ہمیں اپنے روئیوں پر غور کر نا ہو گا!

منگل 18 اپریل 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ارسطو ایک معروف دانشور اور ایک عظیم فلسفی سقراط کا شاگرد تھا ،اس نے صدیوں پہلے قانون کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں جبکہ بڑے جانور تو اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عدل و انصاف کے علمبرداروں نے اتنی بھی کوشش نہ کی کہ کم از کم ارسطو کے اس فلسفے کو پوری طرح ختم نہ سہی ، اس تا ثر کی حساسیت کو کچھ کم کردیا جا تا۔

جیسے جیسے وقت گذرتا جا رہا ہے پا کستان میں تو بالخصوص ارسطو کا یہ فلسفہ اتنا ہی طاقتور ہو تا جا رہا ہے ۔ جس کی مثال کھربوں روپے کے قومی خزانے کو ڈکارنے والے لوگوں کی باعزت رہائی، درجنوں مقدمات میں ملو ث افراد کی بلا خوف و خطر سیاسی پنجہ آزمائی اور جیلوں میں اپنے نا کردہ گناہوں کی پاداش میں سیکڑوں بے گناہ اور معصوم لوگوں کی عذاب ہوتی زندگی ہے ۔

(جاری ہے)

تھانوں ، کچہریوں اور عدالتوں میں بے گناہ، کمزور بے یارو مددگار دکھائی دیتے ہیں جبکہ مصدقہ ڈاکو اور لٹیرے ، انعامات واکرامات سے نوازے جائے جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ روز بروز عام آدمی کا قانون سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بد اعتمادی کی کوکھ سے جنم لینے والا عدم برداشت کا کلچر معاشرے کو تباہی کی جانب لے کر جا رہا ہے ۔ لوگ جہاں چاہتے ہیں ، جب چاہتے ہیں اپنی عدالت قائم کرتے ہیں اور جو ان کے ہاتھ آتا ہے ، بغیر کسی گواہ و ثبوت کے ، بد ترین تشدد کر کے اپنی ہوس پوری کرتے ہیں ۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشعال خان کی ہلاکت جس کا تازہ ثبوت ہے ۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے احاطے میں مشتعل طلبہ نے جمعرات کو اپنے ایک ساتھی طالب علم کو آن لائن توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا جبکہ ان کے تشدد سے ایک اور طالب علم عبداللہ شدید زخمی ہوگیا تھا۔


23 سالہ مقتول مشعال اور زخمی عبداللہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے۔ ان دونوں پر الزام عاید کیا گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر فیس بُک پر ایک کالعدم فرقے قادیانیت کی تبلیغ وتشہیر کررہے تھے۔ پہلے یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک گروہ نے عبداللہ کو گھیرے میں لے کر اس سے قرآن مجید کی تلاوت کے لیے کہا تھا۔اس نے اس الزام کی تردید کی تھی کہ وہ قادیانی ہے لیکن اس کے باوجود مشتعل طلبہ نے اس کومارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

پولیس نے اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی یونیورسٹی میں پہنچ کر عبداللہ کو بچا لیا لیکن اس کے بعد طلبہ کا ہجوم ہاسٹل میں مشعال خان پر حملہ آور ہوگیا تھا۔ایک عینی شاہد کے مطابق مشتعل طلبہ نے اس کو مارا پیٹا اور گولی مار دی۔واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں مشعال بے حس وحرکت فرش پر گرا پڑا تھا اور اس کے ارد گرد مبیّنہ حملہ آور افراد کھڑے تھے۔اس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات نظر آرہے تھے۔

ہجوم مشعال خان کی لاش کو جلانا بھی چاہتا تھا لیکن پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے ایسا نہیں کرنے دیا۔
قارئین ! یہ واقعہ جہاں قانون کی حکمرانیت کو واضح کرتا ہے وہاں قوم کی مجموعی ذہنی کیفیت کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ ہم جہالت کی اس انتہاہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہماری نظریں ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، جہاں ہماری عقل صرف منفی رحجانات کو قبول کرتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم فوراََ بغیر سو چے سمجھے، کسی حتمی ثبوت کے بغیر ایسی متشدد کاروائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں جس کا اختتام کسی معصوم اور بے گناہ کی موت ہوتا ہے ۔ جس نبی ﷺ مہربان کے ہم امتی ہونے کے دعویدار ہیں ان کا ارشاد گرامی تو یہ ہے کہ ایک انسان کی موت پوری انسانیت کی موت ہے ۔ اور پھر مجھے احادیث کی کتابوں میں لکھا وہ واقعہ نہیں بھولتاجب جلیل القدر صحابی حضرت اسامہ بن زید ایک غزوہ کے دوران قبیلہ جہینہ کے لوگوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے میدان میں اترتے ہیں ، ایک شخص پر وار کر نے کے لئے تلوار اٹھاتے ہیں تو وہ لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتا ہے ۔

لیکن اسامہ بن زید اپنے اس حملے کو کامیاب بناتے ہوئے نیزہ اس کے جسم میں پیوست کر دیتے ہیں۔نبی مہربان ﷺ تک یہ بات پہنچتی ہے ، اسامہ  کو بلایا جاتا ہے ، سوال کیا جاتا ہے کہ اسامہ !صد افسوس تم نے اس حالت میں اُس شخص کو قتل کر دیا جب کہ اس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تھا؟اسامہ عرض کرتے ہیں حضورﷺاس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔

آپ ﷺ نے فر مایا :”تم نے کیا اس کا دل چیر کر دیکھا تھا“۔
حضرت اسامہ بن زید کا یہ واقعہ چیخ چیخ کر ہمیں اپنے روئیوں پر غور کر نے پر اکساتا ہے کہ ہمیں کس نے یہ حق دیا ہے ہم کسی کو گستاخ ، گناہ گاراور بد کار بنا کر قتل کر دیں ۔ لوگوں کی عزتوں کو سر بازار نیلام کریں، یک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کر کے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنیں ۔

جب ایک جید صحابی رسول ﷺ سے جنگ کے دوران نبی مہربان ﷺ نے ان کے اس عمل پر اللہ کو گواہ بنا کر برا ت کا اعلان کیا تھا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنے روئیے میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے معاشرے میں امن ، سکون اور محبت کو فروغ دیں اور عدل و انصاف کے علمبردار بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ انصاف کسی ایک خاص گروہ کے گھر کی باندی نہ ہو بلکہ معاشرے کے ہر شہری کو اس کے رائٹس مہیا ہوں جس کے نتیجے میں امید کی جا سکتی ہے کہ بد اعتمادی کی کوکھ سے جنم لینے والا عدم برداشت کا کلچر اپنی موت آپ مر سکتا ہے اور ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :