اکابرین عدل و انصاف کو اس بارے غورکرنا ہو گا!!!

منگل 29 اگست 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

قابل افسوس ہے یہ بات کہ ہمارے معاشرے کا شمار ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں روز ہی کوئی نیا المیہ جنم لیتا ہے ۔ حقیقی مسائل کو ختم کرنے کی بجائے”پھڑ لو ، پھڑ لو“ کا شور مچانے کی پالیسی پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہے اور معاشرہ بہت سی برائیوں کا شکار ہو تا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے صرف ایسی کاروائیوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے جس کے کوئی مثبت نتائج برا ٓمد ہوتے دکھائی نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے کہ مجرم سرعام دندناتے پھرتے ہیں اور شریف شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب کرایہ داری ایکٹ پر پولیس کی جانب سے سختی کی گئی تو اوپر سے جتنی ایف۔ آئی۔آرز کے احکامات ملتے ، متعلقہ ایس۔ایچ۔

(جاری ہے)

او ریڑھی والے، کھوکھے والے یہاں تک کہ گدھا چلانے والے کوچوان کو بھی پکڑ کر ، اس کے خلاف ایف۔آئی ۔ آر کاٹ کر افسروں کی طرف سے دی گئی گنتی کو پورا کرتے تھے اور جو واقعی کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے افراد تھے وہ پیسے دیکر، سفارش کر کے اور سیاسی اثرو ورسوخ کے ساتھ بچ جاتے تھے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے بڑے بڑے بد معاش، قبضہ گروپ، منشیات فروش اور جوارئیے معزز و محترم قرار پائیں اور بے چارہ ریڑھی بان، پھل کو متعین کردہ قیمت سے 2روپے فی کلو مہنگا بیچنے پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ذلیل وخوار ہو۔
ایسا ہی حال، ضلعی انتظامیہ کے ماتحت اداروں کا ہے جو خو د تو کچھ کرنے سے قاصر ہیں ، لیکن لوگوں سے حرام کھانے کا کوئی بھی موقع خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔

بالخصوص یہ سیزن تو حرام کمانے کا موسم بہار ہوتا ہے ۔ ڈینگی مچھر کے لاروے کے نام پر شہریوں کو تنگ کرتے ہوئے ایف۔آئی۔آر کے اندراج کے دھمکی دے کر اپنی جیبیں بھرنا، ان کا معمول بن چکا ہے ۔ ظلم تو یہ ہے کہ انڈر میٹرک افراد کسی بھی شخص کے گھر، دفتر اور فیکٹری بد معاشی کے ساتھ گھستے ہیں ، پیمانے میں پہلے سے موجود کسی بھی مچھر کے لاروے کو شو کراتے ہیں اور اپنے مذمو م مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔


قارئین کرام !پچھلے دنوں میرے ایک عزیز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب متعلقہ ادارے کے افراد ان کے دفتر پہنچے، صفائی وستھرائی کی اعلیٰ مثال بنے ان کے دفتر میں بھی بالآخر ڈینگی کنٹرول کے لوگوں نے ڈینگی لاروا بر آمد کر لیا، میرے دوست چونکہ ایمانداری کی بھی اپنی ہی ایک مثال ہیں لہذا انہوں نے کسی بھی طرح کی رشوت دینے سے انکار کر دیا اور یوں کچھ گھنٹوں بعد ہی متعلقہ تھانے سے ایف۔

آئی۔آر کا پروانہ جاری ہو گیا۔
کسی شریف شہری جس نے آج تک کسی بھی طرح کے قانون کی خلاف ورزی نہ کی ہو اس کے لئے تھانے اور کچہریاں جھیلنا، کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔بالآخر ضمانت کرانے کے لئے تفتیشی افسران کے تڑلے، کچریوں کے چکر اور گھنٹوں طویل انتظار ، عام آدمی کا عدل وانصاف کے اداروں سے بھی اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی عام آدمی کا سب سے زیادہ اعتبار پاکستان کی عدلیہ پر ہے۔

لیکن مجھے بڑے افسوس کہ ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ طلسماتی شخصیت کے مالک چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ، منصور علی شاہ کی انتھک محنت اور سسٹم میں تبدیلی لانے کے لئے شدید کاوشوں کے بعد بھی لوئر عدلیہ میں معاملات میں کوئی بہتری ملنے کو نہیں ملی۔ جس کے مناظر تو ویسے روزانہ ہی یہاں دیکھنے کو ملتی ہے لیکن کل جب دوست کے ساتھ اُسی مقدمے کے سلسلے میں عدالت جانا ہوا تو یہ دیکھ کر دلی افسوس ہوا کہ متعلقہ عدالت کے جج صاحب چار گھنٹوں سے اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھے اور ریڈر ہر 15منٹ بعد مزیدآدھے گھنٹے کا وقت بڑھا دیتا تھا۔

ہم سمیت کئی لوگ جس کی وجہ سے شدید کرب میں مبتلا تھے ۔بالآخر ہم، دوسروں کی طرح اگلی تاریخ لے کر ، ملک میں تباہی سے بچے کچھ اداروں میں سے ایک ،عدلیہ کی کارکردگی پر تشویش دل میں بسائے اب تک یہی سوچ رہے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب کی انتھک محنت سے اس ادارے کے وقار کو قائم کر نے کی جدوجہد میں ناکامی کا باعث بننے والے ایسے لوگوں کے خلاف کیا کاروائی ہو سکے گی؟ مجھے یقین ہے کہ اکابرین عدل و انصاف ، لوئر کورٹس میں جاری اس ظلم و زیادتی کا ازالہ کرتے ہوئے فوری طور پر اس بارے غور کریں گے اور عام آدمی کو آسانی فراہم کرتے ہوئے اس کے دل میں عدلیہ کی عزت و احترام میں مزید اضافہ کر نے والے اقدامات کو ہنگامی بنیادوں پر نافذ کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :