خارجہ پالیسی کیا آزاد ہے؟

بدھ 16 ستمبر 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

لگتا ہے کہ ہمارے خارجہ پالیسی بنانے والے منتشر الخیال ہیں ،انڈیا میں موجود پاکستانی سفیر بیان جاری کرتا ہے کہ کچھ لوگ دونوں ممالک میں امن نہیں چاہتے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں دوسری جانب مشیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ انڈیا کو جارحیت بند کرنا ہوگی اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق حل کرنا ہوگا گذشتہ روزملک کے اعلی تعلیمی ادارے آبی اے کراچی کے ساٹھ سالا تقریب منعقد ہوئی جس میں وزراخارجہ فورم کی اہم نشست تھی ،مہماناں میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور خورشید محمود قصوری کے علاوہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی مدعو تھے ،اور تینوں حضرات و خاتون نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی،جبکہ آئی بی اے کے ڈین ڈاکٹر عشرت حیسن نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اس اہم نشست کی نظامت ڈاکٹر ہما بقائی نے سرانجام دئیے ،خارجہ پالیسی کس طرح ہونی چاہی ہے اس پر کئی آرا مہمان نے پیش کئے جن میں سے یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہی ہے،ہم مجاہدین کو امریکہ کی مدد سے تربیت دینے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں،اور چلتے چلتے خورشید قصوری صاحب نے انڈین وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ مودی کو پالسی بدلنا ہوگی،بھارت سے جب بھی مذاکرات ہونگے کشمیر کا مسئلہ شامل ہوگا، آئی بی اے کے طلباء کی معلومات کے لئے بہت اچھی نشست تھی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کوئی مستقل ویژن ان سیاستدانوں اور جماعتوں کے پاس نہیں،حالانکہ دنیا بھر میں کتنی ہی حکومتیں بدل جائیں مگر ان ممالک کی خارجہ پالیسی یکساں رہتی ہیں اور ان کے سفیروں کو معلوم ہوتا ہے کہ گائیڈ لائن کیا ہے۔

(جاری ہے)


مگر یہاں ویسا نہیں ہے جس کے بارے میں ہمیں اچھی طرح اندازہ اس پرگرام میں شرکت سے ہوا،تینوں مقررین کے خیالات الگ الگ تھے ،مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کے اندرونی حالات کے پیش نظر بنتی ہے ۔ متوازن خارجہ پالیسی کے لئے ضروری ہے کہ ملک معاشی اور سیاسی سطح پرمستحکم ہو۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں گزشتہ 10 سالوں میں کافی اتارچڑھاؤ آیا ہے ۔

بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے ۔ اس سلسلے میں ثبوت جمع کرلیے ہیں، ان دستاویزات کو قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میں پیش کیا جانا تھا لیکن چونکہ یہ ملاقات نہیں ہوسکی اس لیے اب ان دستاویزات کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا،ساتھ یہ بھی کہا کہ مستقبل میں چین،افغانستان اور ایران پر فوکس کرینگے،افغانستان کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر دوسرے دو ممالک کیوں؟چین تو شروع سے ہی پاکستان کا دوست اور حمایتی ہے اور ایران ایک پڑوسی ملک ہے کیا اس کے ساتھ تعلقات امریکی اشارے پر بڑھائے جانے کا حکم ہوا ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔


فورم میں سوالات و جوابات کاسیشن بھی تھا ،تینوں مہمانوں نے اپنے موقف پر زور دیا ،مگر ایک بات پر تینوں متفق نظر آئے کہ خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دینی چاہی ہے،کہ پاکستان کے اور عام پاکستانی کے مفاد میں کیا بہتر ہے،اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ حکومت کی خارجہ پالیسی کن بنیادوں پر پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہے؟ اور مستقبل میں ایران کے ساتھ فوکس کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟کیا اس سے عرب ممالک جہاں پینتس لاکھ پاکستانی کام کررہے ہیں اور کثیر زرمبادلہ بھجہ رہے ہیں ،کیا عرب ممالک اس سے ناراض نہیں ہونگے اور اس کا متبادل ایران ہمیں کیا فراہم کرے گا؟یہ پینتس لاکھ افراد اگر وہاں سے فارغ کئے جاتے ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا ،ہماری ایکسپورٹ ایران کتنی بڑھ جائے گی ؟ کیا وہ انڈیا سے چاول لینا بند کرکے ہم سے لے گا ؟ اور کیا گیس پائپ لائن کے علاوہ بھی کوئی مشترکہ کاروبارہوگا؟یا سرحدوں پر اس کی فائرنگ جاری ہوگی؟ اور کیا وہ انڈیا کے تعاون سے گودار کے سامنے بندرگاہ بنانا بند کردے گا؟حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ تین ممالک پاکستان کے ایسے دوست ہیں کہ جنہوں نے ہر موڑ پر پاکستان کا ساتھ دیا ،ان میں چین،ترکی کے علاوہ تیسرا ملک سعودی عرب شامل ہے،جس نے ہر مشکل موڑ پر پاکستان کا ساتھ دیا حکومت کوئی بھی ہو،سعودی عرب نے ہر فورم پر پاکستان کا ساتھ دیا اس حکومت کو بھی ڈیڑھ ارب ڈالرز بغیر شرائط کے دیئے ،اور اس وقت بھی پاکستان میں تعینات ہونے والے سفیر عبداللہ مرزوق الزہرانی نے سعودی قومی دن کے مناسبت سے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دو بردار ممالک ہیں ان کے تعلقات میں کمی نہیں آئی اور سعودی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بین الاقومی فورمزپر ساتھ دیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جبکہدوسری جانب سب جانتے ہیں کہ ایٹمی معامالات میں ایران نے ہمیں دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کی کوشش کی،پھر کیا وجہ ہے کہ مسقبل کی پلاننگ میں اس پر فوکس کیا جائے اگر مسئلہ گیس پائپ لائن کا ہے تو اس کے متبادل کئی منصوبے موجود ہیں جن میں تاپی ایگرمنٹ جیسا اہم منصوبہ بھی ہے۔


رہی بات ہندوستان کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی کی تو ہمارے حکمران طبقے نے سوا چند کے سب نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت مہاراج راضی ہوجائے مگر اس نے تجارت سے لیکر ہر فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور ورکنگ باونڈری پر اس کی جارحیت تو الگ ہے ،صرف 2015 میں بھارتی فوج نے 221 مرتبہ جارحیت کا مظاہرہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک اور 71 زخمی ہوئے جبکہ اس کے برعکس پاکستانی فورسز بھارتی آبادیوں کو نہیں بلکہ چوکیوں کو نشانہ بنا کر مؤثر جواب دیتی ہیں،بھارت ،ایران ،چین سمیت سب مصروف عمل ہیں کیونکہ خطے میں امن سب کے مفاد میں ہے،تاپی ایگریمنٹ کی شکل میں سامنے آچکا ہے جس میں پاکستان و افغانستان اہم شراکت دار ہیں ،یہ گیس پائپ لائن معاہدہ جو کہ ترکمانستان سے انڈیا تک ہے، جس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا اس کو مکمل کیا جائے کیونکہ یہ وہ ایگریمنٹ ہے کہ جس کے مکمل ہونے سے کچھ حد تک خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کیا اسٹرٹیجی اختیار کرے گا ،کیونکہ یہ احتیجاج اوراور بین الاقومی اداروں کو آگاہ کرنا اچھی بات ہے مگر یہ ہم گذشتہ پینسٹھ برسوں سے کرتے آرہے ہیں ،کیا یہ سلسلہ ماضی کی طرح جاری رہے گا؟ ایک اور بات ہندوستان میں تعینات پاکستانی سفیرکہتا ہے کہ چند لوگ دونوں ممالک کے درمیان امن نہیں دیکھنا چاہتے موصوف سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ یہ باڈرز پر فائرنگ انڈین آرمی کررہی ہے یہ پھر چند افراد،خدارا ہندوستان کی محبت میں اتنا آگے نہ بڑھیں ،کیونکہ سقوط ڈھاکہ سے لیکر کشمیر تک اس ہی کے ہم ڈسے ہوئے ہیں اور کشمیریوں نے ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا مظاہرہ کیا،مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ بین الاقومی میراتھن میں بھی انہوں نے پاکستانی جھنڈے بلند کئے،خارجہ پالیسی سازوں کو اس مسئلے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا ،پاکستان اور ریجن کو امن چاہی ہے مگر کس قیمت پر اس کا فیصلہ ہمارے خارجہ پالیسی میکرز کو کرنا ہے نا کہ امریکی لابی کے کہنے پر اس لئے خدرا جب کسی ایسے فورم پر جائیں تو کم از کم سب کا موقف اوربیان یکساں ہونا چاہی ہے ورنہ ایک بار پھر مذاکرات شروع نہیں ہوسکے گئے ۔

ایک بات چلتے چلتے اور مذاکرات ریجن کی ضرورت ہے ہم تو ویسی ہی پرائی جنگوں میں دھنسے ہوئے ہیں اس لئے اب وقت دوسروں کے پیچھے ہٹنے کا ہے ہمارا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :