ایک افطاری پولیس کے جوانوں کے ساتھ

منگل 6 جون 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے جوانوں نے ایک طویل عرصہ، اپنے زہر آلود لہجے اور چند ٹکوں کی خاطر مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا نے والی روش نے معاشرے میں اپنے خلاف کئی قسم کی نفرتیں تقسیم کی ہیں ۔ جس کی وجہ سے حالیہ دنوں میں پولیس اور عوام کے درمیان نفرتوں کے رشتے کو محبت میں تبدیل کر نے کی ،پولیس افسران کی مخلصانہ کاوشیں بھی کو ئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کرسکی ہیں ۔

میرے نزدیک جس کی اہم وجہ پولیس کے جوانوں کامضبوط ”مائند سیٹ“ ہے جسے وہ تبدیل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اس کے پیچھے جہاں کئی اہم جو ہات ہیں اس میں سے ایک بڑی وجہ پچھلے ادوار کے افسروں کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ بے رحمانہ رویہ بھی ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جس نے ان کے لہجوں میں ایسا زہر شامل کر دیا ہے جو ہزار کوششوں کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔

(جاری ہے)

جس کا عذاب عام عوام سہتی ہے جو تھانوں میں اپنے جائز کاموں کے لئے بھی پولیس والوں کے زہر آلود لہجوں اور زیادتیوں کا شکار رہتے ہیں ۔
قارئین ! یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور پولیس کے قابل اور محنتی افسران ، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے بلکہ ان غلطیوں پر اپنے اچھے کاموں کی دولت پردہ ڈالتے ہوئے ، ملازمین کے روئیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے سر گرم عمل ہیں۔

کیپٹن امین وینس ہوں یا ڈاکٹر حیدر اشرف، رانا ایاز سلیم ہوں یا عاطف نذیر ،سب ہی اپنی اپنی فیلڈ کے اسپشلسٹ ہونے کے ساتھ ماتحتوں کو عزت اور آسانیاں فراہم کر تے ہوئے، سابقہ ادوار کی ان کی محرومیوں کو ختم کر نے کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔یہی وجہ ہے کہہ آہستہ آہستہ پولیس کلچر میں تبدیلی کا دعویٰ حقیقت میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔
یہ انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ پولیس کی تاریخ میں پہلی دفعہ پولیس لائن لاہور میں، 700سے زائد ملازمین کے لئے افطار ڈنر کا بہترین بندوبست کیا گیا ہے ۔

ایس۔پی ہیڈ کواٹر، عاطف نذیر کی دعوت پر معروف سکالر قاسم علی شاہ، ایس۔پی ڈاکٹر علی رضا اور عمران شمسی کے علاوہ ،میں بھی پولیس جوانوں کے ساتھ افطاری پر موجو د تھا۔ تما م امور بہترین اور منظم طریقے سے سر انجام دئیے جا رہے تھے۔ کشادہ اور خوبصورت گراؤنڈ میں جس کا انتظام کیا ہوا تھا، جو اس شاندار تقریب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔

اس افطاری کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ایس۔پی صاحب خود بھی پولیس اہلکاروں کے درمیان بیٹھ کر افطاری کرتے ہیں اور ان کے مسائل سن کر موقع پر حل کرتے ہیں ۔
عاطف نذیر ایک درد دل رکھنے والے پولیس افسر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی تعیناتی کے مختصر عرصہ میں ہی انہوں نے پولیس لائنز کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس سے قبل جب بھی یہاں آنے کا موقع ملتا تو بالمجبور یہاں آنا پڑتا۔

جس کی وجہ ملازمین کی چارپائیوں ، گندے بستروں، گندگی کے ڈھیروں اور تعفن ذدہ بدبو کے بھپکے ، طبیعت کو ناگواری کے عذاب میں مبتلا کر کے رکھ دیتے تھے اور یوں کچھ ہی لمحوں میں یہاں سے راہ فرار کا کوئی بہانہ تلاش کر کے نکلنا پڑتا۔ مجھے بہت خو شی ہو ئی کہ جہاں کچھ ہی لمحے رکنا کسی عذاب سے کم نہ تھا ، اس دفعہ تین گھنٹوں سے زیادہ وقت گذارا اور پھر بھی واپس جانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔

تاحد نگاہ، صاف ستھرا ، وسیع و عریض صحن، میس، کیفے ٹیریا اورملازمین کے رہائشی کمرے، ایک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے ۔ ابھی حال ہی میں میس اور کیفے ٹیریا بلڈنگ کی تزئین وآرائش کی گئی ہے تاکہ ملازمین کو بہترین ماحول فراہم ہو سکے اور انہیں نفسیاتی طور پر بھی مضبوط بنایا جائے ۔ہمیں بھی ملازمین کے میس سے تیار ہوا کھانا پیش کیا گیا جو کسی پنچ ستارہ ہوٹل کی کوالٹی سے کم نہ تھا۔


قارئین محترم !کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ادارے کا سر براہ نیک اور اعلیٰ صفات کا حامل ہو تو کچھ بعید نہیں کہ اُس ادارے میں اوپر سے نیچے تک تما م افراد کا قبلہ درست نہ ہو جائے ۔ لاہور پولیس کے سر براہ امین وینس ، ڈی۔آئی۔جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف، ایس۔ایس۔پی ایڈمن رانا ایاز سلیم اور ایس۔پی ہیڈ کواٹر عاطف نذیر کی زیر نگرانی لاہور پولیس میں جس تبدیلی کا آغاز ہوا ہے ، امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت تنائج بر آمد ہو نا شروع ہو جائیں گے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماہ رمضان کے اس پورے مبارک مہینے میں پولیس کے جوانوں کے اعزاز میں افظاری کا انتظام مخیر افراد کی جانب سے کیا جا رہا ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اور پولیس کے درمیان نفرتوں کے رشتے کو ختم کر نے میں یہ افسران کامیاب ہو رہے ہیں۔لیکن کیا ہی اچھا ہو پولیس ملازمین بھی اپنے روئیوں میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لاتے ہوئے، عام عوام کے دکھوں کو احسن طور پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میٹھا بول بولنے کی عادت ڈال لیں ۔ مجھے یقین ہے کہ جس کے نتیجے میں عام عوام بھی پولیس کے جوانوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر نے کے لئے تیار ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :