اسلامی ممالک سے اسرائیل کے بڑھتے تعلقات اور مشرق وسطیٰ.پہلی قسط

بدھ 19 جولائی 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہود شروع دن سے دنیا میں بالادستی کے خواہاں رہے ہیں۔لیکن خدائی احکامات سے انحراف،بددیانتی،بدعہدی ،حسد،عصبیت اور قومیت کے غرور کی وجہ سے ہمیشہ ذلت ومسکنت ان کا مقدر ٹھہری۔چنانچہ قرآن کریم جابجا یہودیوں کی اس بری روش سے مسلمانوں کو آگاہ کرکے ان کے شرسے بچنے کی تلقین کرتاہے۔سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ نے امت کو یہ پیغام دیا کہ یہودونصاری مسلمانوں کے ہرگزخیرخواہ نہیں ہوسکتے۔

ارشادفرمایاکہ "یہود ونصاری مسلمانوں سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک وہ ان کی دین کی پیروی اختیارنہ کرلیں"(البقرۃ:120)۔دوسری جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ "(مسلمانو!)اہل کتاب(یعنی یہودونصاری)اپنے دلوں کی حسدکی بناپریہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعدتمہیں پلٹا کر پھرکافربنادیں"(البقرۃ:109)۔

(جاری ہے)

ایک اورجگہ یہودیوں کی حقیقت اس طرح بتائی کہ" (وہ)یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے کفر کواپنالیا ہے اسی طرح تم بھی کافربن کر سب برابرہوجاؤ"(النساء 89)۔

یہودونصاری سے برت برتاؤ کے حوالے سے مسلمانوں کو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ایک سنہرااصول یہ بتایا کہ"اگرآپ نے وحی کے علم (یعنی قرآنی حقائق و ہدایات )کے باوجود بھی (بالفرض)یہودونصاری کی خواہشات کی پیروی کرلی توتمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا،نہ کوئی مددگار"(البقرۃ:120)۔یہ وہ حقائق ہیں جواللہ نے یہود ونصاری کے حوالے سے قرآن میں بتائے۔


آج دنیا میں یہودیوں کی ترجمانی اسرائیل کررہاہے۔دنیا میں 15ملین کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں جن میں سے6ملین سے زیادہ یہودی اسرائیل میں اور 5ملین کے قریب امریکا میں آباد ہیں۔اگرچہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کو مقدس زمین سمجھ کر اپنا پیشوا مانتے ہیں ،لیکن اندرونِ خانہ یہودیوں میں شدید قسم کی فرقہ واریت پائی جاتی ہے۔جس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیل کے آرتھوڈوکس یہودیوں اور امریکا کے لبرل یہودیوں کے مابین صرف اس بات پر شدیدقسم کی مذہبی جنگ چھڑی ہوئی ہے کہ دیوارِمقدس کے پاس مردوخواتین مخلوط عبادت کرسکتے ہیں یا نہیں؟۔

بہرحال شدید قسم کی فرقہ واریت کے باوجود دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کے لیے یک جا اور متحدنظرآتے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل بھی دنیا بھر کے یہودیوں کی دیکھ بھال اور انہیں اسرائیل میں آباد کرنے کی خاطر نہ صرف بھاری سرمایہ خرچ کرتاہے، بلکہ حسب ضرورت ان کے لیے لڑائی بھی لڑتاہے۔ایک طرف یہودیوں کی باہمی اخوت کا یہ عالم ہے، دوسری طرف مسلمانوں کی افسوس ناک صورت حال ہے،جہاں اجتماعی سطح سے لے کرانفرادی سطح تک باہمی اختلافات اور تنازعات کی لمبی داستانیں ہیں۔

نوبت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ انفرادی ومعاشرتی تنازعات اب ملکوں تک جاپہنچے ہیں۔چنانچہ خلیجی اسلامی ممالک کا حالیہ تنازع اسلامی دنیا پر ایک بدنما داغ ہے،جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر عالم اسلام کی خوب جگ ہنسائی ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے سابق وزیردفاع نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں خلیجی ممالک کے باہمی اختلاف پرحیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بائیکاٹ اسرائیل کے لیے واقعی نیک شگون ہے۔

اس بائیکاٹ سے اسرائیل کے لیے اسلامی دنیا سے تعلقات قائم کرنا بہت آسان ہوگیا ہے اوراس طرح اسرائیل اسلامی دنیا تک جلد اپنے اہداف حاصل کرلے گا۔شاید اسی وجہ سے بین الاقوامی تجزیہ نگار پیشین گوئیاں کررہے ہیں کہ عنقریب مشرق وسطیٰ کے اہم خلیجی اسلامی ممالک اسرائیل کو آزاد ملک تسلیم کرلیں گے اوراسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے نئے اتحادیوں کے ساتھ بہترین دفاعی واقتصادی تعلقات قائم کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنااثرورسوخ مزیدپختہ کرلے گا۔

امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حالیہ خلیجی ممالک اور قطر کے اختلافات کے پیچھے اسرائیل ہے۔عالمی تجزیہ نگاروں کی ان پیشین گوئیوں کی تصدیق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ایک سابقہ بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے مبہم انداز میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہاتھا کہ مشرق وسطیٰ کے اہم خلیجی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے اب بھی بہترین تعلقات قائم ہیں اگرچہ بعض وجوہات کی وجہ سے ان تعلقات کو ظاہر نہیں کیا جارہا۔

اپنے جواب کی مزید وضاحت کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ دراصل یہ تعلقات شدت پسنداسلامسٹوں ،داعش اور دیگر شیعہ سنی دہشت گردتنظیموں کے حوالے سے قائم ہیں۔
اسرائیل کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کامختصرا جائزہ لیا جائے تو اب تک مجموعی طورپر اقوام متحدہ کے 32رکن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔جن میں 19ممالک عرب لیگ کے،گیارہ ممالک اوآئی سی کے رکن ہیں،جب کہ تین دیگر ہیں۔

ان ممالک میں سعودی عرب،پاکستان،قطر،کویت،عراق،الجزائر،لیبیا،عمان،سوڈان،شام،تیونس،عرب امارات،یمن،افغانستان،بنگلہ دیش،ملائیشا وغیرہ شامل ہیں۔یعنی مجموعی طوراکثر اسلامی ممالک نے اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں کیا،لیکن ان ممالک میں سے بہت سے ایسے ملک ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ ابتداًتعلقات قائم کیے اور پھر ختم کردیے ان میں قطر،بحرین اورایران شامل ہیں۔

قطر اور بحرین نے 1990کی دہائی میں تعلقات شروع کیے پھر چندسالوں بعد ختم کردیے۔لیکن 2011ء میں اسرائیلی اخبارHaaretzنے ویکی لیکس کے حوالے سے خبر شائع کی جس میں بتایاگیا کہ بحرین کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم ہیں۔قطر نے اگرچہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کررکھے ہیں،لیکن 2022میں قطرمیں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے قطر نے اسرائیلیوں کو قطر آنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

جب کہ ایران ترکی کے بعددوسرا اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور کافی عرصے تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔بعدازاں خمینی انقلاب کے بعد ایران نے اعلانیہ طورپربظاہر اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے،لیکن خفیہ طور پر نہ صرف خمینی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے،بلکہ بعد کی ایرانی حکومتوں نے بھی اسرائیل سے خفیہ تعلقات قائم رکھے۔

جس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ ایران نے "عراق ایران جنگ" کے دوران 1980سے 1983کے دوران محض تین سالوں میں اسرائیل سے 500ملین ڈالرکا اسلحہ خریدا۔بین الاقوامی جرید بلومبرگ نے2011میں رپورٹ شائع کی جس میں کہاگیا ہے ایرانی آئل کمپنیاں فلٹرنگ کے آلات اسرائیلی کمپنیوں سے خریدتی ہے۔المانیٹرکی2013کی رپورٹ کے مطابق ایران نے اسرائیلی ماہرین ارضیات کو سیستان کے علاقے میں آنے والے زلزلے کے مرکزی جگہ کا وزٹ کروایا تھا۔


ترکی اور مصر دوایسے ملک ہیں جن کے اعلانیہ طورپراسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ترکی واحد اسلامی ملک ہے جس کی اس وقت کی سیکولر حکومت نے 1949میں اسرائیل کو تسلیم کیا ۔اردگان دور میں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں وقتا فوقتا سرد مہری آتی رہی۔آخری بار دونوں کے تعلقات9 200 میں غزہ پراسرائیلی حملے اورپھر2010 میں ترکی کی طرف سے فلسطینیوں کی مدد کے لیے بھیجے جانے والے فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر اسرائیلی حملے کے بعد منقطع ہوئے۔

اردگان حکومت نے پہلی بار اسرائیل کے ساتھ ساٹھ سالہ تعلقات منقطع کیے ۔دونوںکے یہ تعلقات تقریباچھ سال تک منقطع رہے ۔اسرائیل نے 2013 میںاگرچہ ترکی سے معافی مانگ لی لیکن ترکی نے اسرائیل سے باقاعدہ تعلقات کا آغاز 2016ء میں کیا۔ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کاجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتے ہی کہ موجودہ ترک حکومت اور اسرائیل کے تعلقات دیگر اسلامی ملکوں اوراسرائیل کے تعلقات سے مختلف ہیں۔

ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نام پر فلسطینی عوام کی جو خدمت کررہاہے وہ کوئی دوسرا اسلامی ملک نہیں کررہاہے۔چنانچہ2005 سے ترکی کی موجودہ حکومت نے غزہ،القدس اور مغربی کنارے سمیت پورے فلسطین میں 349کے قریب فلاحی واقتصادی پراجیکٹ شروع کررکھے ہیں،جن میں ہسپتال،تعلیم،روزگار،پانی و بجلی کی سہولیات اورقدیم اسلامی ورثے کی حفاظت ایسے پروگرام شامل ہیں۔

اس کے علاوہ فلسطینی اکانومی کو سہارادینے کے لیے ترکی فلسطینی مصنوعات کو ترکی اور دیگر ملکوں تک پہنچانے میں بھی مدد دے رہا چنانچہ صرف ترکی میں پانچ سوملین ڈالر کی فلسطینی مصنوعات ہرسال درآمد کی جاتی ہیں۔فلسطین کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لے ترکی نے حال ہی میں ایک کانفرنس منعقد کی جس کا عنوان تھا کہ'' ترکی دنیا میں فلسطین کا دروازہ ہےـ ـ''اس کے ذریعے فلسطینی عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے۔

ہرسال ترکی سے ایک لاکھ کے لگ بھگ سیاح فلسطین جاتے ہیں جو ترکی کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی واحد ملک ہے جو آج بھی فلسطینیوں کوبخوشی نیشنلٹی دیتاہے۔اس وقت ترکی میں بسنے والے کئی فلسطینی ہیں جو اپنی کمپنیوں کے مالک ہیں۔اس کے علاوہ ترکی وقتا فوقتا فلسطینی مظلوموں کے لیے ضروریات زندگی سے لدے بڑے بڑے جہاز بھیجتارہتاہے۔

حال ہی میں ترکی نے فلسطین کو دس ملین ڈالر کی خطیر رقم دی ہے۔ان حقائق کی وجہ سے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کو دیگر اسلامی ملکوں کی بنسبت ایک الگ حیثیت حاصل ہے،جس میں ترکی چالاکی سے کامیاب جارہاہے۔دوسری طرف مصر واحداسلامی ملک ہے جس کی طویل سرحد اسرائیل کے ساتھ لگتی ہے۔ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ رہے۔دو جنگیں بھی دونوں نے لڑیں پھر 1979کے امن معاہدے کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات بحال ہوگئے۔

چنانچہ اس وقت اسرائیل کا سفارتخانہ مصر میں قائم ہے اور مصر کا تل ابیب میں قائم ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان2011میں تجارتی حجم 236ملین ڈالرتک ریکارڈ کیاگیا۔مصر کی موجودہ حکومت اسرائیل کے ساتھ کس قدر جھکاو رکھتی ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ حال ہی میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کو فلسطین میں ناجائز آباد کاری کرنے کے حوالے سے قرارداد پیش کی گئی تو مصرنے اس کی مخالفت کی۔اسرائیلی اخبار Haaretzنے حال ہی میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہواور مصری صدر کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم مصر کے خفیہ دورے میں عبدالفتاح السیسی سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :