امن کا فارمولا

جمعرات 30 جنوری 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

محمد عمران ایک چھوٹے سے کریانہ سٹور کا مالک ہے۔تقریبا گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنے والد کے ساتھ کریانے کی دوکان اور کپاس کی خریدوفروخت میں معاونت کررہاہے۔محمد عمران کے ساتھ میرا تعارف چارسال قبل ہوا تھا۔اس وقت محمد عمران کی مالی حالت بہت اچھی تھی ۔جب کبھی ملاقات ہوتی ،خوشحالی کے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ،زبان پر انعامات ِباری کے تذکرے اورشکرانے کے کلمات باربارسننے کو ملتے۔

علاقے کے لوگ محمد عمران کی خوشحالی اور کردارپر ناز کرتے۔ غریب اورحاجت مند لوگ جب بھی محمد عمران کے پاس فریاد لے کر آتے تو خالی ہاتھ نہ لوٹتے ۔بہت سے غریب گھرانے محمد عمران کی دوکان سے ادھار پرراشن وغیرہ لیتے ۔محمد عمران کی سخاوت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی دیکھ کر مجھے رشک آتا اور میں دل میں یہی سوچتا کہ کاش میرے ملک کا ہر شخص محمد عمران بن جائے۔

(جاری ہے)


تین ماہ قبل محمد عمران کی دوکان پر جب میری نظر پڑی تو اوسا ن خطاہوگئے۔قریب جاکر محمد عمران سے ہاتھ ملایا تو اس کے چہرے پرپریشانی اور کسی پرانے غم کی وجہ سے آنکھوں میں سالہاسال کی اشک فشانی کے اثرات نظرآئے۔ چار سال قبل جس عمران سے میری ملاقات ہوئی تھی اس عمران کودیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر شک ہونے لگا۔دوکان کی خستہ حالی اور سامان سے لدی ہوئی الماریوں کے اجڑے پن نے میرے ذہن پر کاری ضرب لگائی کہ کہیں غلط جگہ پر تو نہیں آگیا۔

مجھے حیرت اور تجسس کے عالم میں دیکھ کر محمد عمران نے بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ” آپ چار سال پہلے والی جگہ پر ہی ہیں اورمیں محمد عمران ہی ہوں“۔یہ سب کیسے ہوا؟میں نے پوچھا۔مدنی بھائی بس اللہ آپ کوکبھی تھانے اور عدالت کا منہ نہ دکھائے۔عمران نے کہا۔بات کیا ہے،میں نے محمد عمران سے وضاحت طلب کی۔تین سال قبل میرے کزن کو علاقے کے جاگیر دار نے گولی مارکرقتل کردیاتھا۔

وہ بیچارہ اس جاگیردار کے پٹرول پم پر ملازمت کرتاتھا۔کوئی قصور ہوگا جو اس نے گولی ماری؟میں نے پوچھا۔نہیں جی قصور کچھ نہیں تھا،وہ تو معصوم تھا ،اٹھارہ سال عمرہی کیا جس میں وہ اتنا بڑا قصور کرتا جس سے اس کی زندگی کوختم کرنے کا جواز ملتا۔وہ تو یتیم تھا ،ما ں اور بہنوں کو سہارا دینے کے لیے رات گئے تک ڈیوٹی کرتا۔توآپ کے کزن کے قتل سے آپ کی یہ حالت کیوں کر ہوگئی؟میں نے بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔

مدنی بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ کتنے غریب لوگ ہمارے پاس اپنی ضروریات زندگی کے لیے راشن اور قرض طلب کرنے آتے تھے ۔وہ میرا پھوپھی زاد تھا ۔والد صاحب ان کے سربراہ تھے۔اس لیے والد صاحب نے قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا ۔لیکن تھانے والے جاگیردار کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے رہے ۔وہ معاملہ” نامعلوم “کے کھاتے میں ڈال کرجاگیردار کو بچانا چاہتے تھے ۔

آخر علاقے کے دیگر معززین کی مداخلت سے بمشکل جاگیردار کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔لیکن پولیس ملزم کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے ہمارے خلاف متحرک ہوگئی ۔جاگیردار کی ایماء پروالدصاحب کوجھوٹے مقدمات میں ملوث ٹھہراکر گرفتار کرلیاگیا۔تھک ہار کر جب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاتو الٹا ہمارے گردہی شکنجہ سخت ہونے لگا۔
میں نے کہا،عمران صاحب عدالت تو انصاف مہیاکرتی ہے کسی کی طرفداری تھوڑا کرتی ہے۔

آپ ٹھیک فرمار ہے ہیں عدالت کا کام انصاف مہیا کرنا ہے انصاف کا خون کرنا نہیں ۔لیکن شاید آپ کو کبھی انصاف کی بھیک مانگنے کے لیے عدالتوں میں جانا نہیں پڑا،اس لیے آپ اندر کی اندوہناک کہانی سے لاعلم ہیں۔آپ شاید میری بات کو مذاق سمجھ رہے ہیں۔لاکھوں روپیے کے سامان سے بھری یہ دوکان انہیں عدالتی دھکوں کی نذر ہوگئی ۔کپاس خریدنے والی دوکان آج اس لیے بند پڑی ہے کہ اس کا سارا سرمایہ اس ایک مقدمے کی پیروی کرتے کرتے بہہ گیا ۔

والد صاحب جو کبھی یہاں کیشئر کی ذمہ داری نبھاتے تھے گاؤں چھوڑ کر مزدوری کرنے کوئٹہ اس لیے گئے کہ انہوں نے لاکھوں روپیے قرض لے کر وکیلوں اور عدالتی پیشیوں پر خرچ کردیے تھے۔آپ کے سو ال ”یہ سب کیسے ہوا“کا جواب بھی یہی ”ایک مقدمہ “ ہے۔ساڑھے تین سال بیت گئے انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے ۔سیشن کورٹ اورڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر ہائیکورٹ تک اورتھانہ ،پنچایت ،کچہری غرض ہر جگہ چھان ماری کہ شاید بے گناہ مقتول کے سوال کہ” مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا“؟کاجواب مل جائے۔

لیکن افسوس حسرتوں اور مایوسیوں کے سواکچھ نہ ملا۔
محمد عمران کی درد بھری داستان سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔میں سوچنے لگاکہ چار سال قبل جس نیک خواہش کی تڑپ میری دل میں اٹھی تھی کہ” میرے ملک کا ہرشخص محمد عمران بن جائی“افسوس آج وہ تڑپ برے انداز میں پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ملک کا ہر مظلوم شخص محمد عمران بناہواہے۔ انصاف کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھا نا اس مظلوم کا مقدر بن گیا ہے۔

میں سوچنے لگاکہ جس ملک میں انصاف کا یہ حال ہو ،کہ ایک غدار ،آئین شکن ،معصوم بچے اور بچیوں،درویش صفت علماء کے قاتل اورقوم کی باحیاء غیرت مندمظلوم بیٹی عافیہ صدیقی اور ملک کی سرحدوں کے محافظ غیرت مند قبائلی عوام کی عزت آبروکا سودا کرنے والے مجرم کو شہزادوں کی طرح ٹھہرایاجائے اور لاکھوں روپیے اس کی حفاظت پر خرچ کیاجائے ،اور اس کو سزا سے بچانے کے لیے حیلے کیے جائیں تواس ملک میں امن وامان کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے ؟کس طرح فوجی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاسکتاہے؟۔


یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں عدلیہ آزاد ہے لیکن افسوس فوری اور سستا انصاف ناپیدہے۔ بے شمار مقدمات سالوں سال سے پیشیوں اور وکیلوں کی جیب خرچیوں کے لیے وقف ہوگئے ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں جاری ہونے والے عدالتی رپورٹ کے مطابق بیس ہزار کے لگ بھگ مقدمات زیر التو ا تھے ۔یہ رپورٹ سپریم کورٹ سے جاری ہوئی تھی۔چنانچہ اصل تعداد جن میں،ضلعی عدالتیں شامل ہیں ان میں زیر التو ا مقدمات کی تعدادکہیں زیادہ ہے۔

ان مقدمات پر بروقت فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں مظلوموں کی زندگیاں بربادہورہی ہیں وہیں ظالموں اور مجرموں کو جرائم کرنے کی شَہ مل رہی ہے ۔چنانچہ اگرآپ دہشت گردی کے حالیہ واقعات اورملک میں جاری گزشتہ تیرہ سال سے بدامنی ،ٹارگٹ کلنگ ،لوٹ مار جیسی واردتوں کا محرکات پر غورکریں تو ان کے پیچھے یہی نکتہ کارفرنظر آئے گا۔اس لیے ان دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات پرکنٹرول حاصل کرنے کے لیے نہ صر ف ہنگامی بنیادوں پر ان مقدمات کو نمٹانا پڑے گا،بلکہ فوری ،سستے اور پائیدار انصاف کی فراہمی کے لیے انتہائی اقدام اٹھانے سے بھی گریزنہیں کرناہوگا۔

قوموں اور ملکوں کی بقاء اورمعاشروں کا امن وامان عدل و انصاف کی فراہمی پر موقوف ہوتاہے ۔اگر آپ دنیا کے پرامن ممالک کی لسٹ اٹھاکر دیکھیں تو اس کے پیچھے فوری اور پائیدار عدل وانصاف کا فامولا ضرورنظر آئے گا۔اگر ہم اپنے ملک سے دہشت گردی اور بدامنی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس فارمولے کوضروراپلائی کرنا پڑے گااور بغیر کسی تفریق کے غداروں اورمجرموں کو کیفرکردار تک پہچانا ہوگاخواہ کوئی جاگیردار ہویا چوہدری ،جنرل ہویا صدر۔اسی میں ہماری بقاء ہے اور اسی میں محمد عمران جیسے مظلوموں کی زندگیوں کی ضمانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :