناں “کی آواز آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی خیر منانی چاہئے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی تو کشمیر، افغانستان، عراق، شام اور اب میا نمار میں سلگتی ہوئی یہ آگ کل ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے اور اُس وقت حسرت و یاس کے علاوہ کچھ باقی نہ بچے گا۔

اگر ہم ایسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ کھانے کی میز پر انجوائے کر نے کی بجائے، بینرز، فلیکس اور اشتہارات کی بجائے حقیقی معنوں میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ظلم کو ظلم کہنا شروع کریں، مظلوموں کی امداد کریں اور جیسے ممکن ہو ان کے حق میں آواز اٹھائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :