جناب خادم اعلیٰ! صحت کا شعبہ آپ کی توجہ چاہتا ہے

منگل 24 اکتوبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

عام اور غریب آدمی کو زندہ رہنے کے لئے جن اشد چیزوں کی ضرورت ہے خوراک و صحت کا اس میں اولین نمبر پر شمار ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور سیاسی آقاؤں نے ان دونوں ضروریات کو عوام تک باآسانی پہنچانے کے لئے کوئی قابل قدر فریضہ سر انجام نہیں دیا۔ ظلم تو یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک بے تکے اور انتہائی فضول سے کاموں پر رقم، اسباب اور صلاحیتوں کا استعمال ہو تا رہا اور جن چیزوں کا عوام کے ساتھ براہ راست تعلق تھا ، ان کو پس پشت ڈالتے ہوئے عوام کو بھوک سے مرنے اور بیماریوں کے سپرد کر دیا گیا جس کی وجہ سے غریب مزید غریب ہوتا چلا گیااورلوگ علاج جیسی اشد ضروریات زندگی سے محروم رہے ۔


قارئین کرام ! ہمیں یہ تسلیم کر نا ہو گا کہ پورے پاکستان میں پنجاب اور بالخصوص لاہور کے سر کاری ہسپتالوں کی حالات کافی بہتر ہیں اور جس کا سہرا خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کے سر سجتا ہے ۔

(جاری ہے)

لیکن سر کاری بیورو کریسی اور محکمہ صحت میں مو جود ان کے چند آلہ کار خادم اعلیٰ کی صحت کے شعبے کو بہتر بنا نے کی تما م کاوشوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں ۔

حالیہ ایک ہفتے کے دوران متواتر کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے شعبہ صحت کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا ہے . سب سے پہلے توشریف خاندان کے محل کے بالکل پاس ،90کروڑ کی لاگت سے تیار تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال رائیونڈ میں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے مزدور کی بیوی نے باہر ہی بچے کو جنم دیا اوراس کے دو دن بعد لاہور کے بڑے ہسپتال سر گنگا رام میں ایک مریضہ نے بچے کو ایم۔

ایس آفس کے باہر جنم دیا۔مریضہ کی والدہ کے مطابق رات سے کسی ڈاکٹر نے لفٹ نہیں کرائی اور یہاں تعینات عملہ کھانے کو پڑتا تھا۔ اس پر جب میڈیا پر شور مچا تو فوری طورپر ڈائریکٹر ایمرجنسی کو معطل کرنے کا پروانہ جاری کر دیا گیا ۔خبر یہ ہے کہ چیف سیکریٹری آفس کو موصول ہونے والی پروفیسرز کی رپورٹ میں مریضہ کو ہی قصور وار قرار دے دیا گیا اورتھوڑی دیر بعد مریضہ کی موبائل فون سے ویڈیو بنائی گئی جس میں اس سے یہ بات کہلوائی گئی کہ میں کھانا کھانے کنٹین گئی تھی اور آتے ہوئے یہ واقعہ رونما ہو گیا۔

اگر مریضہ کی ویڈیو ریکارڈنگ پر یقین کر لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں ان میں سے دو یہ ہیں کہ فوری طور پر ڈائریکٹر ایمرجنسی کو کیوں معطل کیا گیا؟ کیا سب مریض کھانے کے لئے کنٹین جاتے ہیں؟اگر سب مریض کھانا اپنے پیسوں سے کنٹین پر کھاتے ہیں تو مختلف سماجی اداروں کی طرف سے بھیجا گیا کھانا کو ن ہڑپ کر جاتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ گنگارام ہسپتال میں اس وقت سابقہ ایم۔

ایس اور محکمہ صحت کے کم ظرف افسروں میں لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے ایک جونئیر افسر کو پورے ہسپتال کا چارج دیا گیا ہے جو اپنے جو نئیرز کے غلط مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ہسپتال کا مزید بیڑہ غرق کر نے میں مصروف ہے ۔یہ صرف ایک دن کا رونا نہیں بلکہ روزانہ ہی یہاں کی ایمرجنسی بالخصوص گائنی ایمرجنسی مریضوں کو ڈاکٹروں اور عملے کی جانب سے ایسی گھٹیا حرکتوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور وہ بے چارے غریب لوگ جن کے پاس پینا ڈول لینے کے بھی پیسے نہیں ہوتے وہ اپنی غربت اور مجبوری کی وجہ سے اپنی عزت نفس پر چھری پھیرتے ہوئے ان کی بکواس سننے پر مجبور ہو تے ہیں ۔


قارئین کرام !ابھی گنگارام ہسپتال کے واقعے کی انکوائری رپورٹ خادم اعلی ٰ تک نہ پہنچی تھی کہ فیصل آباد کے تاندلیانوالہ ٹی ایچ کیو ہسپتال سے عملے کی بے حسی کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق پہلے تو 35سالہ شازیہ سے خون کے نمونے لینے کی فیس مانگی گئی اور پھر یہ کہہ کر فیصل آباد ریفر کر دیا گیاکہ یہاں بلڈ بنک نہیں ہے ۔سرکاری ہسپتال کی ایمبولینس کا ڈرائیور بھی دو گھنٹے تاخیر سے پہنچا جس کی وجہ سے حواکی بیٹی نے ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دے دیا۔

پے در پے یہ تینوں واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ محکمہ صحت کا قلمدان سنبھالے وزراء ، سیکریٹری اور افسران ، سب کے سب نا اہل ہیں ۔ انہیں مختلف پروجیکٹس میں کمیشن کھانے کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نا اہلیوں کی وجہ سے خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی خلوص دل کے ساتھ کئی گی کاوشیں بے ثمر چلی جاتی ہیں ۔
میں یہاں تعریف کر نا چاہوں گا کارڈیالوجی ہسپتال لاہور کے سر براہ پروفیسر ندیم حیات ملک کی ، جو خاموشی کے ساتھ اپنے ادارے میں بہتری لانے کی انقلابی کاوشوں میں مصروف عمل ہیں ۔

مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کارڈیا لوجی ہسپتال کا تما م عملہ بجائے مریضوں کو خوار کر نے کے ،انہیں اکاموڈیٹ کرتا نظر آتا ہے ۔ صفائی ستھرائی، حسن اخلاق اور بہترین طریقے سے مریضوں کے ساتھ پیش آنا، بطور ایک عام آدمی کے لاہور کے تما م سر کاری ہسپتالوں میں سب سے زیادہ بہتر معاملات مجھے یہاں دیکھنے کو ملے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ خادم اعلیٰ اپنی نااہل ٹیم پر بھروسہ کر نے کی بجائے خود فیلڈ میں آئیں اور پروفیسر ندیم حیات ملک جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کر کے ، سر کاری ہسپتالوں کی کارکرگی بہتر کر نے کا نئے سرے سے بیڑہ اٹھائیں۔

مجھے یقین ہے کہ جس دن انہوں نے یہ کام شروع کردیا تو دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں میں عوام کو ذلیل کرنے والے یہ لوگ انسان کے پتر بن جائیں گے ۔تو دیر کس بات کی ؟جناب خادم اعلیٰ صحت کا شعبہ آپ کی توجہ چاہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :