چین مسلمانوں کے خلاف امریکی نقش ِقدم پر!

ہفتہ 16 ستمبر 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چین ایشیا کا سپر پاور بن چکاہے۔دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں چین میں آچکی ہیں۔پوری دنیا چینی مصنوعات کی محتاج بن گئی ہے۔چنانچہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپوٹر چین بن چکاہے۔اسلحہ سازی اور اس کی فروخت میں بھی چین امریکا اور روس کے بعد تیسرے نمبرپر آچکاہے۔آنے والے چند سالوں میں اس میدان میں بھی چین امریکا اور روس کو پیچھے چھوڑ دیگا۔

فوربز کی رپورٹ کے مطابق منافع کمانے والی دنیا کی ٹاپ کی تین کمپنیوں میں دو صرف چائنا کی ہیں۔دنیابھر میں انویسمنٹ کے لحاظ سے بھی چین ٹاپ پر جارہاہے ۔امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں چین انویسمنٹ میں آگے آگے ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق چین امریکا کو قرض دینے والا دنیا کاسب سے بڑا ملک ہے۔جب کہ افریقا میں سب سے زیادہ انویسمنٹ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بھی چین ہے۔

(جاری ہے)

ایشیا میں بھی انویسمنٹ کے لحاظ سے چین سرفہرست ہے۔چنانچہ پاکستان میں 46بلین ڈالر کی انویسمنٹ سے سی پیک کا منصوبہ چین بنارہاہے۔جب کہ بھارت میں بھی چین امریکاکے ساتھ انویسمنٹ کرنے میں دوسرابڑا ملک ہے۔چنانچہ 2000ء سے 2017تک چین نے انڈیا میں 1.67بلین سے زائد کی انویسمنٹ کی ہے۔بھارتی وزیر کامرس نے حال ہی میں چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہاہے کہ چین عنقریب بھارت میں 51بلین تک کی انویسمنٹ کرے گا۔

بنگلہ دیش،ملائشیا،انڈونیشیا،برما ،سری لنکا،شمالی کوریا سمیت ایشیا کے چھوٹے بڑے ملکوں میں چین کی اجارہ داری بڑھتی جارہی ہے۔
بظاہر دنیا کے سامنے فی الحال چین کی سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کا شورہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چین سرمایہ کاری کی آڑ میں جہاں دنیا کی معیشت پر قابض ہوتاجارہاہے وہیں دنیا کی سیاست پربھی چین کا غلبہ بڑھتا جارہاہے۔

چنانچہ عالمی سیاسی منظرنامے میں امریکااور روس کے ساتھ چین بھی شامل رہتاہے۔شامی خانہ جنگی ہو یا عراق،لیبیا ،یمن کی تباہ حالی،شمالی کوریا کے خلاف بین الاقوامی محاذ آرائی ہو یا پھر برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم ہوں،ہرجگہ چین اپنا حصہ ڈالتارہتاہے۔اگرچہ چین عملی طور پر امریکا اور روس کے ساتھ مل کر جنگوں میں شریک نہیں ہوتامگر اقوام متحدہ کے سٹیج پر ہمیشہ چین ان قوتوں کی ہاں میں ہاں ملاتارہتاہے۔

جس کا اندازہ شام میں جاری خانہ جنگی پر اقوام متحدہ کے ہونے والے درجنوں اجلاسوں سے لگایا جاسکتاہے۔13ستمبر کو روہنگیامسلمانوں کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر اجلاس نے برما کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو بند کرے۔لیکن یہاں بھی چین نے برما حکومت کا ساتھ دیا۔اس سے پہلے بھی چین برماحکومت کی حمایت میں عالمی برادری کی تنقید کو مسترد کرچکاہے۔

برمامیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہنا اور ظالم کی حمایت کرنا گویا خود ظلم میں شریک ہوناہے۔ایسے موقع پر جب پوری دنیا انسانیت سوز مظالم پر یک آواز ہے ،وہاں چین کا ظالم برمی حکومت کا ساتھ دینا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتاہے۔
برما اور چین کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتے ہی کہ چین اور برما کے شروع سے اچھے تعلقات قائم رہے ہیں۔

اس کی وجہ جغرافیائی ہم آہنگی اور مذہبی وثقافتی یکسانیت ہے۔چین اور برما کے تعلقات کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ چین برما میں انویسمنٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔برما کی فوج کی تربیت،اسلحہ کی ترسیل،معدنیا ت کی تلاش اور دیگر کئی شعبے ہیں جن میں برما حکومت کا زیادہ ترانحصار چین پرہے۔ایک رپورٹ کے مطابق چین اور برما کے دوران سالانہ 1.4بلین سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے۔

رواں سال 70 ارب ڈالر سے زائد تجارت دونوں ملکوں کے درمیان ہوچکی ہے۔چین برما کے صوبے ارکان میں پائی جانے والی3.56کیوبک فٹ نیچرل گیس اور2ارب مکعب میٹر سے زائد تیل نکالنے میں بھی مصروف ہے۔ ارکان صوبہ برماکا ایسا صوبہ ہے جوذخائر سے مالا مال ہے،برما کی زرعی زمین کا 85فیصد صرف ارکان صوبے پر مشتمل۔ارکان صوبہ دنیا کی سب سے بڑی خلیج خلیج بنگال پر واقع ہے،جہاں سائیٹ ٹوے پورٹ کے نام سے انڈیا نے گزشتہ سال بہترین پورٹ بنائی ہے۔

اس صوبے سے تیل اور گیس کونکالنے کے لیے چین نے برما حکومت سے معاہد ہ کررکھا ہے۔اس معاہدے میں زیرسمند گیس آئل پائپ لائن بھی شامل ہے۔جو تقریبا مکمل ہوکر کام شروع کرچکی ہے۔چین کے ساتھ روس اور انڈیا بھی برما حکومت کے پکے حلیف ہیں۔چنانچہ روس چین کے ساتھ مل کر اب تک برما حکومت کی مدد کرتاآیاہے۔چنانچہ ارکان میں جاری برما حکومت کی دہشت گردی کے خلاف سلامتی کونسل کی قراداد کی مخالفت میں چین اور روس ہی تھے۔

جب کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی رواں ماہ برما کادورہ کرکے برما حکومت کے ساتھ اقتصادی ودفاعی معاہدوں کے علاوہ ارکان میں جاری دہشت گردی کی حمایت کرچکے ہیں۔
اس تفصیل کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ارکان صوبے میں جاری مسلم نسل کشی کا ہدف صرف اور صرف ارکان صوبے پر مکمل کنٹرول کرنا ہے۔چنانچہ اس صوبے میں ایک وقت تھا کہ مسلمان 90فیصد سے زائد تھے جب کہ آج یہ صورت حال بن چکی ہے کہ مسلمان 42 فیصد سے کم رہ گئے ہیں۔

25اگست کو شروع ہونے والی حالیہ برمی دہشت گردی میں اب تک 4لاکھ سے زائد ارکان چھوڑ چکے ہیں۔جب کہ ہزاروں کی تعداد میں اب بھی برمی دہشت گردوں کے حصار میں پھنسے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر چین ،انڈیا اور روس کوارکان کے مسلمانوں سے کیا دشمنی کہ وہ ان کی نسل کشی کے لیے برما حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں؟مسلمانوں کے خلاف تینوں کی مذہبی شدت پسندسوچ کے علاوہ سیاسی مفادات سرفہرست ہیں۔

ظاہر ہے ارکان میں مسلمانوں کے غلبے کو برمی حکومت اب تک برداشت کرپائی ہے اور نہ چین انڈیا اور روس آج تک مسلمانوں کی اکثریت کو اس صوبے میں برداشت کرپائے ہیں۔کیوں کہ انہیں خطرہ مسلمانوں سے یہی ہے کہ کہیں وہ ان کے سیاسی مفادات میں حائل نہ ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ چین میں اب تک مسلمانوں پر شدید قسم کی پابندیاں ہیں۔مسلمانوں کوروزہ رکھنے،مساجد بنانے سے روکاجاتاہے۔

حال ہی میں مصر کی جامعہ ازہریونیورسٹی سے مسلمان طلباء کو چین نے صرف اس وجہ سے ڈی پورٹ کرواکراپنے قبضے میں لے لیا کہ کہیں وہ واپس آکر اسلام کی تبلیغ نہ کریں ،جس سے چین کے مفادات کوٹھیس پہنچے گی۔یہی سوچ برماحکومت کی ہے،جس کے لیے وہ 1948سے اب تک مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے آئے ہیں۔رہا انڈیا تو اس کی مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
ان حقائق سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ چین بظاہر دنیا میں معاشی ترقی اور امن وسلامتی کا دعوے دار ہے،مگر درپردہ وہ دنیا پر اپنے سیاسی اور مذہبی غلبے کے لیے کوششیں کررہاہے۔

جس کے لیے وہ امریکا اور روس کی طرح انسانیت کے قتل عام بالخصوص مسلمانوں کے قتل عام کو بھی گوار الیتاہے۔چنانچہ شام اور برمامیں مسلمانوں کے قتل عام پر ظالموں کی حمایت سے اس کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اس سیاسی غلبے پر عالم اسلام کو اچھی طرح غوروفکر کرناہوگا،بالخصوص پاکستان کو اس معاملے میں زیادہ حساس رہنا ہوگا۔کیوں کہ سی پیک سے اگرچہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی اور پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائے گا ان شاء اللہ۔

لیکن ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں سی پیک کی آڑ میں چین ہم پر حاوی نہ ہوجائے اور ہم چین کی ناراضگی کی خاطر اپنی حمیت وغیرت اور آزادی تک کو نہ بھلادیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ شام کے شہر حلب میں بمباری ہوتی،اقوام متحدہ میں اس کے خلاف قرارداد پاس ہوتی ہے ،مگر چین روس کے ساتھ مل کر اس کو ویٹو کردیتاہے،سلامتی کونسل میں برمامسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف قرارد اد پاس ہوتی، مگر چین اور روس مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر چین کے اس اقدام کی مذمت کرتاہے،نہ چین کو اس بات پر قائل کرتاہے کہ وہ کم ازکم پاکستان کی دوستی کی خاطر پاکستان کے مسلمان بھائیوں کے خلاف ظالموں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے۔کیا نظریہ لاالہ الااللہ کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اتنی جرات بھی نہ رہی کہ وہ لاالہ الا اللہ کے نام لیواؤں کی خاطر ان کے دشمنوں سے بات کرسکے؟؟؟آخر ہم کس طرح دوستی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں پر ظلم کو گوارا کرنے لگے ہیں؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :