اسلامی ممالک سے اسرائیل کے بڑھتے تعلقات اور مشرق وسطیٰ

پیر 24 جولائی 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

پاکستان ،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے تین ایسے اہم ممالک ہیں جن کو دنیا میں اسرائیل کا سخت دشمن باورکیاجاتاہے۔تینوں ممالک نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ،نہ اپنے شہریوں کواوراسرائیلی شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک آنے کی اجازت دی ہے۔لیکن اس کے باوجود سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے ماضی میں دعوی کیا تھا کہ دونوں ملک ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف مثبت تعلقات رکھتے ہیں۔

بعدازاں دونوں ملکوں نے اس دعوی کو من گھڑت قراردیے کر اس کی تردید کردی۔اس کے علاوہ 16اپریل 2016کو اسرئیلی اخبار Haaretzنے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ1981میں میزائل سے لدا اسرئیلی بحری جہاز بحراحمر میں تیران اورصنافیر نامی جزیروں کے پاس سعودی سمندری حدود میں فنی خرابی کے باعث پھنس گیا تھا، جسے نکالنے کے لیے سعودی عرب نے اسرائیل اور امریکا کی مدد کی تھی اوریہ آپریشن خفیہ رکھا گیا تھا۔

(جاری ہے)

یادرہے سعودی ذرائع نے اس رپورٹ کی بھی تردید کی ہے۔حال ہی میں بین الاقوامی جریدے بلومبرگ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکام سعودی عرب سے فضائی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں جس کے لیے تل ابیب سے مدینہ منورہ اورمکہ کے لیے حج فلائٹس سے آغاز کیا جائے گا۔کیوں کہ ہرسال 6000اسرائیلی عرب مسلمان حج کرتے ہیں، جوبسوں یااردن ائیرپورٹ سے جاتے ہیں۔

ان کی سہولت کے لیے اب اسرائیل تل ابیب سے براہ راست حج فلائٹ شروع کرنے کے خواہاں ہے۔اس کےعلاوہ اسرئیل سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں ۔تاہم ابھی تک سعودی ذرائع سے اس خبر کی تصدیق یاتردید سامنے نہیں آئی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب شروع سے اسرائیل کا سخت دشمن رہا ہے۔فلسطینیوں کی حمایت اور مالی مدد میں بھی سعودی عرب ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔


جہاں تک بات ہے متحدہ عرب امارات کی ،تو بظاہر اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے ۔کئی بار متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی شہریوں کو ویزہ دینے سے انکار کیا۔لیکن 2010میں پہلی بار اسرائیلی وزیرنے دبئی میں منعقدایک کانفرنس میں شرکت کی۔جنوری 2016 میں بھی اسرائیلی توانائی کے وزیردبئی کادورہ کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ جنوری 2017میں امریکا میں اماراتی سفیر یوسف العتیبی کی ای میلز ہیکروں نے امریکی میڈیا کوسینڈ کیں ،جس میں متحدہ عرب امارات کے FDDنامی ایک تھنک ٹینک تنظیم کے ساتھ تعلقات کوظاہرکیاگیا۔

اگرچہ ابھی تک امارات نے اسے پروپیگنڈا قراردے کراس کی سختی سے تردید کی ہے۔اس کے علاوہ 2016میں امارات پاکستان اور اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکامیں مشترکہ جنگیں مشقوں میں بھی شرکت کرچکاہے۔
رہی بات پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی توپاکستان نے شروع دن سے اسرائیل کو ناجائز اور غاصب ریاست ماناہے۔اگرچہ بین الاقوامی میڈیا میں یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے شروع دنوں میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ گروئین نے بانی پاکستان قائداعظم کوخفیہ میسج دیا تھا کہ وہ پاکستان کوآزاد ملک تسلیم کرتے ہیں بدلے میں پاکستان بھی اسرائیل کو جب آزاد ہوتوتسلیم کرے،لیکن بانی پاکستان نے صاف انکار کردیاتھا۔

بعدازاں غدارملت وزیرخارجہ پاکستان ظفراللہ خان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے شدید خواہش مند تھے لیکن پاکستانی قوم نے ان کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔سوویت یونین جنگ میں پاکستان اور اسرائیل کی ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی خبریں بھی تاریخ کاحصہ ہیں کہ دونوں نے افغانستان میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگی تعاون کیااورضیاء الحق کے بارے کہاجاتاہے کہ وہ اس میں پیش پیش تھے۔

لیکن یہ خبریں اس وجہ سے بے بنیاد ٹھہرتی ہیں کہ 1980 میں انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ وہ پاکستان میں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرے جس طرح اسرائیل نے عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرکے اس کو تباہ کیا تھا،بھلاپاکستانی فوج ایسے لوگوں کو برداشت کرسکتی تھی؟البتہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے بین الاقوامی تجزیہ نگار یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے پرجوش حامی رہے ہیں۔

جب کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف واحد پاکستانی صدر تھے جنہوں نے اعلانیہ طور پراسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کااعلان کیا تھا۔یہی وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیاتھا۔لیکن مشرف کی اسرائیل نواز پالیسیوں کو پاکستانیوں نے رد کردیا اور مشرف اپنی خواہشات کو لیے پاکستان سے رخصت ہوگیا۔بی بی سی کے مطابق2005میں پہلی بار دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ترکی میں ملے اور پاکستانی وزیرخارجہ نے اسرائیل سے تعلقات کی حامی بھری۔

2010میں امریکی ذرائع نے انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے انڈیا میں ہونے والی دہشت گردی کے خدشے کے حوالے سے خفیہ معلومات امریکہ کے توسط سے اسرائیل کو دی تھیں،تاہم ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔2015میں ایک اسرائیلی سائنسدان نے لاہور میں منعقد ہونے والے سائنس کانفرنس میں شرکت بھی کی۔دوسری طرف پاکستان نے عرب اسرائیل جنگ اور لبنان اسرائیل جنگ میں شرکت کی تھی اور اسرائیل کے جہازوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔


ان سب باتوں کے باوجود دیکھاجائے توپاکستانی قوم اسرائیل سے شدید نفرت کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن اسرائیلی مظالم کے خلاف پاکستانی احتجاج کرتے رہتے ہیں اور اسرئیلی پرچم نذرآتش کرتے ہیں۔اسرائیل سے نفرت کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کا قبلہ اول فلسطین پر ظالمانہ قبضہ اور دوسرا انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان مخالف سازشیں ہیں۔تاریخی طور پر دیکھاجائے تو اسرائیل شروع سے انڈیا کادایاں بازو رہاہے ۔

چنانچہ انڈیا آج بھی سب سے زیادہ اسلحہ اسرائیل سے خریدتاہے۔حالیہ نریندر مودی کے دورہ اسرائیل سے پاکستان مخالف دونوں کے خطرناک عزائم بھی ظاہر ہوچکے ہیں۔اس دورے کے دوران جہاں مودی نے فلسطین سے نفرت کا اظہار کیا وہیں اسرائیل کو یقین دلایا کہ فلسطین آپ کے لیے کشمیر کی مانند ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے اسرائیل کبھی بھی موزوں ثابت نہیں ہوسکتا اور نہ پاکستان کو اس کی امید رکھنی چاہیے۔

البتہ بعض عرب ممالک کی اسرائیل سے حالیہ قربتوں کی وجہ سے یہ خدشہ بڑھنے لگا ہے کہ پاکستان بھی اسرائیل کے بارے نرم خو ہوجائے گا۔
بہرحال اسلامی دنیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسرائیل کے حالیہ تعلقات سے اگرچہ اسلامی دنیا کو عارضی کوئی فائدہ ہوجائے، لیکن نقصان کا خطرہ دائمی ہے۔کیوں کہ یہودیوں کی سرشت میں بدعہدی اور حسد شامل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ اپنے وعدوں سے انحراف کیا اور پھر امت مسلمہ کے ساتھ یہود کی ازلی دشمنی سب پر عیاں ہے۔

ان حقائق سے یہ واضح ہوتاہے کہ اسرائیل کے اسلامی دنیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے خطرہ اسلامی دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کوبہت زیادہ ہے۔خدانخواستہ اگر یہ تعلقات مزید بڑھتے رہے تو گریٹراسرائیل کا راستہ ہموار ہوتاچلاجائے گا اور یکے بعد دیگر ے مشرق وسطی ٰ کے اسلامی ملک ٹوٹتے جائیں گے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :