انصاف کیوں بکتا ہے؟

منگل 18 مارچ 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

آسمان لرز رہاہے،زمین کانپ رہی ہے ،دنیاچیخ رہی ہے،قوم رو رہی ہے۔درودیوار نوحہ کناں ہیں،قریہ قریہ غم سے نڈھال ہے،ہر طرف صف ِماتم بچھی ہے۔اجالے ہوں یا اندھیرے ،دن ہو یا رات ،ہر گھڑی ایک المناک حادثہ رونما ہوتا ہے اور کائنات کے ذرے ذرے کو رلادیتا ہے۔کبھی راہ چلتے ابن ِ آدم کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے تو کبھی حصولِ علم کی تمنالیے مکتب جانے والی حوا کی بیٹی کو تڑپادیا جاتا ہے ،کبھی خاندان کی کفالت کرنے والے غریب نوجوان کو بے قصور ماردیا جاتا ہے تو کبھی رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے جانے والے مظلوم مسلمان کو گولیوں سے بھون دیاجاتاہے،کبھی خدا کے دین کے علمبرداروں کو مشقِ ستم بنایا جاتا ہے تو کبھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے قربانیاں دینے والوں کے چیتھڑے اڑادیے جاتے ہیں،کبھی خداکے نیک بندوں کو گھروں سے اٹھا کر تختہ مشق بنایا جاتا ہے تو کبھی معصوم بیٹیوں کو چند ٹکوں کے عوض اللہ کے دشمنوں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتاہے۔

(جاری ہے)

ہر طرف ظلم وستم ،بے یارومددگار مظلوموں کی آہ وبکاء،ظالموں کی پشت پناہی ،درندوں کی آوٴ بھگت،مقتدراداروں کی ملی بھگت،منصفوں کی انصاف فروشی اور غفلت میں ڈوبے مسلمانوں کی خاموشی سے ہرذی شعور کی روح تڑپ رہی ہے۔
چند دن ہونے کو ہیں میرے ملک میں،جہاں لاالہ الا اللہ کی صدائیں ہر وقت سنائی دیتی ہیں،جس کی اساس میں کلمہ توحید کی طاقت ہے،جس کی آبیاری مسلمانوں نے اپنے خون سے کی ہے،جس کے آنگن میں اللہ ورسول کی دی ہوئی تعلیمات کی محافل جمتی ہیں،اس ملک میں ایک معصوم حوا کی بیٹی کی عصمت کو تار تار کیا جاتاہے ۔

ستم بالائے ستم یہ کہ مظلوم بیٹی کی داد رسی کی بجائے ،ظالم درندوں کی آوٴبھگت کی گئی۔اپنوں کی بے حمیتی اورمنصفوں کی انصاف فروشی سے دلبرداشتہ ہو کر حواکی بیٹی نے خود سوزی کرلی۔ انصاف فروشی ،ظالموں کی پشت پناہی اور مظلوموں کی بے توقیری جیسے واقعات کی فہرست کافی طویل ہے۔ اس طویل فہرست کا نتیجہ ہے کہ آئے روز حواکی بیٹیوں کی عصمت دری معمول بنتی جارہی ہے ،قتل وغارت گری کا سیلاب بحرِ بے کراں بنتا جارہاہے ،بدامنی اورلاقانونیت سے فضاء مکدر ہوتی جارہی ہے۔

اگر ملک کے ان گھمبیر مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انصاف فروشی اور ظالموں کی پشت پناہی نے ان مسائل کو پنپنے دیا ہے۔بدقسمتی سے آج تک اس ظلمِ عظیم پر کسی حکومت نے سنجیدگی سے غور کیا ہے ،نہ کسی سیاسی تنظیم نے اسے کوئی اہمیت دی ہے۔وقتی طور پر مظلوموں کے سروں پر ہاتھ رکھنا،فوٹوبنوانا،قومی خزانے سے امداد کے نام پر ظلم کی قیمت چکانا اور رسمی بیانات جاری کرکے اپنی موجودگی کے احساس دلانے کے سو اکوئی مضبوط پیش رفت نہیں ہوئی ۔

انصاف اور حقوق کی بروقت فراہمی نہ صرف ریاست کا فرض ہوتا ہے بلکہ کسی بھی ریاست کی بقاء کے لیے ناگزیر ہوتاہے۔اگرتاریخ کی ورق گردانی کریں تو بے شمار ایسی ریاستیں نظرآئیں گی ،جو تمام تر مادی وسائل اور اسبا ب کے باوجود محض انصاف فروشی کی وجہ سے پاش پاش ہوگئیں۔لیکن یہ المیہ ہے کہ تاریخ سے بہت کم لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔
آج پاکستان میں جس بے دردی سے انصاف کاخون کیا جارہاہے شاید ہی کسی ملک میں ایسا ہوتاہو۔

انصاف فراہمی کے تمام تر اسباب اور وسائل کے باوجود مظلوموں کوانصاف نہ ملنا اور انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی اور خودسوزی جیسے واقعات کا رونما ہوناہمارے لیے جہاں بدنامی کا باعث ہے وہیں ہماری تنزلی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ جمہوریت ،عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کے باوجودانصاف فروشوں کے خلاف کاروائی نہ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔اگر واقعی یہ ادارے آزاد ہیں اور ہیں تو پھر مشرف جیسے غدار مجرم کو سنگین جرائم کی سزا کیوں نہ دی جاسکی؟ڈاکٹر عافیہ صدیقی جسے پوری دنیا بے قصور سمجھتی ہے اسے کیوں نہ آزاد کرایا جاسکا؟لاپتہ افراد کو کیوں بازیاب نہ کروایا جاسکا؟ملکی جیلوں میں آٹھ ہزار سے زائد پھانسی کے مجرموں کو چھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پھانسی کیوں نہ دی جاسکی ؟کراچی میں خون ریزی کرنے والے عناصر کی نشاندہی کے باوجود اب تک کیوں کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا؟ملک کو لوٹنے والے کرپٹ سیاستدانوں کی تجوریوں سے قوم کا پیسہ کیوں نہ نکلوایا جاسکا؟۔


افسوس !ہمارے ملک میں طبقاتی تفریق کے ناسور نے امیر وغریب کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل کردی ہے۔سیاست اورمذہب کے نام پربرپا کی جانے والی فرقہ واریت نے قوم کے پاوٴں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔بے حسی اور غفلت نے ظالموں ،انصاف فروشوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ انصاف اس وقت تک نہیں بکتا ،جب تک انصاف مانگنے والے خود انصاف کے دامن کو داغ دار نہ کریں۔

آج اگر مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا اس کی ذمہ دار ی پوری قوم اور معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔کیوں کہ معاشرہ اورقوم ایک جسم کی مانند ہے۔مظلوم خواہ حوا کی بیٹی ہو یا ابن آدم وہ اس جسم کا ایک عضو اور جزو ہے ۔اگر جسم کے ایک عضو میں درد یا تکلیف ہوجائے تو پورے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ لیکن شاید یہ ہمارا ملک اور ہمارا’ ’جسم “ہے جس میں ایک عضو کی تکلیف کا اثر پورے جسم کو بے چین نہیں کرتا،یا پھر یہ اس جسم کی بے حسی اور ناتوانی ہے کہ وہ اس درد کو محسوس نہیں کرپاتا۔

اس لیے اگر ہمارے ہاں مظلموں کو انصاف نہیں ملتا تو اس کی ایک وجہ جسم کے ایک عضو کو تنہا چھوڑ دیناہے۔ظاہر ہے ”مکا “پانچوں انگلیوں سے مل کر بنتا تنہاایک انگلی میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ ظالم کو ظلم سے روک سکے،تنہا ایک مظلوم کی آہ میں اتنی قوت کہاں کہ وہ مظلوموں کو کٹہرے میں لاسکے۔بحثیت قوم یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی قوم کے ایک فرد کو یکجا ہو کر انصاف دلایاجائے اور ” جسم “کے کسی عضویا جزو کو درندوں ،ظالموں اور انصاف فروشوں کے نوچنے سے بچایا جائے۔ مظلوموں کی داد رسی کا بہترین حل یہی ہے کہ پوری قوم اور معاشرے کو ایک جسم کی مانند ہو کر اپنے جسم کے ان اعضاء کو نوچنے والے درندوں کے خلاف منصف اداروں سے انصاف دلائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :