ہمیں شہزاد سلیم جیسے ہیروز کی عزت دیناہو گی

منگل 7 نومبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ ہم نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک اپنے محسنوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا ۔ تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  کی علالت کے آخری ایام میں جب انہیں بوقت ہسپتال پہنچانے کی اشد ضرورت تھی ،ہسپتال لے جانی والی ایمبولینس میں جان بوجھ کر نقص پیدا کر دیا گیا۔

جسکی وجہ سے ہمیں انگریزوں و ہندؤوں کی غلامی سے آزاد کرانے والا شخص اپنوں کی بے حسی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیا۔ پھر قائد کی پیاری بہن محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن لڑنے اور اس کی عار میں انہیں تنگ کرنے کی کوئی کسر ہم نے نہیں چھوڑی۔قوم کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا سب کچھ قربان کر نے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی جگ ہنسائی اتنی پرانی بات نہیں جسکے نتیجے میں ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ مجھے پوری زندگی صرف یہی ملا ل رہے گا کہ میں نے ایسی قوم کے لئے یہ سب کچھ کیا۔

(جاری ہے)


قارئین کرام ! یہ بھی ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم نے چوراچکوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو عزت دے کر انہیں معزز و محترم قرار دیا۔ جسکی مثال ہمارے سیا سی آقاؤں اور ان کے گماشتوں کی ہے ۔اپنی مدت حکومت پوری کرنے اور کرپشن کے نت نئے ریکارڈ بنا کر اپنے ذاتی بنک اکاؤنٹس کو بھرنے اور ملک کے خزانے کو خالی کر نے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھوک، افلاس اور بے روزگاری جیسی لعنتیں تحفے میں دے کر جانے والے سیاستدانوں کو ہم پھر سے اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ، ان سے وفاداری کی قسمیں کھاتے اور ان کے لئے گلی محلوں میں ذلیل و خوار ہو کر ووٹ مانگتے ہیں ۔

صرف انہیں ہی نہیں بلکہ ان کی کالی کرتوتوں میں ان کا ساتھ دینے والے لوگوں کی بھی وی۔وی۔آئی۔پی پروٹوکول سے نوازتے ہیں جس کا تازہ ثبوت ایان علی کیس ہے ۔
مصدقہ اطلاعات اور تما م شواہد کے باوجود ،کرپٹ اور چور سیاستدانوں کو الٹا لٹکانے والے والے بڑے بڑے دعوے کر نے والے ہمارے حکمرانوں نے کس طریقے سے اسے باعزت باہر جانے دیا سب کے سامنے ہے۔

کیس کی پیروی کرنے والے کسٹم انسپکٹر ، اعجاز چوہدری کو کس طرح موت کے گھاٹ اتارا گیااور ابھی تک اس کے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچانا تو دور کی بات ان کا تعین نہ کیا جانا وہ بھی ایک شرمناک فعل ہے۔رینٹل پاور پلانٹ کیس میں نیب کے تفتیشی افسر فیصل کامران کے قتل جسے فرانزک سائنس ایجنسی میں پتھا لوجسٹ کے کے عہدے پر براجمان ڈاکٹر محبوب جیلانی مرحوم نے اپنی رپورٹ میں قتل قرار دیا ،لیکن اس رپورٹ کو کوڑے کا ڈھیر بناتے ہوئے قتل کو خود کشی کی رپورٹ میں تبدیل کر دینا بھی ایک ایسا راز ہے کہ جس سے پردے اٹھے تو بڑے بڑے نام ننگے ہو سکتے ہیں۔


قارئین کرام ! ایک بار پھر جب ملک میں چورں ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا احتساب شروع کرتے ہوئے نیب لاہور کے ایماندار اور دبنگ ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم ، ملکی خزانے کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر کھانے والے چوروں کے خلاف ان ایکشن ہو ئے ہیں تو ان کے خلاف بھی ڈاکوؤں کا اکٹھ ہو گیا ہے جو کبھی ان کی گاڑی کا پیچھا کر کے، ان کی کالز ٹیپ کر کے اور ان کی تعلیمی ڈگریوں کو جعلی قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو نا چاہتے ہیں ۔


شہزاد سلیم کی بطور ڈی۔جی خیبر پختونخواہ اور لاہور ان کی کار کردگی مثالی رہی ہے ۔ان کے دور میں نیب نے نہ صرف ایسے چوروں سے ریکارڈ ریکوری کی بلکہ کئی اہم کیسز میں اپنے آپ کو پھنے خاں سمجھنے والے بڑے ملزموں کو گرفتار کیا۔خیبر پختونخوا میں ان کی تعیناتی کے بعد ملزموں سے پری بارگیننگ اور رضا کارانہ واپسی کی مد میں 4ارب77کروڑ جمع ہوئے اور اس دوران 366ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔

اسی طرح لاہور میں بطور ڈی۔جی تعیناتی کے دوران تمام بڑے میگا سیکنڈلز جو سرخ فیتوں کی نذر تھے اور جن کی فائلوں پر منوں مٹی جم چکی تھی کو دوبارہ کھولا گیا اور ان پرتیزی سے کام شروع کیا گیا۔متروکہ وقف املاک بورڈسیکنڈل، اے۔سی شالیمار کی گرفتاری، ہاؤسنگ سیکنڈل، لیسکو اور فیسکو کے ڈیفالٹرز کے علاوہ کرپشن کیسز تیزی سے حل کرتے ہوئے 6ماہ کے دوران 100کے قریب ملزمان کو گرفتار کر کے 1ارب سے زائد کی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی ہے۔

فیصل کامران اور اعجاز چوہدری جیسے افسروں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے بعد کوئی افسر جب اتنی ہمت نہیں کر پارہا تھا ،شہزاد سلیم نے پانامہ کیسز میں اسحاق دار اور شریف فیملی کے اثاثے منجمد کر نے کے لئے نہ صرف لیٹر لکھے بلکہ مسلسل اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔
قارئین کرام !اگر ہم اپنی اور آنے والی نسلوں کی بقا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں ڈاکٹر عبد القدیرخان اور شہزاد سلیم جیسے اپنے محسنوں کو عزت دینا پڑے گی ،پاکستان کی بقا ء کے لئے ان کا ساتھ دینا ہو گا اور ملکی خزانے کو لوٹ کر اپنی ذاتی جائیدادیں بنا نے والے ڈاکوؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کر نا ہو گا۔

اگر ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارے ہاں صرف بھوک، افلاس اور بے روزگاری کے ڈیرے ہوں اور اس وقت ہمیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :