عراق کی نئی تقسیم اور کردستان ریفرنڈم

پیر 11 ستمبر 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

رواں ماہ 25ستمبر کو عراق کے صوبے کردستان میں آزادی کے لیے ریفرنڈم ہونے جارہاہے۔جس میں ساڑھے پانچ ملین سے زیادہ کرد دنیا بھر سے حصہ لے رہے ہیں۔IHERCنامی ریفرنڈم کروانی والی تنظیم نے چازبانوں (کردی،عربی،ترکمانی اور اسیرین)میں بیلٹ پیپر تیار کرلیے ہیں،جس پر YESاورNoلکھا گیاہے۔ریفرنڈم کی کامیابی کے لیے کردستان اور دنیا بھر میں موجود کرد لوگ زبردست مہم چلارہے ہیں۔

کردستان گورنمنٹ کے سربراہ اورکردستان کی سب سے بڑی پارٹی KDPکے صدر مسعود بارزانی کے مطابق ریفرنڈم کامیاب ہوگا۔جب کہ اس ریفرنڈم سے ترکی اورایران سخت پریشان ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ملک اس ریفرنڈم کو رکوانے کے لیے سخت کوششیں کررہے ہیں۔گزشتہ ماہ16اگست کو 38 سال بعد ایرانی فوج کے سربراہ نے ترکی کا وزٹ بھی اسی مقصد کے لیے کیا۔

(جاری ہے)

ایرانی فوج کے سربراہ نے ترک صدر طیب اردگان سے ملاقات کے بعد متفقہ طور پر بیان دیا کہ وہ اس ریفرنڈم کو رکوانے کے لیے مل کر کوشش کریں گے۔

جب کہ عراق اور شام بظاہر اس ریفرنڈم پر نالاں ہے ،مگر تاحال ان کی طرف سے روایتی بیان کے علاوہ کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔
یورپ اور امریکا کی طرف سے بھی کردستان حکومت کے سربراہ مسعود بارزانی کو ریفرنڈم موخر کرنے کا کہا گیاہے کہ اس سے خطے میں داعش کے خلاف جاری جنگ کو نقصان ہوگا،لیکن اندرونِ خانہ یہ ریفرنڈم امریکا،یورپ اور اسرائیل کی ایماء اور آشیرباد سے ہورہاہے۔

جس کا اندازہ مسعود بارزانی کی 2005میں جارج بش اور بعد ازاں امریکی صدر باراک اوباما سے ہونے والی کئی ملاقاتوں،مسعود بارزانی کے بیان کہ "امریکا کو کردستان کی آزادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے" اور16اگست2017کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ایک بیان سے لگایا جاسکتاہے ۔جس میں انہوں نے نہ صرف کردستان ریفرنڈم کی حمایت کی بلکہ امریکا سے بھی حمایت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کردوں اور ہمارے درمیان کئی چیزوں میں اشتراک ہے۔

اسرائیلی سیاسی تجزیہ نگارایوگڈرسکن (جو عبرانی زبان میں اسرائیل سے نکلنے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر ہیں)کے مطابق کردستان ریفرنڈم کا دنیا میں سب سے زیادہ پرجوش حامی اسرائیل ہے۔25ستمبر کو ہونے والے اس ریفرنڈم سے مشرق وسطیٰ کی ازسرنو Remappingہوگی جس سے مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کے اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہوگا۔ایوگڈر سکن کے مطابق اسرائیل کردستان کی آزادی کا حامی آج سے نہیں ،بلکہ ماضی سے اسرائیل کردستان کی آزادی کا حامی رہاہے۔

چنانچہ 1950ء میں اسرائیلی مشیروں نے مسعودبارزانی کے والد مصطفیٰ بارزانی (جو کردستان کی آزادی کے پہلے عملبردار تھے)کی زبردست مدد کی تھی اور اب وہ ان کے بیٹے مسعود بارزانی کی حمایت اور مدد کررہے ہیں تاکہ 25ستمبر کو ہونے والا ریفرنڈم کامیاب ہوجائے۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موسادکے سابق اہلکار نے بھی یہ انکشاف کیا کہ موساد مصطفی بارزانی کی حمایت کرتی رہی ہے۔

رہی بات اسرائیلی ڈیفنس فورس کے سابق DGنے ایک ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئی کہی کہ اسرائیل عرب جنگ کے بعد اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے نئے اتحادی تلاش کرنے لگا تھا اس وقت سے اسرائیل کردستان کی آزادی کا حمایت کرتاآرہاہے۔ناروے میں کردستان ریفرنڈم کے حوالے سے کردوں نے ایک ریلی نکالی جس میں کرد جھنڈے کے ساتھ اسرائیلی جھنڈابھی ریلی میں شریک لوگوں نے پکڑرکھا تھا۔

1970سے1974کے درمیان عراق اور کردوں کے مابین دوسری جنگ ہوئی جس میں امریکا نے شاہ ایران کے ساتھ مل کر کردوں کوخوب اسلحہ فراہم کیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کیوں کردستان کی آزادی کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں؟اس راز سے پہلے کردستان اور کردوں کی تاریخ پر مختصر نظرڈال لی جائے تو بات سمجھنے میں آسانی رہے گی۔کردوں کی تاریخ 2 ہزارسال پرانی ہے۔

کرددراصل مشرق وسطیٰ کے شمال میں رہتے ہیں۔کردوں کی کل تعداد30سے 45ملین کے لگ بھگ ہے،جن میں سے 25فیصد کرد ترکی،16فیصد ایران،15فیصد عراق اور 6فیصد شام میں رہتے ہیں،جب کہ لبنان،آرمینیا،کویت اور یورپ سمیت دنیا بھر کے30 مختلف ممالک میں بھی کرد وں کی کثیر تعداد رہائش پذیرہے۔کرد اکثریت سنی مسلم ہیں،جب کہ شیعہ کردوں کی بھی ایک تعدادہے۔دیگر مذاہب میںagnosticism,Yazdnism,Zoroastrianism,Christianity،Judaismاور Deismشامل ہیں۔

کردستان کے نام سے اب تک دنیا میں کوئی علیحدہ ملک موجود نہیں ہے۔خلافت عثمانیہ کے سقوط تک کردعلاقہ جات خلافت عثمانیہ کے ماتحت تھے۔خلافت عثمانیہ کی بندر بانٹ کے بعد کرد علاقہ جات ترکی،شام،عراق اور ایران میں تقسیم کردیے گئے۔البتہ عراق کا ایک باقاعدہ صوبہ کردستان کے نام سے ہے جسے پہلے مرتبہ 1970ء میں خودمختار صوبہ کادرجہ ملا،امریکہ عراق جنگ کے بعد2005میں عراقی دستور میں تبدیلی کی گئی اور کردستان صوبے کو خودمختار حکومت بنانے کا اختیار دیدیا گیا جسے KRGگورنمنٹ کہاجاتاہے جس کے سربراہ مسعود بارزانی ہیں۔

اب اسی خودمختار حکومت کے ماتحت علاقوں میں آزاد کردستان کے لیے 25 ستمبر کو ریفرنڈم ہورہاہے۔عراقی کردستان کا کل رقبہ78,736 km2ہے۔جس میں ساڑھے پانچ ملین کے قریب لوگ آباد ہیں۔کردستان کا یہ خطہ بلوچستان کی طرح قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے۔جہاں دریا،جھیلیں،پہاڑ ،انڈرگراونڈ میٹھا پانی،اور معدنیا ت کے بے شمار ذخائر ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق45بلین بیرل سے زائد تیل کے ذخائر یہاں موجودہیں۔

جس کا مطلب ہے کہ دنیا کا چھٹا تیل سے مالا مال خطہ یہی ہے۔ جب کہ کرد گورنمنٹ کے مطابق گیس کے ذخائر بھی بے شمار ہیں۔تاہم سیکورٹی ایشوز کی بناپر یہاں کے ذخائر کو عالمی منڈی میں اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔جہاں تک بات ہے عالمی غارت گروں اور استعمار ی درندوں کی تو انہوں نے 1923میں Kingdom of Kurdistan کے نام سے ترکی،شام عراق اور ایران کے درمیان ایک علیحدہ ریاست کا نقشہ پیش کردیا گیاتھا، جسے اب تک ارد گرد کے ممالک کے احتجاج اور مزاحمت کی وجہ سے عملی جامہ نہ پہنایاجاسکا۔

البتہ شروع سے عالمی استعماروں نےGreater Kurdistanکی اصطلاح زندہ رکھی۔جس کی وجہ سے اب تک کئی خون ریز جنگیں اور جھڑپیں ہوچکی ہیں۔چنانچہ عراق کے خلاف کرد باغیوں کی پیش قدمی کے بعدزبردست جنگ ہوئی جس میں لگ بھگ2لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔یہی حال ترکی میںPKKکی بغاوت کے نتیجہ میں ہوا۔گریٹر کردستان کے پیچھے استعمار کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل ہے۔

جس کے لیے پلاننگ سوسال پہلے کرلی گئی تھی۔اسی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کردستان کی آزادی کے لیے اتنے پر کیوں ماررہاہے۔عراق کے بعد شام میں خانہ جنگی بڑھکانے کے پیچھے بھی اصل ہدف یہی تھا کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کے معدنیات سے مالامال خطوں کو انتشار اور خلفشار میں الجھاکر ان کے وسائل پر قبضہ جمایاجائے۔چنانچہ داعش کا ڈرامہ اور پھرموصل ،کرکوک اور عراق وشا م کے دیگر علاقوں میں داعش،القاعدہ اور جہادی گرپوں کے نام پر بین الاقوامی فوجوں کی رسہ کشی کا مقصد صرف یہی تھا۔


عراقی کردستان میں ریفرنڈم کا اصل ہدف یہی ہے کہ اسلامی ملکوں کی وحدت کو توڑ دیا جائے تاکہ ان پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے۔کردستان کی آزادی کااس کے علاوہ اور کیا ہدف ہوسکتاہے؟حالاں کہ کردوں کو عراق ،ترکی ،شام اور ایران میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔قومیت اور وطنیت کے نام پر تقسیم کا مقصد بھلا اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتاہے کہ لوگوں کو لسانیت اور قومیت کی بنیاد باہم لڑایاجائے؟شام کی صورت حال ہمارے سامنے ہے،وہاں بشارالاسد جیسے تیرہ فیصد علوی شیعوں کو حکومت د ے کر کیسے شام کو ادھیڑ دیا گیا۔

قومیت کے نام پراگر آزادی کا رواج شروع کردیا جائے تو دنیا کا ہرگاؤں اور ہرشہر آزاد ملک کا نقشہ پیش کرنے لگ جائے۔پھرغور طلب بات یہ بھی ہے کہ ریفرنڈم کایہ سلسلہ اسلامی ممالک میں ہی کیوں چل نکلاہے؟آخر کیا وجہ ہے کہ سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کامیاب نہیں ہوتا ،مگرمشرقی تیمور سے لے کر جنوبی سوڈان تک یہ ریفرنڈم کامیاب ہوجاتاہے؟سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ ریفرنڈم کردستان میں تو کروایا جاتاہے کہ مگر مقبوضہ کشمیر میں 70 سال کے ظلم وستم کے باوجود عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی طرف سے کوئی فیصلہ کن آواز اٹھائی جاتی ہے ،نہ ظلم وجبر سے آزاد کروانے کے لیے کسی ریفرنڈم کی حمایت کی جاتے ہی۔


بہرحال حقیقت یہ ہے کہ فی الحال یہ ریفرنڈم عراقی کردستان میں ہورہاہے اور بظاہر عراقی کردوں کو آزادی کا یقین دلایا گیا ہے۔لیکن مستقبل میں جہاں اس ریفرنڈم کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے،وہیں کردستان کے لیے بھی غیروں کے من مانی خواہشات ماننا پڑیں گیں۔جس سے ترکی،ایران،عراق اور شام سمیت پورا مشرق وسطیٰ متاثر ہوگا۔کیوں کہ ظاہر بات ہے کہ عراقی کردستان کی طرح ایرانی،ترکی اورشامی کرد وں کوبھی آزادی کاخواب دکھایاجائے گا ،جس کے بعدان ملکوں میں خون ریز جھٹرپیں ہوں گی،جس سے نہ صرف پورے خطے میں بدامنی اور فساد پھیلے گا،بلکہ ان ملکوں کی دفاعی اور معاشی طاقت پر بھی برااثر پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :