داعشی ریاست کا خاتمہ اور انبیاء کے شہر موصل کی تباہی!

جمعہ 14 جولائی 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

10جولائی کادن امن وسلامتی کے نام نہادعلمبرداروں کے لیے خوشی کادن تھا،جب عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے عراق کے دوسرے بڑے تاریخی شہرموصل میں داعش کے خلاف گزشتہ تین سال سے جاری جنگ جیتنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج سے داعش کی ریاست کا خاتمہ ہوگیاہے۔عالمی غارت گروں کے لیے اگرچہ یہ خوشی کادن تھا، لیکن موصل شہر کے25لاکھ باشندوں کے لیے یہ دن قیامت سے بڑھ کرتھا۔

کیوں کہ اس دن داعش کے مٹھی بھر دہشت گردوں سے موصل کاقبضہ چھڑوانے کی خاطر ان 25لاکھ نہتے شہریوں کوآگ وخون کی ہولناک جنگ میں دھکیلاگیا۔بظاہر اس جنگ میں داعشی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا، لیکن مرنے والے داعشی دہشت گردوں سے زیادہ عام شہری تھے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیموں سے لے کر دنیا بھر کے منصف مزاج تجزیہ نگار وں تک ہر کوئی موصل میں برپاکی جانے والی اس قیامت ا ورسفاکیت پراب تک نوحہ کناں ہے۔

(جاری ہے)

بظاہرہدف اس جنگ کا داعش کے ٹھکانوں کوتباہ کرنا تھا، لیکن کھنڈرات عوام کے گھروں کوبنایاگیا یا پھر خداکے گھرکو۔چنانچہ موصل شہر میں 900سال پہلے بنائی گئی تاریخی مسجد ''مسجد نورالدین زنکی ـ''کوبھی اسی قیامت خیز جنگ میں شہیدکردیاگیا۔موصل شہر کی یہ وہ مسجد تھی جس کا ٹیڑھا مینارمسلسل 9صدیوں سے اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی یادتازہ کررہاتھا،لیکن بین الاقوامی درندوں نے اس تاریخی ورثے کو بھی بربریت کا نشانہ بنادیا۔

اس مینارہ کا جرم پوچھاگیاتو کہاگیا کہ "داعش کا مرکزی ہیڈکواٹر یہی مسجد تھی ،یہیں سے ابوبکرالبغدادی نے نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا،اس لیے دوران جنگ داعش نے اس مسجد کو ازخود بموں سے اڑادیا"۔جب کہ دہشت گرد داعش نے امت مسلمہ کے اس تاریخی ورثے کو ڈھانے الزام امریکہ کے 60ملکی اتحاد پر لگایا ،جنہوں نے موصل شہر میں داعشی ٹھکانوں پر جہازوں سے بمباری کے دوران خداکے اس گھر کو بھی راکھ کا ڈھیر بنایا۔


موصل کی تباہی کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟اصل حقیقت تک پہنچنے سے پہلے موصل شہر کاپس منظر جانناضروری ہے۔موصل شہر دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک شہر ہے۔آبادی کے لحاظ سے بغداد کے بعد یہ عراق کادوسرا بڑاشہرہے۔ڈھائی ملین کے لگ بھگ لوگ یہاں بستے ہیں،جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔بغداد سے465کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ شہربہترین محل وقوع کاحامل ہے۔

دجلہ اورفرات موصل شہرکی اہمیت کودوگناکردیتے ہیں ۔موصل شہر کی تعمیر کا صحیح وقت اگرچہ معلوم نہیں لیکن 1800قبل مسیح سے موصل شہر کا تذکرہ تاریخ میں ملتاہے۔روایت ہے کہ 6ہزار قبل مسیح سے یہاں انسانی آبادی کاآغاز ہوگیاتھا۔دنیا کی قدیم تہذیبوں اور مشہور حکومتوں نے موصل شہر سے پروان بھری۔چنانچہ 2ہزارسال قبل مسیح مشہورآشوری تہذیب کا آغازیہیں سے ہوا ،جس نے دنیا پر کئی سو سال حکمرانی کی۔

یہی وہ آشوری سلطنت تھی جس نے نینوی ٰ نامی مشہور شہربسایا ،جہاں اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام اور یونس علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر بھیجے۔ساسانی ،بیزنطینی اور رومی سلطنتوں نے بھی یہیں سے نشوونماپائی۔یہی وہ شہرتھا جہاں دنیا کی بڑی بڑی عالمی طاقتوں نے مشہور جنگیں لڑیں۔ان میں بیزنطینی سلطنت اور ساسانی سلطنت کے درمیان جاری رہنی والی مشہور جنگیں بھی شامل ہیں۔

قیصر وکسری کی
پنجہ آزمائی بھی اسی شہرمیں ہوتی رہی۔یہی وہ شہر ہے جہاں مسلمانوں نے روم وفارس کو شکست دی اور جنگ قادسیہ کے نام سے وہ مشہور جنگ لڑی جس کے بعد اسلام مکہ ومدینہ سے نکل کر مشرق ومغرب کی طرف پھیلنا شروع ہوا۔خلفاء راشدین سے لے کرسلطنت عثمانیہ تک موصل شہر اسلامی تاریخ وروایت میں ہمیشہ روشن کردار اداکرتارہاہے۔اس قدر تاریخی پس منظر کی وجہ سے آج بھی یہ شہردنیا کے قدیم تاریخی وتہذیبی شہروں میں شمار ہوتاہے۔

اس بات کی گواہی 900سال قبل تعمیر کی گئی مسجد نورالدین زنکی کا ٹیڑھامینارہ بھی10جولائی 2017تک دیتارہا۔دنیا کے قدیم چرچ بھی اس شہر میں پائے جاتے ہیں۔یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں یہ شہر تاریخی روایات کا حامل ہے۔یہ شہر خونریز جنگوں کے علاوہ خوانخوار فتنے بھی دیکھ چکا ہے۔جن میں خوارج اور صفویوں کا فتنہ ،منگولوں ، ترکمانوں اورجلائری خاندانوں کی فتنہ انگیزیاں شامل ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کے مشہوربادشاہ سلطان سلیمان القانونی نے اسے صفویوں سے آزاد کرواکرسلطنت عثمانیہ میں شامل کیا۔پہلی جنگ عظیم تک موصل شہرخلافت عثمانیہ میں شامل رہا۔بدنام زمانہ سائیکس پیکونامی معاہدے کے بعدبرطانیہ اور فرانس نے باہمی خفیہ معاہدہ کے بعدموصل شہرکا کنٹرول فرانس کو سپرد کردیاگیا۔موصل شہر میں پٹرول دریافت ہونے کے بعد برطانیہ نے اس پر قبضہ کرلیایہاں تک کہ 1932ء میں باقاعدہ طورپراسے عراقی حکومت کے سپردکردیاگیا۔

2003تک موصل شہرتقریباامن وامان کا گہوارہ بنارہا۔2003ء میں امریکا کے عراق پر حملے کے بعد عراق کے دیگر شہروں کی طرح یہ شہر بھی بدترین خانہ جنگی کا شکارہوگیا۔قومیت اور عصبیت کے نام پر کرد اور عراقی عرب باہم لڑتے رہے ۔یہاں تک کہ 2014ء میں داعش نے موصل شہر پر قبضہ کرلیا اور موصل شہر کی تاریخی مسجد مسجد نورالدین زنکی سے داعش نے اپنی خلافت کااعلان کردیا۔


گزشتہ تین سال سے موصل شہر داعش کا ہیڈکواٹر بنارہا۔عراقی فوج نے داعش کے خلاف لڑنے والے 60ملکی بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ مل کر کئی بار موصل شہر کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے کوششیں کیں مگرہربار ہزیمت کا سامنا رہا۔ اکتوبر2016میں عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے داعش کے خلاف زمینی اور فضائی جنگ کا آغاز کیا،جس کا اختتام 10جولائی 2017کو ہوا۔

ان نومہینوں میں فریقین کے سینکڑوں لوگ مارے گئے۔لیکن بدقسمتی سے موصل شہر کی عوام کو اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ایک رپورٹ کے مطابق اس جنگ سے موصل شہر میں بسنے والے 15لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ،جن میں سے 10لاکھ کے قریب لوگ گھر سے بے گھر ہوئے۔زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ابھی تک حتمی طور پر اس کا تعین نہیں کیاجاسکا۔

ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں مرنےوالوں اورزخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔جب کہ سینکڑوں لوگ ابھی بھی عمارتوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔موصل میں انسانیت پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کاا قرار انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حالیہ لڑائی میں عام شہریوں کی ہلاکت پر عالمی عدالت سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل میں ہونے والی حالیہ جنگ میں سنگین ہتھیار بھی استعمال کیے گئے ہیں۔دنیا بھر میں موصل کی تازہ تصاویر اورویڈیوزگردش کررہی ہیں جس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عالمی امن کے ٹھیکداروں نے داعش کے نام پرکس طر ح موصل ایسے ہنستے بستے تاریخی شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا داعش کے ہیڈکوارٹر یعنی موصل پر قبضہ کرلینے سے داعش کا زور ختم ہوجائے گا؟زمینی حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ کہاجاسکتاہے کہ داعش اگرچہ موصل سے پسپا ہوگئی ہے ،لیکن عراق کے دیگر کئی اہم علاقے اب بھی داعش کے کنٹرول میں ہیں۔

جن میں2لاکھ آبادی پر مشتمل" تلعفر "نامی شہر، کرکوک شہر کے دیہاتی علاقے، شامی وعراقی حدود کے مابین اورعراق کے کچھ مغربی علاقے شامل ہیں۔جب کہ شام میں رقہ نامی بڑا شہر تو داعش کا اس وقت سب سے بڑا ٹھکانہ بنا ہواہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ عراقی حکومت نے اس کے باوجود موصل کی آزادی کی خوشی میں ایک ہفتے کی چھٹی کا اعلان کردیاہے؟حالاں کہ داعش اب بھی عراق کے کئی علاقوں پر قابض ہے۔

داعش کے خلاف جاری جنگ میں امریکی عالمی اتحاد کی گزشتہ تین سالہ کاروائی کو دیکھا جائے تو داعش کم ہونے کی بجائے مزیدبڑھتی دکھائی دیتی ہے۔پہلے یہ عراق کے چندشہروں پر قابض تھے ،پھر آہستہ آہستہ شام اور ترکی حتی کے اب یورپ تک ان کی دہشت گرد انہ کاروائیاں پھیل گئیں ہیں۔ادھر G20کانفرنس میں ٹرمپ اور پیوٹن ملاقات میں جنوب مغربی شام میں جاری عارضی جنگ بندی سے بھی داعش کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔

اس طرح مستقبل میں داعش کی قوت شام میں مزید مستحکم ہونے کا خدشہ ہے ۔قوی امکان ہے کہ عراق کے بعد شام کے باقی ماندہ تاریخی شہروں کوبھی داعش کے نام پر موصل کی طرح کھنڈرات بنایاجائے گا۔لیکن ہم پھر بھی داعش ایسے درندوں کومارنے والوں کو خیرخواہ سمجھتے رہیں گے۔حالاں کہ کون نہیں جانتا کہ داعش لاکھوں میں نہیں،بلکہ مٹھی بھرہیں۔جب کہ مقابلے میں دنیا کی سات ایٹمی طاقتیں اور امریکہ کی سربراہی میں دیگر50سے زیادہ بہترین دفاعی قوتیں کھڑی ہیں۔

لیکن حیرت ہے کہ اس سب کے باوجود آج تک امن وامان کے یہ علمبردار ان مٹھی بھر داعشی دہشت گردوں کو شکست نہ دے سکے۔جب کہ کون نہیں جانتا کہ یہی طاقتیں اپنے ملکوں میں اٹھنے والی ہر بڑی سے بڑی بغاوت کو چند لمحات یا چنددنوں میں کچل کر رکھ دیتی ہیں۔پھرسوال یہ بھی ہے کہ داعش کا فتنہ امریکا کی عراق میں مداخلت کے بعد ہی کیوں بڑھکا؟شام میں داعش کا فتنہ شامی ڈکٹیٹر بشارالاسد کی پشت پناہی کے بعدہی کیوں پھیلا؟لیبیا میں داعشی دہشت گرد قذافی کی موت کے بعد ہی کیوں دندنانے لگے؟ْ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :