کیا اب ایران کی باری ہے؟

ہفتہ 6 جنوری 2018

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

بھوک اورافلاس کے سامنے دنیا کے کسی قانون اور کسی طاقت کا کوئی بس نہیں چلتا۔انقلابِ فرانس سے لے کر تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار تک ہرجگہ بڑی بڑی حکومتوں اور طاقتوں کا اسی بھوک اور افلاس نے دھڑن تختہ کیا ہے۔28دسمبر2017سے تاحال ایران میں بھی بھوک اور افلاس کے ستائے لوگ ایرانی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔جوہرروز صبح سے شام تک سڑکوں پر نکل کر ایرانی حکومت سے اپنی غربت اور بھوک کا حساب مانگ رہے ہیں۔

ایران کے90سے زائدچھوٹے بڑے شہروں میں نکلنے والے ان احتجاجی مظاہروں میں حکومت وقت سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ ان کی دولت کو کیوں عراق،شام،لبنان اور یمن میں خانہ جنگی کی نذرکردیاگیا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں شدت بڑھ رہی ہے اور2 درجن سے زائد لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

حکومتِ ایران کی طرف سے مظاہرین کو روکنے کے لیے بھرپور طاقت کا استعمال کیا جارہاہے۔

سوشل میڈیا سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی جانبداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے حقائق کو چھپا رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر ایرانی حکومت نے ایساکیا کردیا جس پر ایران کی عوام سراپا احتجاج ہیں؟کیا واقعی ایرانی حکومت نے عوام کو بھوک اور افلاس سے دوچار کرکے ایران کی ساری دولت شام،عراق،یمن اور لبنان جیسے ملکوں میں جھونکی ؟۔


اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ساڑھے چھ سالوں میں ایران نے سالانہ 6.35بلین ڈالر سے زائد رقم شامی خانہ جنگی میں خرچ کی۔ایرانی سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق 3.6بلین ڈالر2013میں،1بلین ڈالر2015میں ایرانی حکومت کی طرف سے مختلف اشیاء کی مد میں شامی حکومت کو دیے گئے۔جب کہ 4.6بلین ڈالرکااسلحہ اس کے علاوہ ہے ،جو شامی حکومت کو ایران کی طرف سے سپلائی کیا گیا۔

شامی خانہ جنگی میں ایران کے 70ہزار سے زائد باشندے شریک ہیں۔جن میں ایرانی پاسداران انقلاب اور ایرانی فوج کے 15ہزار سے زائد اہلکارشامل ہیں۔جب کہ افغانستان ،پاکستان اور دیگر ملکوں سے لڑنے کے لیےآنے والوں کی تعداد اَن گنت ہے،جنہیں ایرانی فوج باقاعدہ تربیت دے کر شامی خانہ جنگی میں لڑواتی رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ان لڑنے والوں کو ایران کی جانب سے ماہانہ 300 ڈالر سے زائد معاوضہ،رہائش ،سفری ضروریات اور ہتھیاروں کی مد میں بے پناہ تعاون دیا جاتاہے۔

جب کہ مرنے والوں کے لواحقین کو 5000ڈالر سے زائد کا معاوضہ ملتاہے۔یہ وہ رقم ہے جو صرف فوجی اخراجات کی مد میں ایران نے شامی خانہ جنگی کے دوران صرف کی۔جب کہ اربوں ڈالر اس کے علاوہ ہیں جو ایران نے شام میں انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے بشار الاسد حکومت دیے ۔ شامی خانہ جنگی میں 3000سے زائد ایرانی پاسدران انقلاب اور دیگر ایرانی فوج کے لوگ مارے گئے،جن میں بڑے بڑے جرنل اور بریگیڈئر بھی شامل ہیں۔

جب کہ دیگر ایرانی ملیشیات کے 9000 سے زیادہ لوگ مارے گئے ۔
شامی خانہ جنگی میں ایران کی خرچ کی گئی مالی وافرادی قوت کے مختصر جائزےکے بعد اگر عراق ،یمن جنگ اور دیگر ملکوں میں ایران کی حمایت یافتہ اور بنائی گئی تنظیموں جیسے حزب اللہ،حوثی ملیشیا وغیرہ کو دی جانے والی مالی امدا د کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ شامی خانہ جنگی سے کئی گنا زیادہ بنتاہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف حزب اللہ کو ایرانی حکومت کی طرف سے سالانہ 60 ملین سے 1بلین ڈالرتک براہ راست امداد ملتی ہے۔اس کا اقرار حزب اللہ کے ذمہ دار حسن نصراللہ نے بھی ایک ویڈیو کلپ میں کیا۔جب کہ اقوام متحدہ اور بین الاقومی اداروں کے مطابق یمن میں حوثی ملیشیاکو 2015سے اب تک اسلحہ اور مالی تعاون سارا کاسار اایران سے مل رہاہے۔عراق میں اگرچہ اعلانیہ ایران 2014کے بعد داخل ہوا۔

مگر امریکا کی عراق پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد عراق میں 100000سے زائد ایرانی باشندے اور دیگر ملکوں سے آئے ایران کے تربیت یافتہ لوگ گزشتہ کئی سالوں سے لڑ رہے ہیں،جن کے اخراجات کا بوجھ ایران اٹھا رہاہے۔عراق میں براہ راست ایرانی فوج کے علاوہ ایران کی حمایت یافتہ چند ایسی تنظیمیں ہیں جنہیں ماہانہ کئی کئی ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔برطانیہ کے مشہور اخبار گارڈین کے مطابق "عصائب أہل الحق "نامی عراقی ملیشیا جسے 2006میں بنایا گیا اور اسے عراقی حکومت کی بھرپور سپوٹ حاصل ہے ۔

یہ ملیشیا2014ء سے پہلے تک ماہانہ2ملین ڈالر کے لگ بھگ ایران سے وصول کرتی رہی ہے۔عراق میں ایرانی فوج کے کیپٹن،کرنل،بریگیڈئر،بریگیڈئر جرنل تک مارے گئے ہیں۔جن میں قدس فورس کا55سالہ بریگیڈئیرجنرل حمید تقوی،سپاہ پاسدران انقلاب نامی ایرانی فوج کا دوسرا بریگیڈئر جنرل خیراللہ احمدی سمیت 43 کے قریب بڑے بڑے عہدیدار مارے گئے۔جب کہ مارے جانے والے عام ملیشیاء اور تنظیموں کے لوگ اِن کے علاوہ ہیں۔


ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایران میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا جائزہ لیا جائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ایران میں غربت اور افلاس کی وجہ ہی سے مظاہروں کی نوبت آئی ۔کیوں کہ ایرانی حکومت نے اپنی عوام کی خدمت سے زیادہ بیرونی جھگڑوں میں ایران کی دولت کو لٹادیا۔ جب کہ دوسری طرف احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض مظاہرین نے مرگ برخامنائی ،مرگ بر حسن روحانی کے نعرے بھی لگائے۔

جب کہ کچھ لوگوں نے موجودہ ایرانی حکومتی نظام کے خلاف بھی احتجاجی نعرے لگائے ۔اب سوال یہ ہے کہ ا ن مظاہروں کا اصل ہدف کیا ہے؟کیا عرب بہار کی طرح ان مظاہروں کی آڑ میں کہیں تیونس،لیبیا،مصر،عراق،شام اور یمن کے بعد اب ایران کی باری تو نہیں؟۔نائن الیون کے بعد مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورتحا ل کا جائزہ لیا جائے تو یکے بعد دیگر ے جس طرح قدرتی وسائل سے مالال مال خطوں پر عالمی غارت گروں نے یلغار کی ،اس سے یہی لگتاہے کہ شام ،عراق،لیبیا کے تیل اور معدنیات کے کنوؤں پر قبضہ کرنے کے بعد اب ایران اور سعودی عرب کے گرد گھیرا تنک کیا جارہاہے۔

گریٹر اسرائیل کی صورت عالمی حکومت کے دعویدار صہیونیوں کی ترتیب میں یہ دونوں ملک شامل ہیں۔مگر پہلے کس پر ہاتھ رکھنا ہے، موجودہ احتجاجی مظاہرے اگر بروقت ختم نہ ہوئے توایران کی باری میں کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہے گا۔اس کی وجہ تو یہ ہے کہ ایران نے خود جلتی آگ میں چھلانگ لگائی ۔ظاہر سی بات ہے کہ دوسروں کے گھر میں آگ لگانے سے ایک نہ ایک دن اپنے گھر کو بھی آگ لگتی ہے۔

دوسری بڑی وجہ عوام کے حقوق کا خیال نہ رکھ کر اور انہیں بے جاخطرناک پابندیوں میں جھکڑ کر موجودہ ایرانی حکومت نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ایرانی دارالحکومت تہران میں سنیوں کے لیے ایک مسجد تک بنانے کی اجازت نہیں۔اب یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور ایران کو بڑی تباہی سے بچائے۔

اگرچہ مغرب کی ابھی تک یہ خواہش ہے کہ ایران کا موجودہ نظام حکومت برقرار رہے ۔کیوں کہ ان کی ترتیب کے مطابق پاکستان،ترکی اور سعودی عرب کو اس نظام کے ذریعے شکار کرنا ابھی باقی ہے۔امریکا اور ٹرمپ کے پاکستان اور ایران مخالف حالیہ بیانات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔بہرحال اب بھی وقت ہے کہ شام،عراق،لبنان،یمن کی خانہ جنگیوں اور دیگر ملکوں میں پراکسی وار سے ایران خود کو الگ کرکے نئے سرے سے اسلامی دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو مضبوط کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کو خوشحال کرنے کے لیے جبرواستبداد اور روایتی تفریق اور فرقہ واریت کا خاتمہ کرکے ملکی امن وامان کو مستحکم کرے۔ورنہ اگر موجودہ حالات پر قابو نہ پایا گیا ،تو عالمی غارت گروں نے جس طرح صدام حسین،معمرالقذافی،علی عبداللہ صالح صالح،حسنی مبارک،زین العابدین بن علی اور بشار الاسد جیسے طاقتور حکمرانوں کی ناک رگڑوائی، کوئی بعید نہیں کہ اب کی بارنمبر علی خامنائی اور حسن روحانی کا لگاکر لیبا،شام ،عراق اور یمن کی طرح ایران کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :