کاش! سیٹھوں کو یہ بات سمجھ آجائے

بدھ 13 ستمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میٹرک، انٹر میڈیٹ اور اب گریجویشن کے رزلٹ میں بھی اس سال غریبوں کے بچوں نے اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے اور اولین پوزیشن کی کامیابیاں اپنے والدین کے نام منسوب کیں۔حالیہ دنوں میں آنے والے بی۔اے ، بی۔ایس، سی کے سالانہ امتحانات میں پوزیشن ہولڈر چھ طالبات کا تعلق غریب گھرانے سے ہے ۔ بی۔ایس۔سی میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی گوجرانوالہ کی صدف زاہد سکول ٹیچر کی بیٹی ہے ۔

دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی جہلم کی انیلہ یاسمین نائب قاصدکی کی بیٹی اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی فیصل آباد کی عاصمہ لطیف موٹر مکینک کی بیٹی ہے ۔اسی طرح بی۔اے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی قصور کی نگین فاطمہ یتیم ہے،دوسری پوزیشن حاصل کرنے کرنے والی حافظ آبادکی عاصمہ افضل ترکھان کی بیٹی جبکہ تیسری پوزیشن لینے والی شیخوپورہ کی مقدس اعجاز موٹر مکینک کی بیٹی ہے
قارئین! انتہائی کسمپرسی کی حالت میں پڑھنے والے بچے اس قدر شاندار نتائج حاصل کر سکتے ہیں تو اگر غریب کے بچوں کو موقع دیا جائے ، انہیں بہترین حالات میسر آسکیں، ان کے تعلیمی اخراجات کو باآسانی پورا کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ہر میدان میں موٹر مکینک، پلمبر، الیکٹریشن اور نائب قاصد کے بچے صف اول میں کھڑے نظر آئیں گے۔

(جاری ہے)

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا جینا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کے لئے زندگی کے شب وروز کو باعزت طریقے سے گزارنا عذاب بنتا جا رہا ہے ، ان حالات میں لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا جو 10سے 20ہزار کے ملازم ہوتے ہیں اور گھروں کے کرایہ سمیت بجلی،سوئی گیس کے بلوں ، بیمار بچوں کے علاج ، گھر کے ضروری اخراجات سمیت اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کر نا ،یقینا جہاد اکبر سے کم نہیں ہے ۔


قارئین کرام ! مجھے سر کاری ہسپتالوں میں علاج کی خاطر دھکے کھا تے ، زندگی کی بھیک مانگتے ، کبھی اس ڈاکٹر کے پاس تو کبھی اُس ڈاکٹر کے پاس ہاتھ جوڑے نظر آتے لوگوں پر ترس آتا ہے جو اپنی غریبی کی وجہ سے ایسے سلوک کے مستحق ٹہرتے ہیں ۔ ابھی اگلے روز کی بات ہے کہ لاہور کے ایک سر کاری ہسپتال میں ، ایسا ہی ایک غریب شخص ، کینسر کی آخری سٹیج میں مبتلا اپنی ماں کے انتہائی بنیادی ٹیسٹ کی خاطر چھوٹے سے آپریشن کے لئے کبھی ہسپتال کے ایم۔

ایس کی منتیں کرتا نظرآیا تو کبھی ڈاکٹروں کے خالی کمروں میں جھانکتا دکھائی دیا ۔ ہر طرف سے ایک ہی جواب کہ دوبارہ آپریشن کے دن 5دنوں بعدہیں ۔ وہ دیوانوں کی طرح عملے کو سمجھاتا رہا کہ اگرمزید تاخیر ہوئی تو جسم میں پھیلتا کینسر مزید تباہی کا باعث بن سکتا ہے ۔ خدارا! میری بیمار ماں کو زندہ رکھنے کے لئے میری مدد کرو، لیکن جن کے دل مردہ ہو گئے ہوں ، جو بے حس ہو چکے ہوں ، انہیں بھلا کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ بالاخر وہ اپنی غریبی کی مجبوری کی وجہ سے درد سے کراہتی اپنی بیمار ماں کو وارڈ کے ایک بیڈ ، جس پر پہلے بھی ایک مریضہ موجود تھی ، پر بٹھا کر آپریشن کے دن کا انتظار کر نا شروع کر دیتا ہے ۔


قارئین محترم !یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے انسان غلط رستے کا مسافر بنتا ہے ۔ میں نے اکثر سیٹھوں کو یہ شکوہ کرتے ہوئے دیکھا کہ فلاں ملازم اتنے کا فراڈ کر گیا ، کاروبار میں اتنا نقصان ہو گیا، مر گئے ، مارے گئے۔ لیکن جب ان کے دعوے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے 90فیصد اداروں میں ملازمین کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ کم اجرت،نہ کوئی میڈیکل و ایجوکیشن الاؤنس، جس کے نتیجے میں 15ہزار تنخواہ پر کام کر نے والاملازم اپنے بیمار بچے، کرب میں مبتلا ماں کے ساتھ سر کاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے کھاتے تھک جاتا ہے تو وہ اپنے سیٹھ سے درخواست کرتا ہے ، سیٹھ صاحب بھی اس کی بات کوسنتے ہیں اور اگلے ہی لمحے بھول جاتے ہیں ۔

جس کے بعد وہ بالمجبور غلط رستے مامسافر بنتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے اداروں کے سیٹھ اس نازک صورتحال کو سمجھتے ہوئے اس سنگین مسئلے کا حل نکالیں ۔ اس کے لئے سب سے بڑا کام یہ ہوسکتا ہے کہ ہر سال جمع ہونے والی زکوٰة ، خیرات و صدقات کو کسی ادارے کو دینے کی بجائے ، اپنے ان غریب ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کرادی جائے جس کے نتیجے میں فلاحی ہسپتالوں کے اخراجات بھی پورے ہو جائیں گے اور غریب ملازمین کو باعزت علاج بھی میسر آسکے گا۔

اس کے ساتھ ہی ایجوکیشن الاؤنس کا بھی آغاز کیا جائے تاکہ غریب لوگوں کے بچے با آسانی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔
متفق علیہ حدیث ہے کہ جناب ابوذد غفاری فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ اس وقت کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے جب میری طرف دیکھا تو فر مایا:”کعبے کے رب کی قسم!وہ لوگ گھاٹے میں ہر گز نہیں ہیں “ میں نے عرض کی:”میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں ، وہ کون لوگ ہیں؟“آپ ﷺ نے فر مایا:”زیادہ مال والے ، جو اپنے آگے اور پیچھے ، اپنے دائیں اور بائیں اس کو خرچ کرنے والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں“۔
کاش کہ سیٹھوں کو یی بات سمجھ آجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :