ہے کوئی ؟جو آج کے ریجی نالڈ کو جواب دے سکے؟

جمعہ 16 جنوری 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

تاریخ میں فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کا ایک مشہور واقعہ سنہرے حروف سے تحریر ہے فلسطین کی فتح سے قبل جب ایک قلعہ فتح ہوا تو صلاح الدین ایوبی کے سامنے قیدی لائے گئے،ان قیدیوں میں ایک بڑا سردار ریجی نالڈ بھی تھا ،یہ ریجی نالڈ نامی بدبخت سردار نے ایک مرتبہ مسلمانوں کے قافلے کو لوٹتے ہو ئے مسلمانوں سے کہا تھا کہ کہاں ہے تمھارا خدا ؟بلاوہ اپنے نبی محمدﷺ کو کہ وہ آکے تمہیں مجھ سے بچائے،یہ خبر یہ گستاخی صلاح الدین ایوبی تک پہنچ چکی تھی ، صلاح الدین ایوبی نے قلعے سے گرفتار تمام افراد کو ریجی نالڈ کے علاوہ معاف کردیا اور اس موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا جو کہ رہتی دنیا تک رہے گا،گستاخ ریجی نالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے ہوئے ایوبی نے فرمایا تھا، آگیا ہے حضرت محمد ﷺ کا غلام ۔

(جاری ہے)


پاکستانی اخبارات نے خبر دی ہے کہ فرانسیسی جریدے نے ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شایع کیے ہیں سرورق کے علاوہ رسالے میں اندر کئی اور خاکے ہیں ایک کارٹون میں لوگ جنت میں پوچھ رہے ہیں ؛ستر حوریں کہاں ہیں؟ شمارے کے سرورق یعنی فرنٹ پیج پر اسے شایع کیا ہے اور یہ شمارہ سولہ زبانوں میں اور اس کی اشاعت جو کہ اس وقت ساٹھ ہزار ہے اس سے بہت زیادہ تیس لاکھ کاپیاں شایع کی گئی ،فرانسیسی رسالے چارلی ایبڈو کے مالک رچرڈملکانے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم کسی صورت شکست نہیں مانے گے چارلی ایبڈو کا نظریہ ہے کہ توہین کا حق حاصل ہے،واضح رہے کہ اسی ہفت روزہ نے ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکے فروری 2006 میں دوبارہ شائع کئے تھے جس پر اسلامی دنیا میں زبردست اشتعال پھیل گیا تھا جب کہ 2011 میں اخبار کے دفتر پر حملہ بھی ہوچکا ہے ۔

دوسری جانب ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ امریکا اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ہم دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے بیان میں واقعے کو بربریت قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادی فرانس کے ساتھ کھڑا ہے ۔
دوسری خبر اسی واقعے سے متعلق ہے ،گذشتہ دنوں فرانس میں پیرس حملوں کے خلاف ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئی جب کہ دارالحکومت میں مرکزی ریلی میں 40 سے زائد ممالک کے سربراہان سمیت اعلی حکام نے شرکت۔


پیرس کے دی لا ریپبلک کے مقام پر لاکھوں افراد نے جمع ہوکر دہشت گردی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا جب کہ مرکزی ریلی میں فرانسیسی صدر فرانسز اولاند، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، ترک وزیراعظم احمد داؤد اوگلو سمیت 40 ممالک کے سربراہان سمیت کئی ممالک کے وزرا خارجہ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ ریلی میں مسلمان ممالک ترکی اور فلسطین سمیت دنیا بھرسے 40 ممالک کے سربرہان مملکت شریک ہوئے ۔

مذہب اور نسل کی قید سے آزاد عوام اور حکمران، یہودی، عیسائی سربراہان ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر ہزاروں افراد کی قیادت کرتے ہوئے حملے میں مرنے والوں کی یاد میں سڑک پر مارچ کرتے رہے ۔ترک وزیراعظم احمد داود اوغلو،، فلسطین کے صدر محمود عباس ،جرمن چانسلر ایجنیلا مرکل ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سمیت کئی عالمی رہنماوں نے شرکت کی۔


واضح رہے کہ چند 3 روز کے دوران پیرس میں دہشت گردوں کے حملے کے دوران صحافیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 17 افراد ہلاک ہوئے چکے ہیں۔
سب متحد ہیں ،یورپ سے لیکر امریکہ تک کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ پاک ہستیوں کی گستاخی نہیں کرنی چاہئے ، آزادی رائے کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء کی گستاخیاں کی جائیں،دنیا میں ایک قانون ہونا چاہیئے ،ہولو کاسٹ کا لفظ آئے تو یہی چارلی ایبڈو(شارلی ہبڈو) اس کے بارے میں لکھنے والے صحافی کو فارغ کردیتا ہے ، اور اسے ایک طبقے کے جذبات مجروح قرار دیا جاتا ہے ،اور دوسری طرف گستاخانہ خاکے آزادی رائے کا حصہ قرار پاتے ہیں،صحافتی اصول کہاں چلے گئے ۔


آج تو فلسطینی صدر کی شرکت سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح بھی تڑپ گئی ہوگی ،مگر علامہ اقبال تو بہت پہلے کہہ گئے ؛کہ تے تو تمہارے آباء مگر تم کیا ہو؟ ایک رسالہ اسلام اور اسلامی شخصیات اور احکامات کا کھلے عام مذاق اڑارہا ہے اور ادھر مسلمانوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ جیسے مردے ہوں،کوئی بولنے لکھنے کو تیار نہیں وہ جو شدت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں کوئی مسلم ملک، حکمران یورپ سے ،اقوام متحدہ سے یہ سوال نہیں کررہا کہ بس بہت ہوگیا اس کے بات کوئی گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی آو نیا سوشل کنٹریکٹ کرتے ہیں ورنہ بائیکاٹ ،لفظ بائیکاٹ آجائے تو مغرب کے تلوے چاٹنے والے دانش فروش ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ ہم دنیا کے بغیر نہیں چل سکتے یہ شدت پسندی ہے،وغیرہ وغیرہ۔


اگر یہ شدت پسندی ہے تو ہولو کاسٹ پر لکھنے نہ دینا کیا ہے ،ویٹی کن کو پارسائی کا لبادہ کیوں دیا جاتا ہے کیا پوری دنیا کو معلوم نہیں کہ ہورہا ہے ۔اگر اپنے نبیﷺ کی گستاخی کرنے والوں کے جواب میں لکھنا بولنا شدت پسندی ہے تو ہاں ہم ہیں اور اپنے قلم زبان سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہیں گئے مگر سوال پھر وہی ایک ہے ساٹھ ممالک کے حکمران جن کے کئی القابات بھی ہیں ان میں ایک صلاح الدین ایوبی کا پیرو کار نہیں؟ ایک بھی نہیں کہ آج کے ریجی نالڈ(رچرڈ مالکا) کی زبان گھتی سے کھنچ سکے کہ ہم زندہ ہیں جس نے بھی ہمارے آقا ﷺ کی گستاخی کی تو اس کا انجام وہی ہوگا جو ریجی نالڈ کا ہوا تھا۔

مگر یہاں تو بات ہی دوسری ہے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے جو کہ اچھا ہے مگر گستاخ آسیہ کی باری کب آتی ہے یہ بھی ایک سوال ہے ،اس پر اتنی خاموشی کیوں؟ شائد کوئے شور کرینگے اس لئے یا پھر غلامانہ سوچ ؟کہ ان کے آقا (امریکہ و یورپ) ناراض ہونگے؟ سوچنے کی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :