درخواست بنام افسران ِلاہور پولیس

منگل 30 مئی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور تھا، لاہور کے گوالمنڈی تھانے میں بطور انسپکٹر اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ نئے ایس۔ایچ۔اوز کی طرح اس نے بھی سابقہ کیسز اور ان سے متعلقہ فائلوں کو پڑھنا شروع کیا۔ ابھی پہلی ہی فائل اٹھائی تھی کہ اُس نے اپنے ماتحت کو حکم دیا کہ اس طالبعلم کو بلا کر لاؤ، طالبعلم کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا طالبعلم تھا اور سعودیہ کے شہر مدینہ سے یہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر نے آیا ہوا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں طالبعلم، انسپکٹر صاحب کے سامنے پیش ہو گیا تھا۔ جس نے کوئی6ماہ پہلے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کی درخواست متعلقہ تھانے جمع کرائی لیکن کئی روز گذرجانے کے باوجود بھی کوئی شنوائی نہ ہو پائی تھی۔ انسپکٹر صاحب نے درخواست گذار طالبعلم سے کیس سے متعلقہ مزید معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ گوجرانوالہ کے ایک بہت نامی گرامی سیا سی شخصیت نے پراپرٹی کی مد میں اس سے لاکھوں کا فراڈ کیا ہے اور جب طالبعلم، اس سے رقم کی واپسی کا تقاضا کرتا ہے تو وہ اپنے سیا سی اثرو رسوخ کو استعمال کر کے اس کی آواز کو دبانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا تھا۔

(جاری ہے)

یہی وجہ تھی کہ کئی ماہ گذر جانے کے باوجود بھی اس کی درخواست فائلوں میں دبی ہوئی تھی۔
انسپکٹر صاحب پہلی ہی فرصت میں گوجرانوالہ روانہ ہوئے اور ملزم پارٹی کو طالبعلم کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کر نے کے احکامات صادر کرتے ہوئے بڑے سخت الفاظ میں یہ کہ کر آئے کہ تمہارے پاس تین دن ہیں ۔ یا تو رقم کا بندوبست کرو یا پھر اپنی قبریں تیار کر لو،یہ کہہ کروہ دوبارہ لاہور واپس آگئے ۔

ابھی پہنچے ہی تھے کہ گورنر ہاؤس سے طلبی کا نوٹس آگیا۔ ظاہر ہے جب ایسے طاقتور سیاسی چوروں اور فراڈیوں کے ساتھ ایسا معاملہ روا ء رکھا جائے گا تو وہ اپنے مفادات اور بچاؤ کے لئے آگے پیچھے تو دوڑیں گے۔ انسپکٹر صاحب نے اپنا پرس اور ضروری اشیا ء اپنے ماتحت کے حوالے کیں اور گورنر ہاؤس میں مقیم ،اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر کے سامنے پیش ہو گئے۔

قارئین کرام ! سیانے کہتے ہیں کہ جب تمہاری نیت صاف ہو تو قدرت بھی مدد کرتی ہے ، یہاں بھی کچھ ایس ہی ہوا ۔ کچھ دیر پہلے تک شدید غصے میں بات کر نے والا ایڈمنسٹریٹر حقائق جاننے کے بعد بالکل ٹھنڈا پڑ گیا اور انسپکٹر کو ہر طرح کا اختیار دیتے ہوئے اس معاملے کو فی الفور حل کر انے کے احکامات جاری کئے۔ جب ملزم پارٹی کو اس ساری صورتحال کا اندازہ ہو چکا تھا اور ان کی پشت پناہی کر نے والے تما م لوگ جب ہاتھ اُٹھا چکے تو انہوں نے اگلے ہی روز طالبعلم کے ساتھ فراڈ کے ذاریعے ہتھیائی ہوئی رقم کو، انسپکٹر کے حوالے کر دیا ۔

انسپکٹر صاحب نے ایک دفعہ پھر طالبعلم کو بلایا ، رقم اس کے حوالے کی اورکہا: ”میرا بطور انسپکٹر یہ فرض بنتا تھا کہ تمہاری مدد کروں لیکن میں نے مزید زور اس وجہ سے لگایا کہ تم میرے نبی ﷺ کے شہر سے ہو ، مجھے یہ خدشہ تھا کہ اگر میں یہ کام نہ کر سکا تو روز قیامت جب میرے نبی ﷺ ، مجھ سے یہ سوال کر لیتے کہ میرے شہر سے ایک سوالی تمہارے پاس آیا لیکن تم نے اس کی داد رسی نہ کی ، تو میں کس منہ سے ان کے آگے کھڑا ہوتا“۔


قارئین کرام ! ایک طویل عرصہ ہو تا ہے کہ ایک پولیس افسر سے سنا ،سچائی پر مبنی یہ واقعہ آج پھر اس وجہ سے یاد آگیا کہ میرے بڑے بھائی ، جن کا حکم میرے لئے آڈر کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔ درد دل کی دولت سے سر شار ، خدمت خلق میں مصروف رہنا ان کا وطیرہ ہے ، نے ایک ایسے کیس کے بارے بتایا کہ جسے سن کر یہ احساس ہو تا ہے کہ ہم کیسے ظالم مسلمان ہیں کہ اللہ اور اس کے نبی ﷺ کے نام پر فراڈ کر نے سے بھی باز نہیں آتے ۔

یہاں بھی ایک بوڑھی خاتون نے اپنے آنکھوں میں مکہ ، مدینہ دیکھنے کا خواب سجائے ،کئی سال پیسے جمع کر کر کے عمرہ کے لئے ایک لاکھ روپے جمع کئے۔ جو ایسے ہی کسی مافیا نے عمرہ کرانے کے بہانے ہتھیا لئے اور رقم کی واپسی کا تقاضہ کرنے پر دھمکیاں دیتے رہے ۔ جب یہ وا قعہ میرے علم میں آیا تو متعلقہ تھانے کے ڈی۔ایس۔پی ، خوبصورت اور انسان دوست پولیس افسر رانا غلام عباس اور دبنگ ایس۔

ایچ۔او تیمور ملک،جو اپنی نیک نامی میں مشہورو معروف ہیں ، کو اس مافیا کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی، جنہوں نے فوری طور پر اللہ اور نبی ﷺ کے نام پر فراڈ کر نے والے مافیا کی سرغنہ جو غریب لوگوں سے پیسے بٹور کر سود پر دیتی تھی اور جس کے خلاف کوئی ایکشن کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا تھا ، نے اس کے گرد شکنجہ تنگ کیا اور اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف ایف۔

آئی۔آر درج کرتے ہوئے اسے گرفتار کیا ۔
قارئین محترم !رانا غلام عباس اور تیمور ملک نے انسپکٹرصاحب کی طرح ، اس خوف سے کہ روز قیامت نبی ۔ﷺ نے ہم سے یہ سوال کر لیا کہ میرے نام پر میرے سادہ لوح امتیوں کے ساتھ فراڈ ہو رہا تھا ، وہ لوگ تمہارے پاس آئے تو تم نے کیا کر دار ادا ء کیا؟ ان دونوں حضرات نے بھی ایسے بد کردار لوگوں کے خلاف اپنے تئیں ہر ممکنہ کو شش کرتے ہوئے نبی ﷺ کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو انوسٹی گیشن ونگ کے ذمہ داران اور معزز عدلیہ کے جج صاحبان ایسا گھناؤنا کام کر نے والے مافیاز کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا گھر دیکھنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے لوگوں کا خواب پورا کرتے ہوئے ان کی رقم واپس لوٹائیں اور محسن انسانیت ﷺ کی شفاعت کے حق دار ٹہریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :